رافیل سودے کو لے کر دائر عرضی کے تناظر میں سرکار نے سپریم کورٹ میں ایک نیا حلف نامہ دائر کرکے کہا ہے کہ غیر مصدقہ میڈیا رپورٹس سے سودے پر دوبار ہ غور کرنے کی بنیاد فراہم نہیں ہوتی۔
نئی دہلی : رافیل سودے کے بارے میں سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کرکے مرکز کی مودی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ سودے پر پی ایم او کی نگرانی کو متوازی بات چیت یا دخل کے طور پر نہیں دیکھا جاسکتا۔گزشتہ 14 دسمبر کو رافیل سودے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو لے کر ایک ریویو پیٹیشن پر سنیچر کو شنوائی ہوئی ۔ گزشتہ 14 دسمبر کو بھی اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے رافیل سودے میں جانچ کی مانگ والی تمام عرضیاں خارج کر دی تھیں اور عدالت کی نگرانی میں جانچ کی مانگ بھی ٹھکرا دی تھی ۔
اس کے بعد گزشتہ 21 فروری کو رافیل سودے کو لے کر دائر ریویو پیٹیشن پر سپریم کورٹ شنوائی کو تیا رہوگیا تھا ۔ رافیل سودے کی آزادانہ جانچ کی مانگ کرنے والی عرضی خارج ہونے کے بعد سابق وزیر ارون شوری اور یشونت سنہا کے ساتھ ساتھ سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے سپریم کورٹ میں ریویو پیٹیشن دائر کرکے فیصلے پر نظر ثانی کی مانگ کی تھی ۔خبررساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق ، چیف جسٹس رنجن گگوئی نے مرکزی حکومت کے حلف نامے کو پڑھتے ہوئے کہا کہ ، پی ایم او کے ذریعے رافیل سودے کی نگرانی کو اس دخل یا متوازی بات چیت نہیں کہا جاسکتا ہے ۔ اس وقت کے وزیر دفاع نے فائل میں ریکارڈ کیا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ پی ایم او اور فرانسیسی صدر دفتر ان مدعوں کے ڈیولپمنٹ کی نگرانی کر رہا تھا جو ایک بیٹھک کا نتیجہ تھی ۔
اس عرضی پر شنوائی کرنے والی بنچ میں سی جے آئی رنجن گگوئی کے علاوہ جسٹس سنجے کش کول اور جسٹس کے ایم جوزف بھی شامل ہیں۔مرکز کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ فرانس سے 36 رافیل کی خرید اری کو برقرار رکھنے کا عدالت کا فیصلہ صحیح تھا ۔ یہ بھی کہا گیا کہ غیر مصدقہ میڈیا رپورٹس اور انٹرنل فائل میں درج باتوں کو ایک خاص طریقے سے سامنے رکھنے سے سودے پر دوبارہ غور کرنے کی بنیاد فراہم نہیں ہوتی ۔
سپریم کورٹ اس معاملے میں اگلی شنوائی 6 مئی کو کرے گا۔
واضح ہو کہ ہندوستان اور فرانس کے بیچ 7.87 ارب یورو کے متنازعہ رافیل سودے کو لے کر ہوئی بات چیت میں وزیر اعظم دفتر (پی ایم او) کی جانب سے متوازی بات چیت کی وزارت دفاع نے مخالفت کی تھی ۔دی ہندو نے انکشاف کیا ہے کہ رافیل سودے میں پی ایم او نے فرانس حکومت سے متوازی بات چیت کی تھی ۔ اخبار کا کہنا ہے کہ یہ صاف تھا کہ پی ایم او کی جانب سے اس طرح کی متوازی بات چیت نے اس سودے پر وزارت دفاع اور ہندوستاتی مذاکرہ کاروں کی بات چیت کو کمزور کیا۔24 نومبر 2015 کے وزارت دفاع کے ایک خط کے ذریعے اس پورے معاملے کو اس وقت کے وزیر دفاع منوہر پریکر کی جانکاری میں لایا گیا تھا۔
اس خط میں کہا گیا ہے کہ ، ہمیں پی ایم او کو صلاح دینی چاہیے کہ کوئی بھی افسر جو اس سودے کے لیے ہندوستان کی طرف سے مذاکرہ کرنے والی ٹیم کا حصہ نہیں ہے اس کو فرانس حکومت کے افسروں کے ساتھ متوازی بات چیت سے دوری بنائے رکھنی چاہیے۔وزارت دفاع کے نوٹ کے مطابق، پی ایم او کی طرف سے یہ متوازی بات چیت فرانس کی مذاکرہ کار ٹیم کے صدر جنرل اسٹیفن ریب کے 23 اکتوبر 2015 کو لکھے خط سے سامنے آئی۔
غور طلب ہے کہ ستمبر 2017 میں ہندوستان نے تقریباً 58 ہزار کروڑ روپے کی لاگت سے 36 رافیل لڑاکو ہوائی جہاز کی خرید کے لیے فرانس کے ساتھ انٹر گورنمنٹ ڈیل پر دستخط کیے تھے۔ اس سے تقریباً ڈیڑھ سال پہلے 2015 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے پیرس کے سفر کے دوران اس تجویز کا اعلان کیا تھا۔الزام لگے ہیں کہ سال 2015 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے اس سودے میں کی گئی تبدیلیوں کے لیے ڈھیروں سرکاری اصولوں کو طاق پر بھی رکھا گیا۔ یہ تنازعہ اس سال ستمبر میں تب اور گہرایا جب فرانس کی میڈیا میں ایک خبر آئی، جس میں سابق فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند نے کہا کہ رافیل ڈیل میں ہندوستانی کمپنی کا انتخاب نئی دہلی کے اشارے پر کیا گیا تھا۔
Categories: خبریں