صحافی تناؤ میں ہے۔ لہر کھوجنے آیا تھا۔ انڈرکرنٹ مل رہا ہے۔ تبھی مودی-مودی کرتی ہوئی ایک جیپ گزرتی ہے۔ آج شام امت شاہ کی ریلی ہونے والی ہے۔ دہلی سے یوپی آیا صحافی ٹوئٹ کرتا ہے کہ راہل گاندھی سو رہے ہیں۔ اکھلیش یادو کھو گئے ہیں۔ مایاوتی مل نہیں رہی ہیں۔ انتخاب صرف مودی لڑ رہے ہیں۔ صحافی انتظار نہیں کر سکتا ہے۔ وہ یوپی آیا ہے دہلی جاکے ٹوئٹ کرنے کے لئے۔
اتر پردیش والے پریشان ہیں۔ جدھر دیکھتے ہیں ادھر دہلی سے آئے صحافی مل جاتے ہیں۔ لوگ اپنا کام نہیں کر پا رہے ہیں۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ صحافی خبر کھوج رہے ہیں۔پتہ چلتا ہے کہ دہلی سے آکر لہر کھوج رہے ہیں۔ لہر کھوجکر دہلی چلے جائیںگے۔ وہاں جاکر ٹوئٹ کریںگے۔ گاؤں کے لوگ ایک طرف سے صحافیوں کو نمٹاتے ہیں تو دوسری طرف سے ریسرچر آ جاتے ہیں۔گاؤں کے کچھ لوگ اچانک دہلی اور نیویارک سے کنیکٹ ہو گئے ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ ہندوستانی جمہوریت کا سورس اگر کہیں پھینکا پڑا ہے تو گاؤں میں ہے۔ چائے کی دکان پر سارے سورس بیٹھ گئے ہیں۔ بیچ میں بیٹھے صحافی کی فوٹو لی جا رہی ہے۔ دہلی ٹوئٹ ہو رہا ہے۔کنفرم ہو گیا ہے کہ یہ ووٹر ہیں۔ لیکن سیمپل ٹیسٹ باقی ہے۔ نام سے شروع ہوکر بات ٹائٹل پر ختم ہوتی ہے۔ یادو کو گٹھ بندھن کا سمجھا تھا مگر بی جے پی کا نکل گیا ہے۔
مشرا جی سماجوادی ہو گئے ہیں۔ صحافی کو لگا تھا کہ راشٹر وادی ہوںگے۔ موریہ اور کشواہا کا پتہ کرنے کا نیا چلن ہے۔ ان کا دیکھو کدھر ووٹ کریںگے۔ کیا سوچ رہے ہیں۔ کیا بالمیک جاٹو کے ساتھ جائیںگے، کیا کشواہا کرمی کے ساتھ جائیںگے۔کوئی کہیں نہیں جا رہا ہے۔ سب وہیں چائے کی دکان پر بیٹھے ہیں۔ تناؤ میں ہیں کہ بل کون بھرےگا۔ چرچہ کا اسکرین شاٹ لیا جا چکا ہے۔ اب تو بچنے کا بھی اسکوپ نہیں کہ ہم ٹھیکے پر نہیں تھے۔چائے والا تنگ آ چکا ہے۔ دہلی سے ببُنی آئی ہیں۔ گرمی میں آنچل سر پر ہے۔ بابو کی آنکھوں میں چشمہ فلیش کر رہا ہے۔ اچانک سے اس کی دکان پر گوگا جاسوس کی ٹیم کے دو کارکن نظر آنے لگے ہیں۔ کرے تو کیا کریں۔اتر پردیش پریشان ہے۔ صحافی پریشان ریاست کو لےکر پریشان ہیں۔ پریشان پریشان کو لےکر پریشان ہے۔ تبھی جی ایس ٹی سے برباد ایک کاروباری بھارت ماتا کی جئے چلاتا ہے۔ جی ایس ٹی کے بعد کالا دھن ختم ہو گیا ہے۔ جی، آپ کا کتنا ختم ہوا۔
کاروباری کہتا ہے کہ ہمیں بدنام کر دیا گیا۔ ہم تو ایمانداری کی کمائی کھاتے تھے۔ جی ایس ٹی نے ہمیں چور بنا دیا۔ صحافی پرجوش ہوتا ہے۔یہ اوپر سے پرو-مودی ہے مگر اندر سے اینٹی-مودی ہو گیا ہے۔ کاروباری سمجھنے میں لگا ہے کہ صحافی پرو-مودی ہے یا اینٹی-مودی ہے۔ وہ دونوں باتیں بولکر چلا جاتا ہے۔ صحافی کا نوٹس گج بج ہو جاتا ہے۔لو چل رہی ہے۔ صحافی گاؤں میں جاتا ہے۔ تالاب کے کنارے۔ جہاں سارے پالیتھن کے پیکیٹ ایک ساتھ رہتے ہیں۔ بڑے پیکٹوں کے درمیان گٹکھا کا پاؤچ بھی سیف فیل کر رہا ہے۔چار لوگ بیٹھے صفائی کی باتیں کر رہے ہیں۔ کم سے کم چرچہ تو کی۔ بیت الخلا تو بنایا۔ بھلے چل نہیں رہا مگر بیت الخلا کھڑا تو ہے۔ مکھیا جی لے لئے کچھ پیسے۔ لیکن باقی تو دئے۔
صحافی سمجھ نہیں پا رہا ہے۔ مودی کی تعریف کر رہا ہے یا کھنچائی۔ اس کو صرف ایک ہی بات جاننی ہے۔ مودی یا گزتھ بندھن۔ گاؤں کے لوگ کئی باتیں بتانا چاہتے ہیں۔ صحافی دو میں سے ایک ہی سننا چاہتا ہے۔ اس کو دہلی میں سب سے پہلے ٹوئٹ کرنا ہے۔ووٹرکے پاس اپنا ایکسرے مشین ہے۔ صحافی کے پاس ایم آر آئی مشین ہے۔ دونوں ایک دوسرے کا ٹیسٹ کر رہے ہیں۔چینل کا نام سنکر لوگوں نے گلا کھکھار لیا ہے۔ اپنا پینترا بدل لیا ہے۔ ووٹر کوئی سگنل ہی نہیں دیتا ہے۔ ووٹر ڈرا ہوا ہے۔ صحافی سہما ہوا ہے۔بات چیت شروع ہوتی ہے۔ووٹر ڈرا ہوا ہے۔ صحافی سہما ہوا ہے۔ پتہ نہیں کون کیا نکل جائےگا۔ ووٹر تناؤ میں ہے کہ صحافی مودی بھکت ہے یا گٹھ بندھن کا۔ صحافی تناؤ میں ہے کہ ووٹر مودی بھکت ہے یا گٹھ بندھن کا۔ دونوں ایک دوسرے کا جائزہ لیتے ہیں۔ باہر سے اندرونی امتحان چالو ہے۔
لگتا ہے یہ مودی بھکت ہے۔ چلو اتنا تو کنفرم ہو گیا ہے مگر بول کیوں نہیں رہا ہے۔ بولنے کے لئے ہی تو مودی بھکت بنا تھا۔ دوسرے کی بولتی بند کرنے کے لئے مودی بھکت بنا تھا۔ اب کیوں نہیں بول رہا ہے۔2014 میں تو خوب بول رہا تھا۔ 2019 میں کیا ہو گیا ہے۔ صحافی سوچنے لگتا ہے۔ یار، یہ لگ تو رہا ہے کہ مودی بھکت ہے۔ کہیں ہم اس کو اینٹی-مودی تو نہیں لگ رہے ہیں۔ کیا پتہ اسی سے خاموش ہو۔ کچھ نیوٹرل پوچھتے ہیں۔قومی سلامتی کا سیمپل نکالتا ہے۔ اب تو بولےگا ہی۔ کیا آپ پلواما اٹیک کے بعد ہندوستان کے اٹیک سے خوش ہیں۔ سوال پھینککر صحافی ووٹر کے پھٹنے کا انتظار کرتا ہے۔ ہاں، بولےگا تو بھکت اور نا، بولا تو گٹھ بندھن۔ووٹر پھٹا ہی نہیں۔ بولتا ہے کہ بابو ہم پلواما پر مودی کے ساتھ ہیں مگر یوپی میں مایاوتی کے ساتھ ہیں۔ وہاٹ! آپ پلواما پر مودی کے ساتھ ہیں مگر یوپی میں مایاوتی کے ساتھ۔ کیا مطلب ہوا اس کا۔
انڈرکرنٹ بولتے ہیں اس کو دہلی سے آئے بابو جی۔ آپ لہر کھوجنے آئے تھے۔ ہم آپ کو انڈرکرنٹ بتا رہے ہیں۔صحافی تناؤ میں ہے۔ لہر کھوجنے آیا تھا۔ انڈرکرنٹ مل رہا ہے۔ تبھی مودی-مودی کرتی ہوئی ایک جیپ گزرتی ہے۔ آج شام امت شاہ کی ریلی ہونے والی ہے۔دہلی سے آیا صحافی ٹوئٹ کرتا ہے کہ راہل گاندھی سو رہے ہیں۔ اکھلیش یادو کھو گئے ہیں۔ مایاوتی مل نہیں رہی ہیں۔ انتخاب صرف مودی لڑ رہے ہیں۔ صحافی انتظار نہیں کر سکتا ہے۔ وہ یوپی آیا ہے دہلی جا کر ٹوئٹ کرنے کے لئے۔لکھنؤ ایئر پورٹ۔ صحافی ٹوئٹ کرتا ہے۔ یوپی میں گٹھ بندھن کی چرچہ تو ہے مگر زمین پر بی جے پی ہے۔ ٹوئٹ کرنے کے بعد صحافی کی دوسری پریشانی شروع ہو جاتی ہے۔ لائکس اور ری-ٹوئٹ گننے لگتا ہے۔ کم آیا ہے۔ لگتا ہے کہ سوشل میڈیا سے مودی لہر مٹ گئی ہے۔
پھر وہ نمبر ٹوئٹ کرتا ہے۔گٹھ بندھن -40، بی جے پی 35، کانگریس-5۔ بس اس کا سارا ٹینشن نکل گیا ہے۔ اب اس کو ہوائی جہاز کی سیٹ کے بغل میں ایک خاتون ملتی ہے۔کہتی ہے کہ وہ تو پرینکا کو ووٹ دےگی۔ پھر وہ ٹوئٹ کرتا ہے کہ پرینکا کو کوئی کم نہ آنکے۔ لیکن ایئر پورٹ سے باہر آتے ہی اولا والا بولتا ہے کہ ہم جون پور سے ہیں۔ مودی جی آ رہے ہیں۔ صحافی پھر ٹوئٹ کرتا ہے کہ مودی ہی آ رہے ہیں۔دہلی سے جانے والے صحافیوں پر اسٹوری کا دباؤ نہیں ہوتا ہے۔ نمبر اور لہر بتانے کا دباؤ ہوتا ہے۔ نہیں بولو تو لوگ کونے میں کھینچکر لے جاتے ہیں۔ مجھے صرف بتا دو۔ لیکن بتانے سے پہلے اپنا بتا دیتے ہیں۔انہوں نے دہلی سے ہی یوپی کا نمبر بتا دیا ہے۔ اب دوسرا تناؤ۔ اس سے میچ کرتا ہوا کچھ بول دیں یا اپنا والا بولنے کا رسک لیں۔ صحافی بہت پریشان ہے۔ اس کو بامعنی ہونا ہے۔ بامعنی ہونے کے لئے لہر بتانا ہے۔ صحیح صحیح نمبر بتانا ہے۔
(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔ )
Categories: فکر و نظر