نریندر مودی کی جیت کا ہندوستان کے لئے کیا معنی نکلتا ہے؟ ایک حد تک یہ ان کو اور بی جے پی کو دعویٰ کرنے کا موقع دیتا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں انہوں نے جو کچھ بھی کیا ہے، اس کے تئیں عوام نے اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ لیکن کیا یہ سچ ہے؟
300 سیٹ اور 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو ملے ووٹ سے زیادہ ووٹ فیصد کے ساتھ نریندر مودی کے پاس 2019 کے لوک سبھا انتخاب کے نتائج سے مطمئن ہونے کی تمام وجہیں ہیں۔ کسی بھی دوسرے شخص کے مقابلے وہ بہتر جانتے ہیں کہ یہ نتائج کیسے آئے ہیں۔بے پناہ پیسے کی طاقت کے سہارے چلائی گئی ان کی انتخابی مہم میں بہت ہوشیاری سے پانچ سال پہلے 2014 میں ان کے کئے گئے ترقی کے وعدوں کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ اس کی جگہ ان کا بھروسہ ہندوؤں کے ذہن میں مسلمانوں کو لےکر ڈر پیدا کرنے اور خود کو دہشت گردی کو ہرانے میں اہل واحد ہندوستانی رہنما کے طور پر پیش کرنے پر زیادہ تھا۔مودی نے کھلے طور پر پلواما خودکش حملے میں ہلاک ہوئے سی آر پی ایف کے جوانوں کا استعمال ایک انتخابی ہتھیار کے طور پر کیا اور شرم و حیا کو تارتار کرتے ہوئے ان کے نام پر ووٹ مانگنے سے بھی نہیں چوکے۔ ان کو اس بات سے بھی مدد ملی کہ اہم حزب مخالف پارٹی کانگریس کے پاس اس جنونی حکمت عملی کا کوئی توڑ نہیں تھا۔
وردھا میں مودی نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے کھلےعام مذہب کے نام پر ہندو رائےدہندگان سے ووٹ مانگا کہ دہشت پھیلانے کے الزام میں پرگیہ سنگھ ٹھاکر کے خلاف مقدمہ چلاکر ان کے مذہب کو بدنام کیا گیا۔ انہوں نے وائناڈ سیٹ سے راہل گاندھی کے انتخاب لڑنے کا مذاق بنایا،’وہاں اقلیت اکثریت میں ہے ‘، مانو مسلمان اس ملک کے برابری کے شہری نہیں ہیں۔پولرائز کرنے والے یہ بیان ٹیلی ویژن پر براہ راست دکھائے گئے اور پورے ملک میں بی جے پی کے پروپیگنڈہ سسٹم کے ذریعے ان کو پھیلایا گیا، جس نے یہ یقینی بنایا کہ یہ زہر دور دور تک چاروں طرف پھیل جائے۔ آسام اور مغربی بنگال میں اس نے بنگلہ دیش سے آنے والے مہاجر کے لئے مذہب پر مبنی شہریت کی بی جے پی کی تجویز کو کھادپانی دینے کا کام کیا۔
جب الیکشن کمیشن نے یہ احساس دلا دیا کہ وہ مثالی ضابطہ اخلاق کی اس قدر کھلےعام خلاف ورزی کے لئے مودی پر کسی طرح کی کوئی کارروائی یا ان کو انتباہ تک دینے کے لئے تیار نہیں ہے، تب مودی اور بی جے پی صدر امت شاہ نے ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو بھوپال سے پارٹی کے امیدوار کے طور پر کھڑا کر دیا۔ان کی امیدواری نہ صرف ہندو شدت پسندبلکہ تشدد اور مسلمانوں کے خلاف دہشت کو بڑھاوا دینے کی علامت تھی۔ امیدوار بنائے جانے کے بعد پرگیہ ٹھاکر کا پہلا بیان 2008 میں سینئر پولیس افسر ہیمنت کرکرے کی (پاکستانی دہشت گردوں کے ذریعے) قتل کی حمایت کا تھا، کیونکہ انہوں نے ان پر (پرگیہ ٹھاکر پر)مسلمانوں کو مارنے کے لئے بم رکھنے کا ملزم بنایا تھا۔
اس کے بعد ان کے ذریعے مہاتما گاندھی کے قاتل کی ستائش نے ایسی شرمندگی بھری صورت پیدا کر دی کہ مودی کو ان سے دوری بنانے کی کوشش کرنی پڑی۔ لیکن مودی نے یہاں بھی کافی ہوشیاری سے اس سیاست کی کوئی تنقید نہیں کی، جس کی نمائندگی ناتھو رام گوڈسے کرتا تھا۔پرگیہ کی طرح ہی ان کے پاس بھی گاندھی یا ان کے اصولوں کے لئے وقت نہیں ہے؛ لیکن ان کی حکمت عملی گاندھی کو ہتھیانے اور جہاں ممکن ہو ان کا استعمال کرنے کی ہے، نہ کہ ان کے قتل کو صحیح ٹھہرانے کی کوشش کرنے کی۔اگر مودی اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے، پوری طرح سے اپنی ‘ حصولیابیوں’ اور ان کو لےکر عوام کے نظریہ اور حزب مخالف کے رہنماؤں پر عوام کے اعتماد کے نہ ہونے پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے یہ انتخاب جیتتے تو بات الگ ہوتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، کیونکہ شاید وہ جانتے تھے کہ یہ کافی نہیں ہوگا اور دوسری باتوں کی بھی ضرورت ہوگی۔
کسی کے لئے انتخاب میں بی جے پی کی جیت کو ‘وجئے بھارت’کہنا کیسے ممکن ہے-جیسا کہ مودی چاہتے ہیں-جبکہ اس کا مطلب بھوپال سے پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی جیت کو ‘ ہندوستان کی جیت ‘کے طور پر قبول کرنا ہے؟بی جے پی کا بچاؤ کرنے والے اب یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ مودی اب انتخاب کے آخری مرحلے سے پہلے کی گئی اپنی کوشش سے بھی زیادہ شدت سے پرگیہ ٹھاکر سے دوری بنائیںگے۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ٹھاکر کو بھی اسی طرح سے دودھ میں پڑی مکھی کی طرح باہر کر دیا جا سکتا ہے، جیسے پروین توگڑیا کو گجرات میں کیا گیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ وزیر بھی بن جائیں۔ مودی کا مقصد اس ملک کی نبض میں ایک وائرس گھولنے کا ہے، ایک بار مقصد پورا ہو جانے کے بعد آدمی کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی ہے۔
مودی کی حیرت انگیز جیتکے تین اور پہلو ہیں، جو ہمارے لیے باعث تشویش ہیں۔ پہلا، پیسے کی طاقت کا اب تک نہ سنا گیا استعمال، جس میں ان کی مدد ان کے ہی ذریعے بنائے گئے قانون نے کی، جو عوام کو وزیر اعظم کے مالدار اور طاقتور دوستوں کی پہچان جاننے سے روکتا ہے۔ان کارپوریٹ دوستوں نے ہی بی جے پی کے بےحد خرچیلے انتخابی مہم اور اشتہار بجٹ کا خرچ اٹھایا۔اس اشتہار بجٹ میں ایک 24 گھنٹے کا پروپیگنڈہ چینل بھی تھا جو پراسرار طریقے سے ٹی وی کے پردے پر آیا اور غائب ہو گیا اور الیکشن کمیشن ہاتھ پر ہاتھ رکھکر اصولوں کی دھجیاں اڑتے دیکھتا رہا۔چونکہ ہمیں یہ نہیں معلوم ہے کہ بی جے پی کی مہم کا خرچ کس نے اٹھایا تھا، اس لئے اس کے بدلے میں پالیسیوں کے طور پر کیا دیا جائےگا، یہ سمجھ پانا مشکل ہے۔
دوسری بات، میڈیا کا ایک بڑا حصہ مودی کی عظیم شخصیت کی امیج گڑھنے اور اس کو پھیلانے میں ساتھ دینے اور مختلف’اسکیموں ‘ کی بنیاد پر حکومت کے قصیدے پڑھنے کے لئے تیار ہے۔نجی ٹی وی چینلوں کے ذریعے مودی اور شاہ کی ریلیوں کو باقیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ وقت دیا گیا۔اس کے علاوہ، پچھلے پانچ سالوں میں میڈیا کے بڑے طبقے نے بی جے پی کے بانٹنے اور بھٹکانے والے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے، پبلک سیکٹر کو نقصان پہنچانے اور حکومت کی ناکام پالیسیوں کے تنقید و تجزیہ کو کند کرنے میں فعال طریقے سے مدد کی ہے۔پچھلے کچھ سالوں میں میڈیا کے اس رجحان نے سنگھ پریوار کے فرقہ وارانہ پیغام-‘لو جہاد’سے لےکر ایودھیا تک-اور قومی سلامتی کے مورچے پر بی جے پی کے بڑھاچڑھاکر کئے جانے والے دعووں کو آگے بڑھانے کے راستے کے طور پر کام کیا ہے۔
وزراء کے ذریعے بولے جانے والے سفید جھوٹوں-جیسے نرملا سیتارمن کا یہ دعویٰ کہ مودی کی مدت کار میں کوئی دہشت گردانہ حملہ نہیں ہوا-پر کسی نے کوئی سوال اٹھانا مناسب نہیں سمجھا۔پلواما میں سکیورٹی اور انٹلی جنس کی ناکامی یا بالاکوٹ میں ہندوستان کی طرف سے سوال اٹھانے والی جوابی کارروائی، جس میں ہندوستان کا ایک مگ طیارہ مار گرایا گیا، ایک کیپٹن پکڑا گیا اور ہندوستان کے ذریعے اپنے ہی ایک ہیلی کاپٹر کو مار گرایا گیا، جس میں فضائیہ کے چھ جوان اور ایک عام شہری کی موت ہو گئی، کو لےکر کسی نے کوئی سخت سوال پوچھنا ضروری نہیں سمجھا۔میڈیا کے جس رجحان نے مودی حکومت کے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کا انجن بننے سے انکار کر دیا، اس کو ہتک عزت کے مقدموں، سی بی آئی یا ٹیکس جانچ یا ایسی ہی کسی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی صحافیوں اور مدیروں کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔
سوشل میڈیا پر، جو تنقید کا ایک ذریعہ ہے، پر ایک ڈر کا ماحول بنانے کے لئے اور اس پر پہرےداری کے لئے پارٹی کارکنان اور لاچار پولیس اہلکاروں کے ذریعے ملک کے سائبر قوانین کا باقاعدہ طور پر اور غلط طریقے سے استعمال کیا گیا۔تیسرا، حال کی تاریخ میں اس بار الیکشن کمیشن کا کام کاج سب سے زیادہ جانبدارانہ رہا۔ الیکشن کمیشن نہ صرف مودی اور بی جے پی کے ذریعے عوامی نمائندگی قانون اور مثالی ضابطہ اخلاق کی کھلےعام خلاف ورزی پر کارروائی کرنے میں ناکام رہا، بلکہ اس نے کئی ایسے فیصلے بھی لئے، جو سیدھے طور پر پارٹی کو فائدہ پہنچانے والے تھے۔مثلاً،مغربی بنگال میں لاء اینڈ آرڈر اور سسٹم پر ایمرجنسی کی بنیاد پر انتخابی تشہیر کو پہلے بند کرنے کے لئے آئین کے آرٹیکل 324 کا استعمال، لیکن اس کی میعاد کو اس طرح سے طے کرنا کہ ریاست میں وزیر اعظم کی ریلیوں میں کوئی خلل نہ پڑے۔
ان سب کو ملاکر دیکھا جائے تو اس طرح کی جیت کا ہندوستان کے لئے کیا معنی نکلتا ہے؟ ایک حد تک یہ مودی اور بی جے پی کو یہ دعویٰ کرنے کا موقع دیتا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں انہوں نے جو کچھ بھی کیا ہے، اس کے تئیں عوام نے اپنے اعتماد کو ظاہرکیا ہے۔ایسے میں یہ ملک کی زیادہ فرقہ واریت، فیصلہ لینے کی زیادہ مرکزیت، زیادہ من مانی پالیسی-ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے زیادہ گنجائش، آزاد میڈیا کے تئیں زیادہ دشمنی بھرا احساس اور یقینی طور پر مخالفت کے تئیں زیادہ عدم رواداری کے لئے منچ تیار کرنے والا ہے۔مثال کے لئے انتخابی تشہیر کے دوران مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے سیڈیشن کے لئے اور زیادہ سخت قانون بنانے کی بات کی تھی۔ یہ بھی صاف ہے کہ اداروں کے خلاف مودی حکومت کی لڑائی کو اب اگلی سطح پر لے جایا جائےگا۔
پچھلے پانچ سالوں میں مودی کی تمام ممکنہ کوششوں کے باوجود دو قلعے ابھی تک کسی طرح سے خود کو تباہ ہونے سے بچائے ہوئے ہیں- عدلیہ اور مرکز-ریاست کے تعلق۔ اب یہ نشانے پر ہوںگے۔ ماہر اقتصادیات نتن دیسائی کا اندیشہ ہے کہ اپنی اکثریت کا استعمال مودی ریاست کے تناظر میں پالیسیوں کو’نافذ کرنے ‘ کے معاملے میں مرکز کو زیادہ طاقت دینے کی کوشش کرنے کے لئے کریںگے۔ وہ شاید اس کے لئے مالی کمیشن کا استعمال کریں۔جہاں تک عدلیہ کا سوال ہے، یہ طے ہے کہ بی جے پی تقرری پر اثر ڈالکر اس پر اپنی گرفت بنانے کی کوشش کرےگی۔ اس تباہ کن ایجنڈے کے خلاف حزب مخالف کا غیرسنجیدگی سے چلائی جانے والی مہم اثردار نہیں ہوگی۔امت شاہ نے جس انتخابی مشین کو تیار کیا ہے، اس سے حکمت عملی کی سطح پر ذات پرمبنی یا جماعت پرمبنی اتحاد کے سہارے نہیں لڑا جا سکتا۔ بی جے پی کی حکمت عملی ذات۔پات والی وفاداریوں کو توڑنا اور تمام ذاتوں کے ممبروں کو ‘ہندو’میں بدل دینے کی ہے۔
پہلے کی منڈل سیاست اپنی چالاک کمیونٹی فارمولے کی طاقت پر اس کمنڈل سیاست کو روکنے میں کامیاب رہی تھی، لیکن آج یہ ممکن نہیں ہے۔ اگر بی جے پی رائےدہندگان کو ہندو (اور مسلمان) کے طور پر دیکھتی ہے، تو شاید حزب مخالف کو ان کو ان کے اندر کےمزدور یا عورت یا کسان یا جوان کے طور پر مخاطب کرنا ہوگا۔ لیکن یہ بحث کسی اور دن کے لئے ۔
Categories: فکر و نظر