کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر نذیر احمد رونگا کو خصوصی ریاست کا درجہ ختم کرنے سے ایک دن پہلے 4 اگست کو پی ایس اے کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ الزام ہے کہ وہ اس فیصلے کو لےکرلوگوں کو متاثر کر سکتے تھے۔
سرینگر: جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ہٹانے کے بعد کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (کے ایچ سی بی اے) کے ایک سابق صدر کو پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت حراست میں لیا گیا تھا۔ان کو حراست میں لئے جانے کی کئی وجوہات میں سے ایک یہ تھی کہ ان میں انتخاب کے بائیکاٹ کے دوران بھی لوگوں کو ووٹ دینے کے لئے تیار کرنے کی صلاحیت تھی۔ دی وائر کے ذریعے حاصل کئے گئے دستاویزوں سے یہ پتہ چلا ہے۔
واضح ہو کہ، جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ہٹانے کے بعد سکیورٹی ایجنسیوں نے کسی بڑے مظاہرہ کے ڈر سے ریاست کے سیاستدانوں،کاروباریوں، وکیلوں اور کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کرنے کی بڑے پیمانے پر مہم چلائی ہے۔گرفتار کئے جانے والے لوگوں میں کے ایچ سی بی اے کے سابق صدر نذیر احمد رونگا بھی شامل ہیں۔ تنظیم کے ایک ممبر اوروکیل کے مطابق،رونگا کو 4 اگست کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس گرفتاری کے ایک دن بعد ہی مرکزی حکومت نے 5 اگست کو جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرتے ہوئے آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتماموں کو ختم کر دیا تھا۔
رونگا پر اسی متنازعہ پی ایس اے کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے، جس کے تحت کسی آدمی کو بنا سماعت کے چھے مہینے جیل میں رکھا جاسکتا ہے۔دی وائر کے ذریعے حاصل کئے گئے پی ایس اے کے دستاویزوں کے تحت رونگا کے خلاف یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ ان کے اندر انتخاب کےبائیکاٹ کے دوران بھی لوگوں کو رائے دہندگی کے لئے اکٹھا کرنے کی صلاحیت ہے۔دستاویز میں لکھا ہے، ؛اس حقیقت سے آپ کی صلاحیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ اپنے رائےدہندگان کو رائے دہندگی کے بائیکاٹ کےدوران بھاری تعداد میں باہر آنے اور رائے دہندگی کرنے کے لئے منا پائے ہیں۔
اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وکیل نے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا، یہاں تک کہ کشمیر میں آج کل لوگوں کو ووٹ کرنے اورجمہوریت میں شامل ہونے کے لئے ترغیب دینا جرم ہو گیا ہے۔کشمیر میں بڑی تعداد میں ہوئی گرفتاری نے وکیلوں میں بھی ڈر پیدا کر دیا ہے۔ بہت ہی مشکل سے بار کا کوئی ممبر عدالت میں جا پا رہا ہے اورجو جا پا رہے ہیں وہ بھی وکیلوں کی گرفتاری پر نہیں بول پا رہے ہیں۔ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کا صدر دفتر بالکل سنسان پڑا ہوا ہے۔ وادی کے حالات پر بات کرتے ہوئے وہاں پر موجود نوجوان وکیلوں کے ایک گروہ نے کہا کہ کشمیر میں ان کے کل کتنے دوست گرفتار ہوئے ان کی پوری تعداد کے بارے میں ان کو نہیں پتہ ہے۔
حالانکہ، انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ رونگا کو 4 اگست کو پی ایس اے کے تحت گرفتار کیا گیا اور حراست میں رکھا گیا ہے۔بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر پر 5 اگست کو آرٹیکل 370 کو ہٹانے اور ریاست کو دو یونین ٹریٹری ریاستوں میں بانٹنے کی مخالفت کرنےکا بھی الزام لگا ہے۔ دستاویز میں لکھا ہے، اس کو لر آپ نے کئی مظاہرےکی قیادت کی اور سرینگر ضلع میں نظم و نسق کا مسئلہ پیدا کیا۔حکومت نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ رونگا کا تعلق حریت کانفرنس کے رہنما میرواعظ عمر فاروق کے ساتھ ہے۔ حکومت نے کہا کہ وہ ان مجرمانہ معاملوں کو بھی دیکھ رہے تھے جو کہ علیحدگی پسندوں کے خلاف عدالت میں زیر التوا تھے۔
پی ایس اے دستاویز کے مطابق، آپ نے 2008، 2010 اور 2016 کے دوران بڑے پیمانے پر نظم ونسق کا مسئلہ پیدا کرنے کےمقصدسے مختلف سیمیناروں، ریلیوں اور مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا تھا۔وکیل نے کہا، بار ایسوسی ایشن کے موجودہ صدر میاں عبدالقیوم پر بھی پی ایس اے کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔ بعد میں ان کو آگرہ کی جیل میں بھیج دیا گیا۔ ہمارے پاس صرف کچھ ہی ایسے وکیلوں کے ریکارڈس ہیں جن پر پی ایس اے کے تحت معاملے درج کئے گئے ہیں۔برخاستگی کے ڈر سے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر ایک دیگر وکیل نے کہا کہ موجودہ بار کے صدر بیماری کی حالت میں تھے۔ وہ کڈنی
کی بیماری اور ذیابطیس کے مریض ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ ہائپرٹینشن سے بھی متاثرہیں ۔ ان کی بیٹی کو بھی آگرہ میں ان سے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔وکیلوں کے ایک گروپ کے مطابق، قیوم اور رونگا پر کوئی نئے الزام نہیں لگائے گئے ہیں۔ ان کو ان کے نظریات کے لئے گرفتار کیا گیا ہے۔
سرینگر میں نچلی عدالت کے ایک وکیل نے کہا کہ ان کے کئی دوستوں پر پی ایس اے کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔ مواصلاتی ذرائع سےپابندی ہٹنے کے بعد ہی یہ صورت حال صاف ہو پائےگی۔
Categories: خبریں