گراؤنڈ رپورٹ : کشمیر میں کام کرنے والے اترپردیش کے ایک مزدور کا کہنا تھاکہ،اگر دفعہ 370 ہٹانا اور ریاست کی تقسیم کا فیصلہ کشمیریوں کے حق میں ہوتا تو یہاں حالات اس قدر ابتر نہیں ہوتے۔ مواصلاتی خدمات پر پابندی عائد نہیں ہوتی۔ ہر جمعہ کو کرفیو نہیں لگایا جاتا۔ اسکول، دفاتر اور بینک بند نہیں ہوتے۔ سڑکوں پر اتنے فورسز اہلکار تعینات نہیں ہوتے۔
اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے راجندر سنگھ گزشتہ دو دہائیوں سے کشمیر کے ضلع بڈگام میں بڑھئی کے طور پر کام کررہے ہیں۔ انہیں اس دوران کبھی محسوس نہیں ہوا کہ وہ اپنے گھر سے بہت دور ایک ایسی جگہ کام کرتے ہیں جہاں 95 فیصد سے زیادہ آبادی مسلمانوں کی ہے۔
راجندر سنگھ جیسے ہزاروں غیر کشمیری مزدور اور کاریگر 2 اگست کو جموں وکشمیر حکومت کی طرف سے جاری ایڈوائزری کے باوجود ابھی بھی کشمیر میں ہی قیام پذیر ہیں اور حالات ٹھیک ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔ متذکرہ ایڈوائزری میں کشمیر میں موجود غیر کشمیریوں بالخصوص سیاحوں اور امرناتھ یاتریوں کو فوراً سے پیشتر کشمیر چھوڑ کر چلے جانے کے لئے کہا گیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ ایڈوائزری میں یہ نہیں کہا گیا تھا کہ کشمیر کی خصوصی پوزیشن کو ختم کیا جائے گا اور تین خطوں پر مشتمل ریاست جموں کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے مرکزی حکومت کے راست کنٹرول میں لایا جائے گا۔ بلکہ اس میں یہ کہا گیا تھا کہ ‘انٹلی جنس اطلاعات ہیں کہ امرناتھ یاترا کو عسکریت پسندوں کی طرف سے حملے کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے’۔
ایڈوائزری جاری ہونے کے ساتھ ہی کشمیر سے ہندوستان کی مختلف ریاستوں سے تعلق رکھنے والےشہریوں کا انخلا شروع ہوا تھا اور اب صورتحال یہ ہے کہ وادی کے کسی بھی سیاحتی مقام پر کوئی ملکی یا غیر ملکی سیاح نظر نہیں آتا۔
تقریباً 70 لاکھ کی آبادی والے کشمیر میں ہر سال ہندوستان کی مختلف ریاستوں بالخصوص اترپردیش، بہار، راجستھان اور جھارکھنڈ سے 6 سے 8 لاکھ افراد مزدوری کرنے آتے ہیں۔ لیکن اب گزشتہ چار ہفتوں سے زیادہ عرصے سے جاری بند کے پیش نظر تقریباً 90 فیصد غیر کشمیری مزدور واپس اپنی ریاستوں کو لوٹ چکے ہیں۔
راجندر سنگھ جن کے بیشتر ساتھی کشمیر چھوڑ کر چلے گئے ہیں، انہوں نے بتایا کہ ان کے لئے کشمیر اپنے گھر جیسا ہے لیکن مودی حکومت کے حالیہ اقدامات نے انہیں اپنے ہی گھر میں بیگانہ بنادیا۔ان کا کہنا تھا؛
میں پندرہ برس کی عمر میں یہاں آیا تھا اور اب بیس سال سے یہیں ہوں۔ میں اگر چاہتا تو دبئی جاکر اچھے خاصے پیسے کما لیتا لیکن پیسے کمانا بڑی بات نہیں عزت کمانا بڑی بات ہے۔ کشمیر میں جو عزت ایک مزدور اور کاریگر کو ملتی ہے وہ کہیں اور نہیں ملتی۔ یہاں کے لوگ ملنسار اور انسانیت نواز ہیں۔ خود بھوکا رہیں گے لیکن غیر کشمیری کو ضرور کھانا کھلائیں گے۔
راجندر سنگھ کہتے ہیں کہ مودی حکومت کے حالیہ اقدامات کی وجہ سے وہ کشمیریوں سے آنکھیں ملانے سے شرم محسوس کرتے ہیں۔ کیونکہ بقول ان کے حکومت نے جو اقدامات اٹھائے وہ کشمیریوں کی مرضی کے بالکل خلاف تھے۔ان کا کہنا تھا؛
ہم کشمیریوں کے درد کو سمجھتے ہیں۔ اتنا سب ہونے کے باوجود کشمیریوں نے یہاں موجود کسی غیر کشمیری کو نہیں ستایا۔ ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ غلط ہوا ہے۔ اب ہم اپنے کشمیری بھائیوں سے آنکھیں ملانے سے بھی شرماتے ہیں۔ کشمیریوں کے ساتھ ایسا ہوا کہ کسی کے پاس 70 سال سے اپنا گھر تھا اور اچانک اس کو یہ کہہ کر بے دخل کیا گیا کہ اسی میں آپ کا فائدہ ہے’۔
اترپردیش کے ضلع سہارنپور کے رہنے والے محمد دلشیر جو پیشے سے وڈ کارونگ کاریگر ہیں نے بتایا کہ کچھ بھی ہوجائے وہ کشمیر چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ تاہم دلشیر کے سبھی دیگر ساتھی کشمیر چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔انہوں نے بتایا؛
میں گزشتہ 12 سال سے کشمیر میں قیام پذیر ہوں۔ میرا ضلع بڈگام میں اپنا ایک چھوٹا کارخانہ ہے۔ آج تک کسی نے بھی یہاں میرے ساتھ اونچی آواز میں بات نہیں کی۔ یہاں کے لوگوں کی خوبیاں گننا ناممکن ہے۔ آج کشمیریوں کے ساتھ جو کچھ کیا گیا اس سے مجھے بھی بہت دکھ پہنچا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا؛
اگر دفعہ 370 ہٹانا اور ریاست کی تقسیم کا فیصلہ کشمیریوں کے حق میں ہوتا تو یہاں حالات اس قدر ابتر نہیں ہوتے۔ مواصلاتی خدمات پر پابندی عائد نہیں ہوتی۔ ہر جمعہ کو کرفیو نہیں لگایا جاتا۔ اسکول، دفاتر اور بینک بند نہیں ہوتے۔ سڑکوں پر اتنے فورسز اہلکار تعینات نہیں ہوتے۔
جھارکھنڈ سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ سونو جو سری نگر کے پائین شہر میں سلائی و کڑھائی کا کام کرتے ہیں ، انہوں نے بتایا کہ وہ اور اس کے دوسرے ساتھی کشمیر میں اچھی زندگی بسر کررہے تھے لیکن حکومت کی طرف سے دفعہ 370 ہٹائے جانے کے بعد سے ہم خود کو خاطی محسوس کررہے ہیں۔ان کا کہنا تھا؛
کشمیریوں کی مہمان نوازی کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ لیکن جب سے مودی حکومت نے دفعہ 370 ہٹائی ہے ہمارا یہاں کام کرنا تھوڑا مشکل ہو گیا ہے۔ پائین شہر میں میرے ساتھ کام کرنے والے دوسرے سبھی غیر کشمیری کاریگر اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔ کشمیری دوسروں کو برداشت کرنے والے لوگ ہیں۔ اگر یہی کچھ کسی دوسری ریاست میں ہوا ہوتا تووہاں دوسری ریاستوں کے لوگوں کو برداشت نہیں کیا جاتا۔
کشمیر میں 5 اگست کو پیدا ہوئی صورتحال کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اینٹ بھٹوں میں انتہائی کم اجرتوں پر کام کرنے والے غیر کشمیری مزدور اس بات سے بے خبر ہیں کہ ‘کشمیر میں کیا ہوا ہے اور کشمیر بند کیوں ہے؟’اینٹ بھٹوں میں کام کرنے والے غیر کشمیری مزدور جو انتہائی غربت کی وجہ سے اپنے دیگر اہل خانہ بشمول بیوی و بچوں کو بھی اپنے کام میں شامل کرتے ہیں، کو اس وقت بھی اپنے کام میں مصروف دیکھا جاسکتا ہے۔ضلع بڈگام کے ایک اینٹ بھٹے میں خام اینٹیں ڈالنے میں مصروف جلال الدین نامی ایک مزدور نے کہا؛
کشمیر بند ہے مگر یہ نہیں جانتے کیوں بند ہے۔ ہم مزدوری نہیں کریں گے تو بھوکے مرجائیں گے۔ کشمیری لوگ جانتے ہیں کہ ہم بہت غریب ہیں اس لئے کوئی کچھ نہیں کہتا۔
بہار سے تعلق رکھنے والے جلال الدین کا مزید کہنا تھا؛
ہم اور ہمارے گھر والے صرف اپنے کام سے مطلب رکھتے ہیں۔ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اکتوبر تک یہاں کام کریں گے اور پھر اپنے گھر چلے جائیں گے۔ انشاء اللہ اگلے سال پھر آئیں گے۔ ہم کشمیر کے بغیر دوسری کسی جگہ کام کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔
(ظہور اکبر سری نگر میں مقیم صحافی ہیں۔)
Categories: خبریں, گراؤنڈ رپورٹ