کانگریس کے سینئر رہنما ششی تھرور نے کہا کہ بی جے پی کی کامیابی سے خوف زدہ ہونے کے بجائے کانگریس کے لئے بہتر ہوگا کہ وہ ان اصولوں کے لئے کھڑی ہو، جن پر اس نے ہمیشہ ہی یقین کیا ہے۔
نئی دہلی: کانگریس کے سینئر رہنما ششی تھرور نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ان کی پارٹی کا یہ فرض ہے کہ وہ سیکولرزم کی حفاظت کرے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندی علاقوں میں پارٹی کا بحران ‘ سافٹ ہندوتوا’ کا سہارا لےکر حل ہونے والا نہیں، کیونکہ اس سے کانگریس ختم ہونے کی کگار پر پہنچ جائےگی۔ تھرور نے یہ بھی الزام لگایا کہ بی جے پی حکومت اور اس کے معاونو ں کے ذریعے ہندو ہونے کا دعویٰ کرنا برٹش فٹ بال کے بدمعاش حامیوں کی اپنی ٹیم کی وفاداری سے الگ نہیں ہے۔
کانگریس رکن پارلیامان نے اپنی کتاب ‘ دی ہندو وے : این انٹروڈکشن ٹو ہندوازم ‘ کے افتتاح سے پہلے گزشتہ اتوار کو ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ اقتدار میں بیٹھے لوگ جو تشہیر کر رہے ہیں وہ صحیح معنوں میں ہندوتو انہیں ہے، بلکہ ایک پروقار ووٹ کو خراب کیا جا رہا ہے، جس کو ان لوگوں نے خالص سیاسی اور انتخابی فائدہ کے لئے ایک گھٹیا سیاسی اوزار میں تبدیل کر دیا ہے۔
تھرور نے کہا کہ ایک محتاط رجائیت پسند کے طور پر وہ کہنا چاہیںگے کہ نوجوانوں سمیت کافی تعداد میں ایسے ہندوستانی ہیں، جو حالیہ روایتی فطرت کی مخالفت کرنے کے لئے پرعزم ہیں اور وہ لگاتار یہ یقینی بنائیں گے کہ ہندوستان کے بارے میں نا مناسب خیالات کامیاب نہ ہو۔ کیرل کے ترواننت پورم سے لوک سبھا ممبر تھرور نے کہا، ‘ کانگریس پارٹی کے ممبر کے طور پر میرا ماننا ہے کہ ہندوستان میں سیکولرازم کی حفاظت کرنے میں پارٹی کا ایک بنیادی کردار ہے اور اس کی قیادت کرنا اس کا فرض ہے۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘ جو لوگ یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ ہندی پٹی میں پارٹی کے بحران کا حل بی جے پی کی طرح اکثریت کی خوشنودی میں ہے، وہ ایک بڑی غلطی کر رہے ہیں۔ اگر رائےدہندگان کو اصلی چیز اور اس کی نقل کے بیچ میں سے کسی ایک کو چننے کا اختیار دیا جائے، تو وہ ہر بار اصلی کو چنےگا۔ ‘ تھرور نے کہا کہ بی جے پی کی کامیابی سے خوف زدہ ہونے کے بجائے کانگریس کے لئے بہتر ہوگا کہ وہ ان اصولوں کے لئے کھڑی ہو، جن پر اس نے ہمیشہ ہی یقین کیا ہے اور ملک سے اپنے اصولوں پر عمل کرنے کے لئے گزارش کرے۔
63 سالہ کانگریسی رہنما نے کہا، ‘ وفادار لوگ ایک ایسی پارٹی کی عزت کریںگے جو ہمارے بھروسے کی جرأت کو نمائش کرے، نہ کہ ‘ کوک لائٹ ‘ اور ‘ پیپسی زیرو ‘ کی طرح سافٹ ہندوتو ا کی پیشکش کرے، کیونکہ اس کا خاتمہ صرف کانگریس کے خاتمے کے طور پر ہوگا۔ ‘ ‘ کوک لائٹ ‘ اور ‘ پیپسی زیرو ‘ اپنے اصل سافٹ ڈرنک برانڈ کے شوگر فری اور کیلوری فری ایڈیشن ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ حال ہی میں ہوئے لوک سبھا انتخاب میں پوری ہندی پٹی سے کانگریس پارٹی کا صفایا ہو گیا۔ اس کے بعد پارٹی کے اندر اور باہر کچھ لوگوں نے یہ مشورہ دیا کہ کانگریس کو اقلیت کو خوش کرنے کی سیاست کو لےکر بی جے پی کی کا جواب دینے اور اپنی سیکولر پہچان پر نرم رخ اپنانے کی ضرورت ہے۔ تھرور نے کہا، ‘ ہندوتو اکی خوبصورتی یہ ہے کہ ہمارے یہاں قانون بنانے کے لئے کوئی پوپ نہیں ہے، کوئی امام فتویٰ جاری کرکے یہ نہیں بتاتا ہے کہ سچا نظریہ کیا ہے، کوئی اکیلا مقدس گرنتھ نہیں ہے۔ ہندو نظریہ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ‘
انہوں نے کہا کہ سیکولرزم ایک ایسا لفظ ہے جس کو اکثر ہی صحیح معنوں میں نہیں سمجھا جاتا ہے۔ مغربی لغات میں اس کو مذہب کی غیرموجودگی کے طور پر اور مذہب سے دوری بنانے کے طور پر تشریح کی گئی ہے۔ لیکن حقیقت میں ہندوستانی سیکولرزم کا مطلب ہمیشہ ہی مذاہب کی کثرت سے رہا ہے اور حکومت سبھی (مذہبوں) کے ساتھ رشتہ رکھتی ہے لیکن کسی کو خصوصی اختیارات نہیں دیتی۔
انہوں نے کمیونسٹ پارٹیوں اور درمک جیسی سیاسی جماعتوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں سیکولرزم کا مطلب غیر مذہبیت سے نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں سیکولرزم کا معنی غیر مذہبیت سے نہیں ہے، جو کمیونسٹ یا ڈی ایم کے جیسی ایتھسٹ پارٹیوں کو واضح طور سے ان کے رائےدہندگان کے درمیان غیر مقبول لگتا تھا۔
تھرور نے کولکاتہ کی درگا پوجا تقریب کی مثال دی۔ انہوں نے کہا کہ دیوی درگا کا سب سے بڑا پوجا پنڈال بنانے کے لئے کمیونسٹ پارٹیوں میں ایک دوسرے سے مقابلہ رہتا ہے۔ انہوں نے دلیل دی کہ آزادی کے بعد کئی دہائیوں کے دوران ملک کی سیاسی تہذیب نے ان سیکولر نظریات اور نقطہ نظر کو دکھایا، لیکن حال کے دنوں میں اس میں تبدیلی ہونی شروع ہوئی۔
انہوں نے الزام لگایا کہ موجودہ حکومت کے دوران مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو باٹنے کے لئے کوششیں کی گئی ہیں۔ حالانکہ انہوں نے کہا، ‘ کانگریس یہ یقینی بنانے کے لئے پرعزم ہے کہ ہر مذہب کو ہندوستان میں پھولنے-پھلنے کے لئے موقع ملے۔ پارٹی کی یہ روایت نہیں بدلےگی، بھلےہی ہمارے کچھ سیاسی حریف نا مناسب بیانوں کو بڑھاوا دیتے ہوں۔ ‘
انہوں نے الزام لگایا کہ بی جے پی حکومت اور اس کی معاون جماعتوں نے ویدوں، اپنشدوں، پرانوں اور گیتا کے وقار کو چھین لیا اور ان کو غیر مناسب بنا دیا۔ تھرور نے کہا، ‘ اس پیغام کو اقتدار میں بیٹھے لوگ نظرانداز کر رہے ہیں کیونکہ ان کو تو صرف ہندو انضمام سے سیاسی فائدے کی پرواہ ہے۔ ‘ انھوں نے کہا، ‘ اکثریت پسندی کی متعصبانہ کھوج میں یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ ہندوتوا کا کوئی بھی ایڈیشن نہ تو تشدد کو بڑھاوا دیتا ہے اور نہ ہی ان لوگوں سے امتیازی سلوک کرتا ہے، جو ہمارے خیالات کو نہیں مانتے۔ ‘
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کےساتھ)
Categories: خبریں