ہندوستانی آئین میں واضح طور پر ہندوستان کو ریاستوں کا یونین کہا گیا ہے یعنی ایک یونین کے طور پر سامنے آنے سے پہلے بھی یہ ریاست وجود میں تھے۔ ان میں سے ایک جموں و کشمیر کا یہ درجہ ختم کرتے ہوئے مودی حکومت نے یونین کے نظریہ کو ہی چیلنج دیاہے۔
اگر چندریان-2 مہم کا لینڈر ناکام نہیں ہوتا، تو مودی حکومت کی دوسری مدت کار کے پہلے سو دن کی کامیابیاں گنانے کے لئے 8 ستمبر کو بلائی گئی پریس کانفرنس میں پرکاش جاویڈکر کے بجائے تشہیر کےلالچی وزیر اعظم خودہی شامل ہو رہے ہوتے۔جاویڈکر نے لیپاپوتی کی بہت کوشش کی۔ وہ نہ یہ ماننے کو تیار تھے کہ اکانومی کی بھینس پانی میں جا چکی ہے اور نہ ہی یہ کہ پچھلے سات سالوں میں نوجوانوں کی بےروزگاری کی شرح میں تین گنا اضافہ کوئی بہت بڑی بات ہے۔
انہوں نے یہ سہرا ضرور لیا کہ حکومت نے یو اے پی اے کو بدل لیا ہے۔ یہ وہی قانون ہے جس نے ہندوستان کو ایک پولیسیا ریاست میں بدل دیا ہے۔ان کے مطابق مودی حکومت کی اہم کامیابی براہ راست مرکزی حکومت کا آرٹیکل 370 کو ہٹاکر کشمیر کا ہندوستان میں پوری طرح سے انضمام کرنا تھا، جس میں کشمیر اور لداخ کو یونین ٹریٹری میں بدلنا شامل تھا۔ یہ ایسا قدم تھا جس کو اٹھانے کی ‘ہمت’ کسی اور سرکار نے اب تک نہیں دکھائی تھی ۔
حالانکہ نہ وزیر اعظم مودی اور نہ ہی وزیر داخلہ امت شاہ نے خود سے یہ پوچھا ہوگا کہ ایسی ہمت نہ دکھانے کے پیچھے پچھلی حکومتوں کا ڈرپوک ہونا تھا یا پھر سمجھ دار ہونا۔ ایسا اس لئے کیونکہ دونوں کو ہی بہادر اور اکھڑ ہونے کے درمیان کا فرق نہیں پتہ ہے۔بہادر ہونے کے پیچھے بہت ساری دور اندیشی ہوتی ہے، جہاں آپ کوئی قدم اٹھانے کے پہلے نفع-نقصان کو احتیاط کے ساتھ تولتے ہیں، پر ضدی پن کے لئے اندھیرے میں چھلانگ لگانے جیسی گستاخی چاہیے ہوتی ہے اس امید کے ساتھ کہ آپ صحیح جگہ پر ٹھیک سے پہنچ جائیںگے۔
5 اگست کو مودی اور شاہ نے ایسی ہی چھلانگ لگائی۔ مودی کی اپنی ہی پیٹھ ٹھونکتی تقاریرسے متاثر نہ ہونے والے تمام لوگ اس سچ کو صاف دیکھ پا رہے ہیں کہ ہندوستان کے وفاقی ڈھانچے کی بربادی کی سمت میں اٹھایا گیا یہ پہلا قدم ہے۔مودی نے ہندوستان کی ایک ریاست کو ضم کرکے اس کو سیدھے مرکز کے اختیار میں لاکر ایک ایسی مثال قائم کر دی ہے، جس کو اگر بدلا نہیں گیا، تو مستقبل میں کوئی بھی حکومت کسی بھی ایک یا کئی ریاستوں یا پورے ملک کو ہی مرکزی اکائی میں بدلنے کے لئے استعمال کر سکتی ہے۔
یہ قدم آئین کے بنیادی کردار کو-ہندوستان کے وفاقی ڈھانچے-کو نہ صرف تباہ کرےگا، بلکہ اس کے پیچھے کے سیاسی جواز کو بھی مسترد کردےگا۔سچ تو یہ ہے کہ نہ صرف مودی بلکہ بہت سے آئین فہم کو بھی صحیح سے نہیں پتہ کہ ہندوستان کے وفاقی ڈھانچے کی بنیاد صرف انتظامی سہولیت یا کسی خاص علاقے کے انضمام کی تاریخ پر نہیں ٹکی، جیسا کہ امریکہ، کناڈا اور آسٹریلیا کے معاملوں میں ہے۔ اس طرح کے وفاقی ڈھانچے کی صورت تو 1935 کی حکومت ہندکے قانون میں پہلے سے تھی، پر ان میں بنیادی تبدیلی کر دی گئی۔
آج کا ہندوستان بہت پرانے الگ الگ پہچان والے گروپوں کا یونین ہے، جن میں سے کچھ کی اپنی الگ خصوصی پہچان کی تاریخ دو ہزار سالوں سے بھی پرانی ہے۔ ان کی اپنی ثقافتی اور سیاسی پہچان ہندوستان کے ملک بننے سے پہلے سے تھی۔اس حقیقت کو آئین یہ کہہکر صاف صاف قبول کرتا ہے کہ ہندوستان ‘ریاستوں کا یونین’ہے۔ یہ ایک واضح اعتراف ہے کہ ریاست کسی نہ کسی طرح سے ملک سے پہلے سے تھی اور اس ملک کا ڈھانچہ انہی ریاستوں نے ملکرتیار ہے۔
علاقائی اورنسلی تحفظات 1953 میں فیصلہ کن طور پر قائم ہوئی تھی، جب آندھر پردیش کے بانی پوٹی شریرامول نے اپنی جان دے دی تھی اور اسی سال جواہرلال نہرو نے ریاست کی تشکیل نوسے متعلق کمیشن بناکر اپنی مہر لگائی تھی۔ اس کمیشن کا کام زبان کی بنیاد پر اس وقت کے صوبوں کی حدود کو پھر سے طے کرنا تھا۔کمیونٹی اور علاقائی پہچان پر چھڑی بحث اتنی گہری اور لمبی چلی کہ اس کارروائی کو پورا ہونے میں تین اور دہائی لگے، جس میں گجرات مہاراشٹر سے الگ ہوا، بٹوارے میں اپنی زمین سے اجڑے سکھوں کے پنجابی صوبے کو نئے سرے سے بانٹا گیا اور گووا اور شمال مشرق کے صوبوں کو نئی ریاستوں کا درجہ ملا۔ تب کہیں جاکر ایک مستحکم وفاقی ڈھانچہ ابھرکر آیا۔
ہندوستان کے وفاقی ڈھانچے کا وجود اس لئے اتنی زندہ جاوید ہے۔ اس کا اہم مقصد ہی ا س کے شہریوں کی کمیونٹی اور علاقائی پہچان کا خیال رکھتے ہوئے ان کے لئے مواقع میں اضافہ کرنا ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جس نے دنیا کے سب سے زیادہ تنوع سے بھرے علاقے کو ایک دھاگہ میں باندھے رکھا۔آرٹیکل 370 ہندوستان کے اسی تنوع کی حفاظت کرنے والے اہم عوامل میں سے ایک تھا کیونکہ وہ مسلم اکثریت ریاست کی مطابقاتی تہذیب کو پہچان دیتا ہے، جس کے راجا اور عوام نے بٹوارے کے وقت ہندوستان کو چنا تاکہ ان کی پہچان-کشمیریت-بچی رہ سکے۔
اس بات میں کوئی تعجب نہیں ہے کہ ملک کی دیگر دس ریاستوں کو اسی طرح کی حفاظت دینے والے آرٹیکل 371 کی شکل 370 پر ہی مبنی ہے۔ اس طرح سے ناگالینڈ اور میزورم میں اب یہ آوازیں اٹھنے ہی لگی ہیں کہ اگر سپریم کورٹ صدر کو کشمیر کی ریاست کا درجہ ختم کرنے کی اجازت دیتا ہے، تو کل کو کوئی اور حکومت ان کے ساتھ بھی یہی کر سکتی ہے۔پھر باقی کیا رہا، یہی خدشہ دوسری بڑی ریاستوں کو بھی پریشان کر سکتا ہے جن میں آندھر پردیش، تمل ناڈو، پنجاب، بنگال اور آسام شامل ہیں۔
سب سے بڑا دھوکہ
کشمیری کا ہندوستان کےسیکولر ہونے پر بھروسہ اس قدر تھا کہ 20 سال کے ہندوستانیوں کے عدم اعتماد اور لشکری حکومت کے باوجود وہ کھسک نہ سکا۔نتیجتاً 2009 میں کشمیر وادی میں لندن واقع رائل انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل افیئرس کے ذریعے کروائے گئے عوامی سروے میں پایا گیا کہ وادی کے سب سے بری طرح متاثرا ضلاع میں بھی پاکستان میں شامل ہونے کی منشا رکھنے والوں کی تعداد صرف 2.5 سے 7.5 فیصد تھی۔
اس کا مطلب صاف طور پر یہ تھا کہ ‘آزادی’چاہنے والی اکثریت بھی اقتصادی، تعلیمی اور صحت پر ہندوستان کے ساتھ انحصار نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔2014 میں جب مودی اقتدار میں آئے، تب کشمیر میں تقریباً امن چین تھا، لیکن ان کے حلف لینے کے تین ہی مہینوں کے اندر ہی اس نازک فارمولہ کو تباہ کر دیا گیا۔ پہلے حریت کی سرعام بے عزتی کی گئی اور اس سہ فریقی مکالمہ کو ختم کر دیا گیا، جس کے وہ 2004 سے حصہ تھے۔ پھر لائن آف کنٹرول پر پاکستانی فوجیوں کی طرف سے سیزفائر کی خلاف ورزیوں پر ‘ایک کے بدلے دس’ کے ساتھ جواب دینے کا فیصلہ کر دیا گیا۔
اس فارمولے کو سب سے زیادہ نقصان ہندوستان میں ٹیلی ویژن میڈیا میں کشمیر کو لےکر آئے بدلے رویے نے پہنچایا، جہاں ہمدردانہ غیر جانبداری کی جگہ شور مچاتے راشٹر واد نے لے لی۔ اچانک کشمیر میں آزادی کی پیروی کرنے والے لوگ نہیں رہے، نہ انتہا پسندی، نہ پتھرباز، نہ بھٹکے ہوئے ایسے نوجوان، جن کو مین اسٹریم میں واپس لانے کی کوئی ضرورت تھی۔ اب سب ایک طرف سے دہشت گرد ہو گئے تھے۔ایسےتبصروں کے ساتھ ساتھ لگاتار چل رہی گئورکشکوں کی داداگیری، ملک کے الگ الگ حصوں میں مسلمانوں کی لنچنگ کا واقعہ اور مسلمانوں کو نشانہ بنا کر ٹرین، مدارس اور مساجدپر بم دھماکوں کے معاملوں میں رہائیوں کے سلسلے نے ویسے ہی ان میں سے زیادہ تر کو الگ تھلگ کر دیا تھا۔ رہی-بچی کسر 370 نے پوری کر دی۔
دوسرے فاتحین کی طرح مودی کو بھی قدم واپس لینے کا مطلب نہیں پتہ ہے۔ انتہاپسندی واپس بڑھی تو انہوں نے اپنی زور-آزمائش بڑھا دی۔ جب وہ بھی نہ کام نہ آیا، تو کشمیر کو ہی ختم کرنے میں مسئلے کا حل دکھا۔ پر یہ حل بھی ہوتا نہیں دکھ رہا ہے۔حکومت کے ذریعے کشمیر کو بانٹے ہوئے تقریباً دو مہینے ہو چکا ہے، لیکن کشمیر وادی اب بھی ایسی پابندیوں اور بند کا سامنا کر رہی ہے، جیسے عہدوسطیٰ کے بعد شاید کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اس سے بھی خراب یہ ہے کہ امت شاہ کا کہنا ہے کہ یہ ابھی 20-25 دن جاری رہےگا۔
کشمیر اور اس کے ساتھ ہی ہندوستان-پاکستان تعلقات کا مستقبل اتنا تاریک ہے کہ اس بارے میں تو سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ لیکن مودی کے ان اقدام سے سب سے بڑا خطرہ اس کی سرحد کے باہر نہیں ہے۔ وہ سرحد کے اندر ہے کیونکہ اگر سپریم کورٹ نے روکا نہیں، تو اس قدم سے ہندوستانی جمہوریت کے ہی بکھرنے کا راستہ کھلنے کا اندیشہ ہے۔
(پریم شنکر جھا سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر