مانا جاتا ہے کہ جب بھی این ڈی اے اقتدار میں آتی ہے، اس کی ڈور آر ایس ایس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ لیکن 2019 کی وجئے دشمی کی تقریرکے زیادہ تر حصے میں سنگھ چیف موہن بھاگوت کا مودی حکومت کے بچاؤ میں بولنا ان کے گھٹتے قدکی طرف اشارہ کرتا ہے۔
آر ایس ایس چیف کادسہرےاورتنظیم کی یوم تاسیس-کے موقع پر کی جانے والی تقریر اپنے آپ میں اہم مانی جاتی ہے، کیونکہ اس کو بھارتیہ جنتا پارٹی سمیت تمام سنگھ پریوار کے کارکنان کے لئے سیاسی نقشے کی طرح دیکھا جاتا ہے، جس کی تقلید ان کو کرنی ہوتی ہے۔ لیکن موہن بھاگوت کی2019 کی تقریر کےبارے میں شاید ایسا نہیں کہا جا سکتا ہے۔ مستقبل کا نظریہ-کوئی بھی نظریہ-پیش کرنےکی جگہ انہوں نے تقریباً ایک گھنٹہ مودی حکومت کا ان مورچوں پر بچاؤ کرنے میں خرچ کیا، جن پر اس کا مظاہرہ مایوس کن رہا ہے۔
آر ایس ایس کھلے طور پر بی جے پی سے اپنے رشتے کو ظاہر نہیں کرتا ہے۔ بھاگوت نے خود یہ کئی بار کہا ہے کہ سنگھ اس کے نظریہ پر چلنے والی کسی بھی پارٹی کی مددکر سکتا ہے اور بی جے پی کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔لیکن پھر بھی اپنی تقریر میں بھاگوت نے صرف اپنی تنظیم کو بھگوا پارٹی کےمعاون کے طور پر پیش کیا، بلکہ معاون کردار میں دکھنے میں ان کو کوئی دقت نہیں ہوئی۔
بھاگوت کی پہلے دی گئی دسہرے کی تقریر
آپ یاد کر سکتے ہیں کہ 2016 کی اپنی دسہرے کی تقریر میں بھاگوت نے سرحد پار کی گئی کامیاب سرجیکل اسٹرائک پر مرکزی حکومت کومبارکباد دی تھی، لیکن ساتھ ہی کئی انتظامی مدعوں کو بھی اٹھایا تھا، جن پر ان کےمطابق حکومت کو کام کرنے کی ضرورت تھی۔ ان مدعوں میں کشمیری پنڈتوں اور پاکستان مقبوضہ کشمیر کے میرپور، مظفرآباد، گلگت اور بالٹستان کے مظلوم ہندو اقلیتوں کی بازآبادی کا مدعاشامل تھا۔ انہوں نے مودی حکومت سے سابق کابینہ سکریٹری ٹی ایس آر سبرامنیم کی نئی تعلیمی پالیسی(این ای پی)کا تجزیہ کرنے کے لئے اور اور ‘ گئو رکشکوں ‘ اور ‘غیرسماجی عناصر’کے درمیان فرق کرنے کے لئے بھی کہا تھا۔
مودی حکومت اب ایک شہریت بل کے لئے مہم چلا رہی ہے، جو مسلمانوں کو چھوڑکرتمام مذاہب کے پناہ گزینوں کو ہندوستان میں پناہ لینے کی اجازت دےگا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے سبرامنیم کمیٹی کی نئی تعلیمی پالیسی کو بھی خارج کر دیا اور کے کستوری رنگن کے مسودے کو نافذ کرنے کے لئے لےکر آئی۔ اسی طرح سے 2017 میں آ ر ایس ایس چیف نے سرحد کےساتھ پاکستان اور چین کے کسی معاندانہ قدم کا مضبوط اور مستحکم طریقے سے جواب دینےکی ضرورت پر زور دیا تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ روہنگیا مسلمانوں کوپناہ دینے کے کسی بھی فیصلے سے پہلے اس بات کو دھیان میں رکھنا چاہیے کہ وہ ‘قومی سلامتی اور سالمیت کے لئے خطرہ ‘ہیں۔
انہوں نے حکومت کے ذریعے بڑی قیمت والے نوٹوں کے اسقاطِ زر اور جی ایس ٹی کی عمل آوری کی حکومت کے فیصلے، جن کا خمیازہ سنگھ پریوار کے اہم بنیادی طبقے-چھوٹےاور منجھلے کاروباریوں-کو اٹھانا پڑ رہا تھا، اس کو لےکر بھی خاص طریقے سے خطرہ کی گھنٹی بجائی تھی۔پرانے ‘اقتصادی اصولوں ‘پر چلنے کے لئے انہوں نے نیتی آیوگ کو آڑےہاتھوں لیا تھا اور یہ دلیل دی تھی کہ اقتصادی منصوبہ بندی’ملک کی زمینی سچائی ‘کو دھیان میں رکھکر کیا جانا چاہیے۔
2018 میں بھاگوت نے باہری خطروں سے نپٹنے کے لئے سرکاری کوششوں کواہمیت دی تھی، لیکن ساتھ ہی سنگھ کے ہندوتوا کے ایڈیشن پر سوال اٹھانے والے یعنی’اربن نکسلیوں یا’نیو لفٹ’کی تنقید کرتے ہوئے قومی سلامتی کو بھی مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔آزاد ہندوستان میں حکومتوں کے عوام مرکوز ہونے کی ضرورت کے بارے میں بولتےہوئے انہوں نے کہا،’ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتیں اور نیم فوجی دستے اس تعلق سے کامیاب کارروائی کر رہے ہیں۔ انھیں انتہائی چوکسی کے ساتھ اس کو جاری رکھناہوگا۔’
حکومت کی تنقید کرتے ہوئے بھاگوت نے کہا تھا، ‘حکومت کی اچھی پالیسیوں کی عمل آوری میں انتظامی اثر پذیری، مستعدی، شفافیت اور تکمیلیت ابھی بھی امید کےمطابق نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان پالیسیوں کا اثر ابھی تک سماج کے آخری پائیدان پر کھڑے آدمی تک چھنکر نہیں پہنچ پا رہا ہے۔ ‘پچھلے پانچ سالوں میں سنگھ سربراہ حکومت کو اس کے اہم وعدوں کو پورا کرنےکی یاد دلاتے رہے، جن میں سے کچھ آر ایس ایس کی پرانی مانگیں رہی ہیں-مثلاً،آرٹیکل 370 کا خاتمہ، ایودھیا میں متنازعہ مقام پر رام مندر کی تعمیر اور سول کوڈکی تشکیل۔
اس سال کی تقریر
اس کے برعکس، ناگپور میں کارکنان کے سامنے کی گئی تقریر میں بھاگوت دفعہ 370 ہٹانے کے لئے مودی حکومت کی تعریف اور پچھلے پانچ سالوں میں ہندوستان کی اقتصادی ترقی پر گرہن لگانے والی اقتصادی مصیبتوں کو لےکربہت زیادہ فکرمند نہ ہونے کی اپیل کے درمیان ہی چکر کاٹتے رہے۔ یقینی طور پر اس تقریر میں ان کے من پسند موضوع-راشٹرواد، ہندوتوا، غیرملکی خطرے کے طور پر پاکستان اور چین، بھی شامل تھے، لیکن ان کی پوری تقریر میں حکومت کے خلاف ایک بھی شکایت، بھلےہی کتنی ہی دکھاوٹی ہی کیوں نہ ہو-نہیں تھی۔ اس کی جگہ انہوں نے حکومت کا بچاؤ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
کسی زمانے میں نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے ناقد رہے بھاگوت کا جی ڈی پی اضافہ کے اعداد و شمار میں بچاؤ کرنا، ان میں آئی بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتاہے۔ پروگرام، جس میں ایچ سی ایل کے بانی شیو نادر خصوصی مہمان تھے، ان کی تقریر کاایک اچھا-خاصا حصہ معیشت کو وقف تھا۔ بھاگوت نے کہا، ‘ہم بڑھ رہے ہیں، لیکن ساری دنیا میں معیشت میں ایک دائرہ چلتا ہے۔ اس میں تعطل آ جاتا ہے۔ وہ سلو ہو جاتا ہے۔ تو کہتے ہیں کہ مندی آ گئی ہے۔ ‘انہوں نے ساتھ ہی جوڑا، ‘ایک اقتصادیات کے جان کار شخص نے بتایا، اس نے مجھےکہا کہ مندی تب کہا جاتا ہے، جب گروتھ ریٹ زیرو سے نیچے چلی جائے۔ لیکن ہماری شرح نمو 5 فیصد کے قریب ہے۔ آپ اس کو لےکر تشویش کااظہار کر سکتے ہیں، لیکن اس پر بحث کیوں کریں۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘اس کو لےکر بحث کرنے سے ایک ماحول بنتا ہے-ماحول میں انسانوں کا رویہ ہوتا ہے۔ نام نہاد اقتصادی مندی کے بارے میں بہت زیادہ چرچہ سے-کاروبار میں لگے لوگوں کو یہ اعتماد ہو جائےگا کہ معیشت میں اصل میں گراوٹ آرہی ہے اور وہ اور بھی زیادہ مدافعتی طریقے سے کام کرنے لگیںگے۔ رکھنے لگیںگے۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہماری معیشت کی رفتار اور گھٹ جائےگی۔’
اپنے فطری تنقیدی رویے سے ہٹکر انہوں نے کہا، ‘ حکومت اس مدعے کو لے کر حساسیت کا مظاہرہ کر رہی ہے، اس نے تدبیر کئے ہیں۔ ہمیں اپنی حکومت پر اعتماد رکھناچاہیے۔ ہم نے کئی تدبیر کئے ہیں، آنے والے وقت میں کچھ مثبت اثر دکھائی دےگا۔ ‘ اس کے آگے انہوں نے حکومت کا بچاؤ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور چین کے درمیان کاروباری جنگ جیسے باہری عامل کی وجہ سے نوکریوں کی مشکل ہو گئی ہے۔
لنچنگ پر تبصرہ
اس کے بعد جب انہوں نے لنچنگ کو ‘مغرب کی گڑھی ہوئی چیز’بتایا، تب ایسالگا کہ یہ کچھ اور نہیں بس لوگوں کا دھیان بھٹکانے کی چال تھی۔ انہوں نے اس کو ہندوستان کو بدنام کرنے کی خواہش رکھنے والے لوگوں کےذریعے چلائی گئی منفی مہم بتایا اور ہندوتوا کے حامیوں کے ذریعے دن دہاڑے مسلمانوں اور دلتوں کے قتل کے سامنے آئے کئی معاملوں کو انہوں نے آرام دہ طریقے سے بھلادیا۔ اس کی جگہ انہوں نے ان قتل معاملوں کو، جس کے پیچھے صاف طور پر روایتی ہندتووادی تعصب کا ہاتھ ہے، عیسائیت اور اسلام سے درآمد چیز بتایا اور بڑی آسانی سے اس کاجرم ابراہیمی مذاہب پر مڈھ دیا۔
انہوں نے کہا، ‘تشدد کے واقعات بڑھتے ہیں تو ایسی بھی خبریں آئی ہیں کہ ایک کمیونٹی کے لوگوں نے دوسری کمیونٹی کے کسی اکا-دکا آدمی کو پکڑکے پیٹا، مارڈالا، حملہ کیا۔ یہ بھی دھیان میں آتا ہے کہ کسی ایک ہی کمیونٹی کی طرف سے دوسری کمیونٹی کو روکا گیا جبکہ ایسا نہیں ہے۔ الٹا بھی ہوا ہے۔ یہ بھی ہوا ہے کہ کچھ نہیں ہوا ہے، تو بنا دیا گیا۔ اکساکر حادثات کرائے گئے ہیں۔ دوسرے کسی معاملے کوبھی اس کا رنگ دے دیا گیا لیکن اگر 100 واقعات کی رپورٹ چھپی ہوںگی تو دو-چار میں تو یہ بات ایسے ہی ہوئی ہوگی، جس کو مفاد پرست قوتیں دوسرے طریقے سے اجاگر کرتی ہیں۔ ‘
بھاگوت نے آگے کہا، ‘کسی ایک کمیونٹی کے کچھ لوگوں نے کچھ کیا تو اس کواس پورے کمیونٹی پر تھوپ دیںگے۔ یہ کسی کے حامی نہیں ہیں۔ سماج کے دو کمیونٹی کےدرمیان جھگڑا ہو یہی ان کا مقصد ہے۔ سماج کے حامی لوگوں کو اس میں گھسیٹیںگے۔سنگھ کا نام لیںگے۔انہوں نے یہ بھی کہا، ‘ہمارے یہاں ایسا کچھ ہوا نہیں، یہ چھٹ پٹ گروہوں کےواقعات ہیں، جن پر سخت قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔ ہمارے ملک کی روایت فیاضی،بھائی چارہ سے رہنے کی ہے۔ دوسرے ملک سے آئی روایت سے ہمارے اوپر لفظ (لنچنگ) تھوپیںگےاور ہمارے سماج، ملک کو دنیا میں بدنام کرنے کی کوشش کریںگے۔ ‘
ان کے دعوے اس لئے دھیان بھٹکانے والے لگتے ہیں کیونکہ بھاگوت کی تقریر نےآر ایس ایس کو ایک زندہ تنظیم کے طور پر پیش کیا، جو وقت کی ضروریات کے حساب سے خود کو بدلنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتا ہے۔انہوں نے سابق سنگھ سربراہ بالاصاحب دیورس کے الفاظ کو دہراتے ہوئےکہا کہ آر ایس ایس کے بارے میں صرف ایک چیز مستقل ہے اور وہ ہے کہ ہندوستان ایک ہندو راشٹر ہے اور باقی ساری چیزیں وقت کی ضرورت کے حساب سے بدلی جا سکتی ہیں۔
مثال کے طور پر انہوں نے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے اورنجی کاری کو پرجوش کرنے کے لئے مودی حکومت کے ذریعے کی گئی کوششوں کا استقبال کیا-یہ دیکھتے ہوئے کہ تنظیم کے ذریعے کسی زمانے میں دیسی پر زور دیا جاتا تھا، یہ ایک بڑی تبدیلی کہی جا سکتی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا،’سودیسی وہ ہے جو ایک عالمگیر معیشت میں رہتا ہے، مگرصرف ان حالات میں جو ہندوستان کے مفاد میں ہوں۔ اگر کوئی چیز میرے ملک میں بنائی جا سکتی ہے، تو ہم اس کو کسی دوسرے جگہ سے کیوں خریدیںگے اور اس طرح سے اپنےگھریلو کاروبار کو نقصان پہنچائیںگے؟’انہوں نے آگے کہا، ‘ہمیں سودیسی کے راستے پر چلنا چاہیے… دوسرے ممالک سےخریدنے کی کوشش کیجئے، لیکن صرف اپنی شرطوں پر۔ ‘
آخر میں انہوں نے دفعہ 370 کو کمزور کرنےسمیت مودی حکومت کی دیگر کامیابیوں کی لمبی فہرست پیش کی۔ اپنے پہلے کی تقریروں سےالٹ ان کے پاس حکومت کے لئے کوئی صلاح نہیں تھی۔ ان کے دوسری تقریروں کے مقابلے میں آر ایس ایس چیف کی تقریر میں کوئی نئی بات نہیں تھی ؛ سنگھ کے کارکنان کے لئے سیاسی روڈمیپ کی بات تو دور رہی۔ انہوں نےبس وہی دہرایا جو وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ مختلف سرکاری پروگراموں میں بار بار دہرا چکے ہیں۔ کیا سنگھ پریوار میں کرداروں کی ادلا-بدلی ہو گئی ہے؟ یہ مانا جاتا ہے کہ جب بھی این ڈی اے اقتدار میں آتی ہے، اس کی ڈور آر ایس ایس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔لیکن ایسے میں جبکہ مودی اور شاہ کی طوطی بول رہی ہے، کیا بھاگوت سنگھ پریوار میں دوسرے پائیدان پر دھکیل دئے گئے ہیں؟
قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے، مگر وجئے دشمی کو بھاگوت کی تقریر نے یقینی طور پرمودی-شاہ کے زمانے میں سنگھ چیف کے گھٹتے قد کے امکان کی طرف مزید اشارہ کیاہے۔
Categories: فکر و نظر