آج بہت منصوبہ بند طریقے سے آر ایس ایس پریوار کو چھوڑکر ساری آوازوں کودبا دیا گیا ہے۔ اگر کوئی آواز اٹھتی بھی ہے، تو صرف وہ، جو مسلمانوں کو پسماندہ،دقیانوسی اور قبائلی ثابت کرتی ہیں۔
ہندوستان میں سال 2018 میں 20.1 کروڑ مسلمان تھے، آج شاید زیادہ ہی ہوںگے۔ دنیا میں صرف چھ ممالک ایسےہیں، جن کی آبادی بیس کروڑ سے زیادہ ہے وہ ہیں چین، ہندوستان، امریکہ، انڈونیشیا،برازیل اور پاکستان۔ یعنی اگر آج دنیا میں 195 ممالک ہیں، تو ہندوستان کےمسلمانوں کی آبادی ان میں سے 189 ممالک سے زیادہ ہے۔یہ تو رہی جنرل نالج کی بات۔ اب آتے ہیں دوسری بات پر۔
اگر آج کے ٹی وی، اخبار اور بی جے پی کے ترجمان وغیرہ کو کھنگالا جائے، توآپ آسانی سے یہ حساب لگا سکتے ہیں کہ یہ زیادہ تر پاکستانی ہیں۔ مطلب پاکستان کی آبادی کے برابر پاکستانی ہندوستان میں رہ رہے ہیں۔ اور ان میں سے زیادہ تر یقین کے قابل نہیں ہیں کیونکہ یہ 20.1 کروڑ ملک مخالف ہیں، غدار ہیں۔ زیادہ تر غزوہ ہند میں ماننے والے اسلامسٹ ہیں، زیادہ تردہشت گردوں کے حمایتی ہیں اور کچھ تو خود دہشت گرد ہیں۔
سوچیے، ایک ملک میں بیس اعشاریہ ایک کروڑ ملک مخالف ہیں اور یہ ملک کچھ سال پہلے تک 8 فیصد کی شرح سے ترقی کررہا تھا۔ یہ تو اپنے آپ میں کیس اسٹڈی ہونی چاہیے، ہارورڈ، ییل، آکسفورڈ میں اس پر ریسرچ ہونی چاہیے کہ 20.1 کروڑ لوگ اندر سے ہندوستان کی جڑیں کھود رہے ہیں اور پھر بھی ہندوستان لگاتار نہ جانے کیسے فاسٹ ڈیولپنگ ممالک کی فہرست میں اپنی رفتار بنائےہوئے ہے؟ اب یا تو ہندوستان کی جڑیں کٹائی پروف ہیں یا ٹائٹنیم کی بنی ہیں کہ کٹ نہیں رہی ہیں۔ یا یہ20.1 کروڑ مسلمان بلا کے بیوقوف ہیں کہ ستر سال سے اس ملک کی جڑیں کاٹ رہےہیں، اور ان سے کٹ نہیں رہی ہیں۔ نہ جانے کیسی بھوتھی آریوں، درانتی، اورچھینیوں کا استعمال کر رہے ہیں!
یا شاید جیسا پاکستانی(اوریجنل والے)کہتے ہیں کہ ہندوستانیوں کا ایمان ہی کمزور ہے، اسی لئے تو یہ وہاں رہ گئے تھے۔ بھلا کون-سا مسلمان، ایک مسلم ملک چھوڑکر ایک ہندو ملک میں رہےگا؟ تو موٹے-موٹے طور پر یہ کچھ باتیں ہمارے سامنے ہیں-
ایک کروڑ ہندوستانی مسلمان ہندوستان کی جڑیں کاٹنا چاہتے ہیں۔
لیکن ان کی، آریاں، چھینیاں، قینچیاں بھوتھی ہیں۔
ان کا ایمان بھی کمزور ہے۔ (اوریجنل پاکستانی کے حساب سے)
ان کی مسلسل اور مستقل کٹائی کے باوجود ہندوستان 5-8 کی شرح سے آگے بڑھ رہا ہے (مودی جیکے 5 فیصد)
یا یہ بیچارے مسلمان ایسا کچھ نہیں کر رہے ہیں، بس اسی زندگی کی جوڑ-توڑمیں لگے ہیں، جس میں باقی ہندوستانی لگے ہیں۔
اگر یہ آخری اور پانچواں پوائنٹ صحیح ہے تو پھر یہ میڈیا، سوشل میڈیا اورہر بی جے پی کے ترجمان کے منھ سے نکلنے والے زہر کو کوئی روکتا کیوں نہیں ہے؟کوئی ٹوکتا کیوں نہیں ہے؟ اس کا ایک آسان سا جواب ہے کہ مسلمانوں کے رہنما اس کے لئے ذمہ دار ہیں۔لیکن یہ مسلمانوں کے رہنما کون ہیں؟ یہ کسی کو نہیں پتہ کیونکہ مسلمانوں میں رہنماہے ہی نہیں۔ کچھ مولانا ہیں، جن کو کوئی نہیں جانتا، جو ٹی وی پر آکر بیٹھ جاتےہیں۔ کچھ ٹوپی والے رہنما ہیں، جو یہ طے کرتے ہیں کہ ہم کس کے لئے ووٹ کریںگے۔
یہ بھی پڑھیں:کیا ہندوستانی مسلمانوں کو ایک نئے طرح کی قیادت کی ضرورت ہے؟
میرے آس پاس کئی مسلمان ہیں، جو جینس-ٹی شرٹ پہنے گھومتے رہتے ہیں۔ بڑےپڑھے-لکھے ہیں۔ رائٹر ہیں، بینکر ہیں، مارکیٹنگ میں ہیں، کچھ آئی ایس آئی پی ایس بھی ہیں۔ کچھ وکیل ہیں، کچھ ایڈورٹائزنگ میں ہیں، کچھ ڈیزائنر ہیں۔ یہ ہر رنگ، ہرساخت اور قسم کے ہیں۔ یہ والے مسلمان کبھی ٹی وی پر کیوں نہیں دکھتے ہیں، جو عام طور پر انگریزی میں گٹر-پٹر کرتے رہتے ہیں؟حالانکہ آج کل کچھ پڑھے-لکھے مسلمانوں کی آوازیں سوشل میڈیا پر ضرور سنائی دیتی ہیں، لیکن پالیسی، انسانی حقوق وغیرہ کے معاملوں پر یہ سب آوازیں کوئی فرق پیدانہیں کرتیں۔
بہت منصوبہ بند طریقے سے آر ایس ایس پریوار کو چھوڑکر ساری آوازوں کو دبادیا گیا ہے۔ اگر کوئی آواز اٹھتی بھی ہے، تو صرف وہ، جو مسلمانوں کو پسماندہ،دقیانوسی اورقبائلی ثابت کرتی ہیں۔ لیکن جیسا میں نے پہلے ثابت کر دیا ہے کہ مسلمان تو ایسے نہیں ہیں، تو پھر کیا کیا جائے؟یہ رہا اس کا حل… پڑھے-لکھے مسلمانوں، اٹھو اپنی نیند سے اور کمان سنبھالو۔آج ہمیں ضرورت ہے ایک تنظیم کی، ایک سماجی تحریک کی۔ ایک ایسی سیاسی پارٹی کی، جوجینس-ٹی شرٹ والے مسلمانوں کی بھی ہو۔ جو مسلمانوں کے انسانی حقوق کے لئے لڑے، جومسلمانوں کے بارے میں پھیلے شک وشبہ کو توڑے۔ جو ان مسلمانوں کے دکھ-درد کوبانٹے،جو آج بدتمیزی کے ماحول میں پس رہے ہیں۔
لیکن اس کے لئے سب سے پہلے ہمیں ایک چیز کو مسلمانوں سے الگ کرنا ہوگا۔کسی بھی جمہوریت کے لئے مذہب کو سیاست سے الگ کرنا ضروری ہے۔ ہمیں بھی اسلام کومسلمان سے الگ کرنا ہوگا۔ پڑھے-لکھوں، تم کو اسلام کے بارے میں کم پتہ ہے، وہ کام تم مولاناؤں پر چھوڑ دو اور مولاناؤں کو جمہوریت کا کام پڑھے-لکھوں کے حوالے کرناہوگا۔ 20.1 کروڑ ہیں ہم اور آج ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے ایک نئی سماجی تحریک، ایک نیا ہندوستانی مسلمان چہرہ۔ ہمارا مقصد صاف ہے،اتحاد میں یکجہتی، برابری اور مساوات، بھائی چارہ اور اخوت، انصاف اور شفافیت۔
میں آج تیار ہوں، جو کل نہیں تھا۔ ایسے کئی کروڑوں مسلمان ہیں، جو آج اس نئی تحریک کے لئے تیار ہیں۔ اس ملک کے آگے بڑھنے کے لئے ہم ہندوستانی مسلمان ضروری ہیں، لیکن اس سے پہلے ہمیں خود کو منظم کرنا ہوگا، مرتب کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی اوردوسروں کی آواز بننا ہوگا۔ مسلمان ہونا آج صرف ہماری مذہبی شناخت نہیں ہے، یہ ہماری سماجی شناخت بھی ہے۔ تو کیوں نہ ہم مذہبی چیزیں مذہب کے لئے چھوڑ دیں اور اپنی سماجی شناخت کو بھی قبولکرکے ایک نئی شروعات کریں۔ کیوں نہیں ہم نئے رہنما پیدا کریں، جو ہمارے حق کےلئے لڑیں اور ہماری آواز بھی بنے۔
اب وقت آ گیا ہے اس نئے ہندوستان کے ساتھ، ایک نئے مسلمان کا، جو اپنی تقدیر کا خود مالک ہے، جو اپنے خوابوں کا خود محافظ ہے۔ جو اگر کسی سے زیادہ نہیں ہے، تو کسی سے کمتر بھی نہیں ہے۔ اب وقت آ گیا ہے ہم ایک ساتھ کہیں، ‘ مسلم ہیں ہم، وطن ہیں، ہندوستان ہمارا، سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا۔ ‘
(داراب فاروقی اسکرپٹ رائٹر ہیں اور فلم ڈیڑھ عشقیہ کی کہانی لکھ چکے ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر