سکھ مذہب کے بانی گرو نانک دیو پنجاب کےتلونڈی گاؤں میں1469 پیدا ہوئے ،اس گاؤں کواب ننکانہ صاحب کہا جاتا ہے۔آج ان کے 550ویں یوم پیدائش پر ان سے متعلق ایک دلچسپ واقعہ ملاحظہ کیجے۔
سکھ مذہب کے بانی گرو نانک دیو پنجاب کےتلونڈی گاؤں میں1469 پیدا ہوئے ،اس گاؤں کواب ننکانہ صاحب کہا جاتا ہے۔آج ان کے 550ویں یوم پیدائش پر ان سے متعلق ایک دلچسپ واقعہ ملاحظہ کیجے۔ یہ واقعہ انڈیپنڈنٹ اردو میں شائع سجاد اظہر کے مضمون سے لیا گیا ہے۔
کہتے ہیں کہ نانک جی کا دل جب کہیں نہ لگا تو گھر والوں نے انہیں سلطان پور کے نواب دولت خان کے گودام میں رسد کا حساب کتاب رکھنے پر نوکری دلوا دی۔ جب وہ رسد تولتے ہوئے 13 کی گنتی تک پہنچتے تو ’تیرا…میں تیرا‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے دم بخود ہوجایا کرتے۔نانک دل کھول کر گودام کا مال غریبوں میں باٹنے لگے۔ جب نواب صاحب سے شکایت کی گئی کہ نانک آپ کا مال لٹا رہے ہیں تو انہوں نے گودام کا حساب کتاب دوبارہ لگوایا لیکن تمام اجناس پوری نکلیں۔
ایک دن نانک قریبی ندی میں نہانے نکلے اور تین دن تک ندی کے اندر غائب رہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہیں نانک کو خدا کا وصال ہوا اور خدا نے انہیں ایک پیالہ عنایت کیا اور کہا کہ ’اسے خود بھی پیو اور دنیا کو بھی پلاؤ۔ جو تمہارا نام لے گا، اس کا شعور بیدار ہو جائے گا۔‘
جب وہ ندی سے نکلے تو ان کے لبوں پر ایک انوکھا نعرہ تھا: ’نہ کوئی ہندو، نہ کوئی مسلمان۔‘ شہر میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا کہ یہ کون ہے جو مسلمانوں کی حکومت میں اور ہندؤوں کے شہر میں دونوں کی توہین کر رہا ہے۔ قاضی نے ان کو طلب کیا اور پوچھا کہ ’نانک تم کہتے ہو کہ یہاں نہ کوئی ہندو دکھائی دیتا ہے نہ مسلمان، تو پھر تم کون ہو؟‘ نانک نے جواب دیا کہ ’اگر میں اپنے آپ کو ہندو کہتا ہوں تو وہ مجھے مار دیں گے مگر میں مسلمان بھی نہیں ہوں۔ میں پانچ عناصر کا بنا ہوا پتلا ہوں اور نانک میرا نام ہے۔‘
قاضی نے کہا کہ ’ہو سکتا ہے کہ ہندو اپنے مذہب کو چھوڑ چکے ہوں مگر ہم تو پانچ نمازیں ادا کرتے ہیں اور وہ بھی خدا کے حضور میں کھڑے ہو کر، تم کیا جانو ان میں کیا راز پوشیدہ ہے اور ہم اس کے صلے میں خدا کی راہ میں بخشے جائیں گے۔‘ جس پر نانک نے جواب دیا کہ میں بھی دن میں پانچ وقت کی نماز ادا کرتا ہوں ایک سچ کی، دوسری حق حلال کی کمائی کی، تیسری خدا کے فضل و کرم کی، چوتھی نیت اور ایمانداری کی اور پانچویں خدا کی حقیقی یاد کی، ان سے عظیم تر کوئی نماز نہیں ہوسکتی۔‘
قاضی نے کہا: ’میرے ساتھ نماز پڑھ کر دیکھو، تمہیں خود ہی فرق معلوم ہو جائے گا۔‘ نانک نے کہا کہ ’مجھے منظور ہے۔‘ جب قاضی نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو نانک ایک طرف کھڑے ہو کر مسکرانے لگے۔ جب نماز ختم ہوئی تو قاضی نے نواب سلطان پور سے شکایت کر دی کہ جب ہم نماز ادا کر رہے تھے تو نانک ہم پر ہنس رہا تھا۔ نانک نے کہا کہ’نواب صاحب، جب قاضی صاحب نماز ادا کر رہے تھے تو ان کا دھیان اپنی گھوڑی کی طرف تھا، جس کے ہاں نیا بچہ پیدا ہوا تھا۔ قاضی صاحب کو اندیشہ تھا کہ گھوڑی کا بچہ کہیں کنویں میں نہ گر جائے۔‘ یہ کہہ کر نانک جی وہاں سے چل دیے۔ نواب صاحب نے بہت کہا کہ ملازمت جاری رکھیں مگر نانک نے کہا کہ وہ اب اس کے ہاں ملازمت کریں گے جس کے ہاں تمام کائنات ہاتھ باندھے کھڑی ہے۔ یہ کہہ کر نانک نے مردانے کو، جو یہاں ان کا مرید ہوا تھا اور رباب بجایا کرتا تھا، ساتھ لیا اور جنگل کی طرف چل پڑے۔
نانک جی جنگلوں، آبادیوں میں گھومتے رہے۔ ان کا نام اب ’گرو‘ کے نام سے مشہور ہو چکا تھا۔ وہ جگہ جگہ معجزے دکھاتے۔ جب وہ ہندوؤں کےمرکز ہردوار پہنچے تو یہاں گنگا میں ہندو نہا رہے تھے اور پانی مشرق کی طرف اچھالتے تھے۔ جب نانک جی نے اس کی وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ یہ پانی مرنے والے بزرگوں کو دیا جا رہا ہے تاکہ ان کی زندگی آسودہ اور ٹھنڈی رہے۔ یہ سن کر نانک جی نے پانی مغرب کی طرف اچھالنا شروع کر دیا۔ لوگ ہنسے کہ کیا کبھی کسی نے مغرب کی طرف بھی پانی اچھالا ہے تو نانک جی نے جواب دیا کہ ’میرے کھیت یہاں سے مغرب کی طرف پنجاب میں ہیں، میں ان کو یہاں سے پانی دے رہا ہوں۔‘ لوگ کہنے لگے کہ ’اتنی دور سے دیا ہوا پانی آپ کے کھیتوں کو کیسے سرسبز کرے گا؟‘ جس پر گرو نانک نے کہا کہ ’اگر آپ کا دیا ہوا پانی دوسری دنیا میں پہنچ سکتا ہے تو کیا میرا پانی اس دنیا میں میرے کھیتوں کو سرسبز نہیں کر سکتا۔‘
Categories: فکر و نظر