انٹرویو: معروف مؤرخ ڈی این جھا سے بابری مسجد-رام جنم بھومی تنازعہ، اس سے متعلق تاریخی حقائق ، آثارقدیمہ اور فرقہ وارانہ پہلوؤں پر بات چیت۔
معروف مؤرخ دوجندر نارائن جھا نے ابتدائی ہندوستانی تاریخ میں طبعی تہذیب پر مطالعے کاآغاز کیا۔ اپنے 35 سالوں کے اکیڈمک کریئر میں انہوں نے قدیم ہندوستانی سماج اوراقتصادی نظام پر تفصیلی ریسرچ کیا اور ابتدائی قرون وسطیٰ ہندوستان میں جاگیرداری کےمختلف مرحلوں کی تفتیش کی۔ایک پیشہ ورمؤرخ کے طور پر انہوں نے تاریخی علوم سے مطابقت پائی جانے والی ہم عصر سیاسی مباحث میں فعال طور پر مداخلت کی ہیں۔ اس عمل میں وہ کئی بار ہندوتوا تنظیموں کے نشانے پر آئے۔
مثال کے طورپر جب ان کی کتاب ‘دی متھ آف دی ہولی کاؤ’ نے قدیم ہندوستان میں گائے کا گوشت کھانے اوربرصغیر کے کھان پان کی عادتوں کا سیاق پیش کیا، تب وہ ان تمام لوگوں کے نشانے پر آگئے، جن کو ان کا نتیجہ ناگوار گزرا تھا۔ انہوں نے ہمیشہ اساطیری کہانیوں کے اوپرتاریخی حقائق کو ترجیح دی ہے اور ایسا کرتے ہوئے وہ زیادہ تر وقت حکمرانوں کی آنکھوں کی کرکری بنے۔وہ آزادمؤرخوں کی اس جماعت کے ممبر تھے، جس نے تاریخی اور آثار قدیمہ کے شواہد کی تفتیش کرکے اپنی رپورٹ میں بابری مسجد کے نیچے ایک ہندو مندر ہونے کے نظریہ کی تردید کی تھی۔ دی وائر کودئے گئے ایک تفصیلی انٹرویو میں انہوں نے ہندو مندر کو توڑکر بابری مسجد بنائےجانے کے دعویٰ کو مضحکہ خیز بتایا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح سے ہندوستانی آثارقدیمہ سروے (اے ایس آئی)نے اس مدعے پر اپنے حق میں تبدیلی کرکے رام جنمبھومی-بابری مسجدتنازعہ کے اردگرد ہندو-مسلم عداوت کو بھڑکانے میں سنگھ پریوار کی مدد کی۔
سپریم کورٹ جلدہی الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر اپنا فیصلہ سنانے والا ہے۔ (یہ انٹرویوفیصلے سے پہلے لیا گیا تھا۔ )اس سے یہ مدعا ایک بار پھر بحث میں آ گیا ہے۔ ایک پیشہ ور مؤرخ ہونےکے ناطے آپ اس کو کس طرح سے دیکھتے ہیں؟
ایودھیاتنازعہ کافی لمبے وقت سے چلا آ رہا ہے۔ ہندو اور مسلم متنازعہ زمین پر قبضے کےلئے لڑائی لڑ رہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے میڈیا کو دیے گئے پہلے کے انٹرویو میں بھی کہا ہے، میں اس کو آستھا اور دلیل/منطق کے درمیان کی لڑائی کے طور پر دیکھتا ہوں۔ یہ ثابت کرنا ناممکن ہے کہ رام کا جنم ایودھیا میں 2.7 ایکڑ کے متنازعہ احاطے کے اندرہوا تھا۔ میں اس آستھاکے پیچھے کوئی دلیل نہیں دیکھ پاتا ہوں اور ایک پیشہ ور مؤرخ کے طور پر میرا مانناہے کہ تاریخ کو آستھا کی بنیاد پر نہیں لکھا جا سکتا ہے۔ اس بنیاد پر جو کچھ بھی لکھا یا بولا جاتا ہے، وہ فنتاسی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا ہے۔
آپ مؤرخوں کی اس جماعت کے ممبر تھے جنہوں نے ‘رام جنم بھومی-بابری مسجد؛اے ہسٹورینس رپورٹ ٹودی نیشن’نام کی رپورٹ تیار کی تھی۔ آپ کے اہم نتائج کیا تھے؟
سب سے پہلےمیں یہ واضح کرنا چاہوںگا کہ اس رپورٹ کو تیار کرنے والے چار مؤرخ -سورج بھان،اطہر علی، آر ایس شرما اور میں-حکومت اور اس تنازعہ کے دونوں فریقوں سے آزاد تھے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمیں ان کا تعاون نہیں ملا۔ لیکن اس کے باوجود ہم رپورٹ تیار کر پائے۔ہم نے تحریری اور آثار قدیمہ کے ثبوتوں کی تفتیش کی اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ مسجدکے نیچے کوئی ہندو مندر نہیں تھا۔
اس تنازعہ میں ہندوستانی آثارقدیمہ سروے (اے ایس آئی) کا کیا کردار دیکھتے ہیں؟ اے ایس آئی نےمبینہ طور پر پائے گئے ‘استمبھ آدھاروں ‘کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا کہ مسجد کی تعمیر ہندو مندر پر کی گئی تھی۔ اس بارے میں کیا کہنا ہے؟
اے ایس آئی اور ہندو فریق نے ‘استمبھ آدھاروں ‘ کی بنیاد پر مندر کے وجود کی دلیل دی ہے۔ لیکن اس بارے میں کچھ نکات کو واضح کرنا ضروری ہے۔ پہلا ہے اےایس آئی کے سابق گورنر جنرل بی بی لال کا رویہ، جنہوں نے سب سے پہلے ایودھیا میں کھدائی کی۔ وہ اپنی رائے بدلتے رہے ہیں۔ اپنی پہلی رپورٹ میں انہوں نے استمبھ آدھاروں کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔ 1988 میں انہوں نے آئی سی ایچ آر کے سیمینار میں ایک پیپر پیش کیا تھا۔ اس پیپر میں بھی استمبھ آدھاروں پر کچھ نہیں کہا گیا تھا۔ اور جب انہوں نے رامائن کی تاریخیت پر ایک خطبہ دیا، تب بھی انہوں نے استمبھ آدھاروں کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
لیکن، نومبر،1989 میں سنگ بنیاد کے ٹھیک بعد لال کا کایا پلٹ ہو گیا اور آر ایس ایس کی اشاعت میں شائع ایک پیپر میں انہوں نے مسجد کے بغل میں ایک استمبھوں والی ساخت کا ذکرکیا۔ ایسا ایودھیامیں ان کے ذریعے کی گئی کھدائی کے تقریباً 15 سالوں کے بعد کیا گیا۔ ماہرین تعلیم ہمیشہ آگے بڑھتے ہیں اور وقت وقت پر ان کے خیالات میں تبدیلی ہو سکتی ہے،لیکن لال میں تبدیلی کی رفتار کافی تیز تھی اور یہ حقیقت ان کے استمبھ آدھار کی دریافت کو شکوک کے گھیرے میں لے آتی ہے۔
دوسری بات،غیراسلامی ڈھانچوں سے سجے کالے پتھر کے 14 ستون، جو ہمیں مسجد کے محراب والے داخلےمیں چنے ہوئے ملے، وہ آرائشی حصے تھے، نہ کہ بوجھ اٹھانے والے۔ چار مؤرخ اس مدعےکی اور آگے تفتیش کرنا چاہتے تھے، لیکن اے ایس آئی نے ان کو سائٹ نوٹ بک نہیں دی۔
کیا اے ایس آئی نے اپنی رپورٹ مؤرخوں اورماہرین آثار قدیمہ کو تفتیش کے لئے دستیاب کروائی ہے؟
میں نے عدالت کی ہدایت پر کروائی گئی کھدائی کی آخری رپورٹ نہیں دیکھی ہے، لیکن جن ماہرین آثارقدیمہ اور مؤرخوں نے اس کو پڑھا ہے، انہوں نے اس کو ردی کا ٹکڑا بتایا ہے۔ پہلی بات اس کھدائی کا کام کرنے والے اے ایس آئی کے ماہرین آثار قدیمہ نے سائنسی معیارات پر عمل نہیں کیا، جن پر عمل ایسے کسی پروجیکٹ میں کیا جانا چاہیے۔ دوسری بات، یہ کھدائی وہاں مندر ہونے کے تعصبات کے ساتھ کی گئی۔ تیسری بات، اس رپورٹ میں حقائق کو دبایا گیا ہے۔ مثال کے طورپر مختلف سطحوں پر پائے جانے والی جانوروں کی ہڈیاں،چمکیلے برتن اور چمکیلی کھپریل کا کوئی ذکر اس رپورٹ میں نہیں کیا گیا ہے۔
آپ کا مانناہے کہ اکثریتی ہندوستانی اور یہاں تک کہ عدالت کی بھی بابری مسجد کی مسماری کولےکر جو سمجھ بنی ہے، وہ آستھا کی تاریخ / تاریخی حقائق پر حاوی ہو جانے کا معاملہ ہے۔ ایسا کیوں لگا؟
میرے خیال سےالٰہ آباد ہائی کورٹ کا دھیان سب سے زیادہ ہندو فریقوں کی آستھا کی طرف تھا۔تاریخی حقائق کو پوری طرح سے پس منظر میں ڈال دیا گیا۔ ان کو ردی مان لیا گیا۔
بابری مسجد-رام جنم بھومی کے مقام پر بنائی گئی تھی، یہ خیال کس طرح سے مقبول عام ہوا؟ہندوستانی تاریخ میں رام مندر کا تحریر شدہ یا دوسری صورت میں کیا حوالہ ملتا ہے؟
ایودھیا کےعلاقے میں رام کی جائے پیدائش بتانے والی پہلی دریافت تخلیق سنسکرت اسکند پران ہے۔اس کے کئی ابواب ہیں اور اس میں تحریفات کی کثرت ہے۔ایودھیا مہاتمیہ(جو اسکند پران کا حصہ ہے) غالباً 18ویں یا19ویں صدی کے آغاز میں جوڑا گیا ہے۔اندرونی دستاویزوں کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ سنہ 1600 عیسوی سے پہلے کا نہیں ہے۔یہ جن 30 مقدس مقامات کا ذکر کرتا ہے، ان میں سے ایک کو اس نے مقام پیدائش کا نام دیا ہے۔
دلچسپ یہ ہےکہ اس باب کے مرتبین نے مقام پیدائش پر 8 بنددیے ہیں، جبکہ 100 بند اس مقام کےبارے میں ہیں، عقائد کے مطابق جہاں سے رام سورگ گئے تھے۔ اس جگہ کو’ سورگ دوار’ کہاجاتا ہے۔ یعنی جس تخلیق پر وشو ہندو پریشد اور دوسرے گروپ منحصر ہیں، وہ رام کی پیدائش سے زیادہ اہمیت ان کی موت کو دیتا ہے۔ مرتبین کے لئےرام کی موت رام کے مقام پیدائش سے زیادہ اہم تھی۔ اس کے علاوہ سورگ دوار سریو ندی کے کنارے پر ہے، جو کہ مسجد کے مقام سے کافی دور ہے، جس کو رام کی جائے پیدائش بتایا جاتا ہے۔
فرانسیسی کیتھولک پادری ٹیفین تھیلر نے شاید 1765 سے پہلے ایودھیا کا سفر کیا تھا اور پہلی بار اس نے مسجد کی تعمیر کے لئے مندر کو توڑے جانے کی بات کی تھی، لیکن اس کو شہرت ملنے میں وقت لگا۔
کیا تاریخی تخلیقات میں ایودھیا کو ہمیشہ سے ایک تیرتھ استھان کے طور پر جانا جاتا تھا؟ تلسی داس کی رام چرت مانس ایودھیا کے بارے میں کیا کہتی ہے؟
یہ دکھانے کےلئے کوئی ثبوت نہیں ہے کہ قدیم دور میں ایودھیا ہندوؤں کا تیرتھ استھان تھا اور18ویں صدی تک بھی اس کی اس شکل میں ترقی نہیں ہوئی تھی۔ رام چرت مانس کے خالق تلسی داس بھی ایودھیا کا ذکر تیرتھ استھان کے طور پر نہیں کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے لئے ایودھیا نہیں پریاگ تیرتھ استھان کا اہم مقام ہے۔
کیا اس بات کاامکان ہے کہ ایودھیا دوسرے مذاہب کا بھی مرکز رہا ہو، مثلاً بودھ مذہب یا جین مذہب کا؟
اس بات کاثبوت ہے کہ ایودھیا ابتدائی قرون وسطیٰ میں ایودھیا ایک اہم بودھ مذہب مرکز تھا۔ہرش وردھن کے وقت میں ساتویں صدی میں ہندوستان آنے والے چینی مسافر ہیون سانگ نےیہاں بودھوں کی موجودگی کا ذکر کیا تھا۔ انہوں نے وہاں 100 بودھ وہار اور دیووں(براہمنوادی بھگوان) کے صرف دس مندروں کے ہونے کو درج کیا تھا۔ ایودھیا کوساکیت کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، جس کا بیان بودھ مذہب کے ساتھ-ساتھ جین مذہبی کتابوں میں بھی آتا ہے۔ جین دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ان کے پہلے تیرتھنکر رشبھ ناتھ کی جائے پیدائش ہے۔
اور تو اورابوالفضل اس شناخت کا ذکر کرتا ہے کہ دو یہودی پیغمبر ایودھیا میں دفن ہیں۔ اس لئےیہ شہر کئی مذاہب کے لئے مقدس تھا۔
آپ کے حساب سےایودھیا تنازعہ نے کیسے اور کب فرقہ وارانہ رنگ پکڑا؟ اصل میں اب ہندوتوا گروپ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ صرف بابر نے ہی نہیں اورنگ زیب اور ٹیپو سلطان جیسے کئی مسلم حکمرانوں نے کئی ہندو مندروں کو تباہ کیا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مسلم حکمرانوں نے ہندو مندروں کو تباہ کیا۔ لیکن ہمیں یہ یادرکھنا چاہیے کہ مندروں یا عبادت گاہوں کو تباہ کرنے کے معاملے میں ہندو زیادہ بدنام ہیں۔ یہ ثابت کیاجا سکتا ہے کہ انہوں نے جین اور بودھ مذہب کے کئی مذہبی مقامات کو تباہ کیا۔ یقینی طور پر یہ ریسرچ کا موضوع ہے کہ ملک میں کس نے کتنے مندروں کو تباہ کیا۔ قرون وسطیٰ ہندوستان میں فرقہ وارانہ جدو جہد کے زیادہ ثبوت نہیں ملتے ہیں۔ لیکن 1855میں ایودھیا میں ہندو-مسلم تنازعہ ہوا تھا، حالانکہ، ہندو-مسلم کے درمیان مدعے کواودھ کے نواب کے حکام کے ذریعے حل کر لیا گیا تھا۔ اس کے افسروں نے مورتیوں کومسجد کے باہر اس جگہ پر رکھنے کی اجازت دےکر، جس کو آج سیتا رسوئی کے نام سے جاناجاتا ہے، اس معاملے کو حل کر دیا۔
ایک وقف(ٹرسٹ)کی بھی تشکیل کی گئی۔ جائیداد کا مسئلہ آخرکار 1885 میں سلجھا لیا گیا۔ فیض آباد کے سب-جج اور اودھ کے عدالتی کمشنر نے یہ فیصلہ لیا کہ مسلمانوں کے پاس مسجدکا قبضہ رہےگا اور سیتا کی رسوئی کو ہندوؤں کو دے دیا۔ اس تنازعہ کااس طرح سے خاتمہ ہو جانا چاہیے تھا لیکن 1930 کی دہائی میں فرقہ پرستی کے عروج کے ساتھ حالات بدل گئے۔
اس تنازعہ کی فرقہ واریت میں 1949 ایک میل کے پتھر کی طرح ہے جب رام کی مورتی کو چوری چھپے مسجدکے اندر رکھ دیا گیا۔ اس تنازعہ کی فرقہ واریت کو 1984 میں وشو ہندو پریشد کے قیام کے ساتھ غیر معمولی تیزی ملی، جس کا نعرہ بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیرکا تھا۔
کیا ہندوستان کی آزادی سے پہلے کسی دانشور نے مندر کی مسماری کے اصول کا مطالعہ کیا۔ مجھے یاد آتاہے کہ آپ نے کہا تھا کہ بنگال میڈیکل سروس میں کام کرنے والے اسکاٹش فیزیشین (ڈاکٹر)فرانسس بوکانن نے 1810 میں ایودھیا کا سفر کیا تھا اور اس اصول کو بکواس قرار دیاتھا۔
یہ ضرور ہے کہ(ایچ ایم) ایلیٹ اور (جان) ڈاوسن نے مسلم حکمرانوں کے ذریعے مندروں کی مسماری کےبارے میں لکھا تھا (1871 میں) لیکن انہوں نے اس مسئلہ کا اس طرح سے مطالعہ نہیں کیا تھا۔ حالانکہ انہوں نے مسماری کی حقیقت کا ذکر کیا تھا۔ یدوناتھ سرکار ایک مشہور مؤرخ تھے، جنہوں نےہندو مندروں کو ناپاک / تباہ کئے جانے کا ذکر کیا تھا۔
کیا آپ کولگتا ہے مسماری کے بعد فیصلہ لینے کے عمل میں عدالت کو مؤرخوں اور ماہرین آثارقدیمہ کو شامل کرنا چاہیے تھا؟
یقینی طور پر۔فیصلہ لینے کے عمل میں مؤرخوں کو شامل کیا جانا چاہیے تھا۔ میرا ماننا ہے کہ یہ فیصلہ لینے کے لئے کہ کیا مسجد کے نیچے کوئی مندر تھا، اس کا ذمہ عالمی ماہرین کےپینل کو سونپا جانا چاہیے تھا۔ عدلیہ اکیلےتاریخی حقائق پر فیصلہ لینے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے۔ لیکن عدلیہ سے کیا امید کی جا سکتی ہے، جو مؤرخوں اور ماہرین آثار قدیمہ کی رپورٹ کو صرف ان کی رائے بتاکرخارج کر دیتی ہے۔
آپ نے اپنی رپورٹ حکومت ہند کو بھی سونپی تھی۔ کیسا رد عمل ملا تھا؟
ہم نے شری وی کے ڈھلکی معرفت اپنی رپورٹ حکومت ہند کو سونپی تھی، جو وزیر اعظم دفتر میں ایودھیا سیل کے انچارج تھے۔ لیکن ہمیں ان کی یا حکومت کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔
آخر میں، ایک عام انسان کو تاریخ کے برعکس نظریات کے اندر سے اپنی رائے کیسے بنانی چاہیے؟ایودھیا میں رام مندر تعمیر کی مانگ کرنے والے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ صرف نام نہادمارکس وادیوں کا یہ ماننا ہے کہ وہاں کوئی ہندو مندر نہیں تھا۔
عام آدمی کوتعلیم یافتہ کرنے کی ضرورت ہے اور ان کو منطقی نقطہ نظر کو قبول کرنے کے لئے تیارکرنا چاہیے۔ یہ کیسے کیا جائےگا، یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ میرے پاس اس کا کوئی بنا-بنایا جواب نہیں ہے۔ لیکن ایسی کسی غفلت میں مت رہیے۔ مندر نہ ہونےکی بات پھیلانے کے لئے مارکس وادی ذمہ دار نہیں ہے۔ ہندوتوا گروپ مارکسیت کا ہواکھڑا کر رہے ہیں، کیونکہ وہ اپنی بات کو ثابت کرنے کے اہل نہیں ہیں۔
Categories: فکر و نظر