بابری مسجد-رام جنم بھومی زمینی تنازعہ میں’امن اور ہم آہنگی’بنائےرکھنے کے لئے متنازعہ زمین کو نہ بانٹنے کا ججوں کا فیصلہ اکثریتی دباؤ سے متاثرلگتا ہے، جس میں مسلم فریقوں کے قانونی دعویٰ کو نظرانداز کر دیا گیا۔
کیا بابری مسجد-رام مندر تنازعہ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ سماج کے اکثریتی جذبات-جو ہندوستان کےتنظیمی ڈھانچے میں اندرتک پیوست ہے-کی انتہا ہے؟سیاست اور آئینی امور کے ماہرین آنے والے کئی سالوں تک اس سوال پر بحث کرتے رہیں گے۔اس تناظر میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو ایک میل کے پتھر کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے، جو پچھلی کئی دہائیوں کے دوران ہندوستان کی جمہوری تہذیب اور تکثیری اقدار کی زمین کےکھسکنے کا مطالعہ کرنے میں ہماری مدد کرےگا۔
1949 میں بابری مسجد کے اندر غیر قانونی طریقے سے رام کی مورتیوں کورکھنے کے ساتھ اکثریت پسند طاقتوں کے ذریعے ایک متنازعہ زمین پر آہستہ آہستہ قبضہ، ہندوستان کے آئینی اقدار کے آہستہ آہستہ کمزور ہونے کی نمائندگی کرتا ہے۔ نہرو نے اتر پردیش کے اس وقت کے وزیراعلیٰ گووند ولبھ پنت کو خط لکھکرفیض آباد کے کلکٹر کے کے نیر کو وہاں سے مورتی کو ہٹانے اور اس کارروائی سے پہلےکی صورت حال کو بحال کرنے کی ہدایت دینے کے لئے کہا تھا۔
لیکن کلکٹر اور مقامی پولیس سے ملے ان پٹ کی بنیاد پر وزیراعلیٰ نے نہروکو بتایا کہ مورتی کو ہٹانے سے نظم و نسق کی حالت بگڑ جائےگی اور اس سے فسادات بھڑک سکتے ہیں۔ نہرو کو آخر میں پیچھے ہٹنا پڑا۔ یہ ایک دلچسپ اتفاق ہے کہ عدالت کے ذریعے بھی ہندو فریقوں کو پوری کی پوری متنازعہ زمین سونپنے کے فیصلے کے پیچھے دی گئی دلیل یہ ہے کہ متنازعہ مقام کا بٹوارا کرنے سے، جس کے اوپر مسلمانوں کا پختہ قانونی دعویٰ تھا، نظم و نسق،امن اور ہم آہنگی کی حالت بگڑ سکتی ہے۔
موٹے طور پر دیکھیں، تو 1949 میں نصف عدالتی طاقتوں سے لیس فیض آباد کی افسرشاہی کے ذریعے استعمال کی جانے والی زبان بھی یہی تھی۔
اس تناظر میں فیصلے میں کہا گیا ہے ؛
جہاں تک سوال امن اور ہم آہنگی بنائے رکھنے کی ہے، تو جو حل عدالت عالیہ نے بتایا تھا، وہ ممکن نہیں ہے۔ زمین کا بٹوارا کرنا دونوں میں سے کسی بھی فریق کے مفاد میں نہیں ہوگا نہ ہی اس سے مستقل امن اور ہم آہنگی کا جذبہ کی قائم ہوگا۔ ‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ ججوں کے ذریعے حقائق کی بنیاد پر ہندو اور مسلم فریقوں کے درمیان زمین کا بٹوارا کرنے پر غور کیا جا سکتا تھا، اگر ان کے اندازےمیں اس میں مستقل امن اور ہم آہنگی قائم کرنے کی صلاحیت ہوتی۔اور ایسا لگتا ہے کہ داداگیری کی سیاست اور سماجی ماحول ججوں کو الگ الگاندازے کی طرف لے گئی۔ داداگیری کے عناصر کو آر ایس ایس کے رہنماؤں، شری شری روی شنکر اور دوسروں کے ذریعے پچھلے تقریباً ایک سال میں دیے گئے بیانات میں دیکھا جاسکتا ہے۔
اس لئے ایک طرف الٰہ آباد عدالت عالیہ کے فیصلے سے عدم اتفاق ظاہر کرتےہوئے، جس میں مسلم فریقوں کو متنازعہ مقام کا ایک تہائی حصہ دیا تھا، عدالت عظمیٰ مستقل امن اور نظم و نسق قائم کرنے کی طرف جھک گیا، جو اس کی سمجھ سے تبھی ہو سکتاتھا جب اس مقام کو پوری طرح سے ہندوؤں کو دے دیا جائے۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے شاید وہ آئین کے آرٹیکل 142 کے تحت ملے خصوصی عدالتی اختیار کے دائرے میں دوسرے فریق کے ساتھ پورا انصاف کرنے سے دو قدم پیچھے رہ گیا۔
اکانومک ٹائمس میں اپنے مضمون میں سپریم کورٹ کے سینئر وکیل راکیش دویدی نے اس کو بےحد پُر معنی طریقے سے رکھا ہے؛
اصل میں یہ فیصلہ مسلمانوں کے قبضے کی بحالی سے انکار کرتا ہے، جو کہ عام طور پر مسجد کی غیر قانونی تباہی اور اس کو ناپاک کرنے کے بعد ان کو ملنا چاہیےتھا۔ اس کے بدلے میں عدالت نے آرٹیکل 142 کے تحت قبضے کی بحالی کے بجائے معاوضے کا راستہ لیا۔ ‘
کیا ہوتا اگر عدالت عظمیٰ نے قبضہ واپس دینے کا راستہ لیا ہوتا، جس کومسلمانوں کے ذریعے مکمل انصاف کے طور پر دیکھا جاتا!مسلم فریق یقینی طور پر معاوضے کے طور پر ایودھیا میں کسی دوسری جگہ مسجدکی مانگ نہیں کر رہے تھے۔ وہ بابری مسجد، جہاں وہ بھی نماز ادا کر رہے تھے اور جس کے احاطے میں ہندو بھی پوجا کر رہے تھے، کی تباہی کے غیر قانونی کام کو پلٹ دینا چاہتے تھے۔
ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے میں مستقل ‘ امن اور ہم آہنگی’قائم کرنےکو مکمل انصاف کے اوپر ترجیح دیا گیا۔
ٹھیک ایسا ہی تو 1949 میں بھی ہواتھا جب امن اور نظم و نسق قائم رکھنے کے لیے مسجد کے اندر رام کی مورتی رکھنے کےپوری طرح سے غیر قانونی کام کو بہتر کرنے کے اوپر برتری دی گئی تھی۔
اکثریت کا دباؤ
زیادہ بڑی بات یہ ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ اکثریتی دباؤ کی جڑیں گہری ہوتی گئی ہیں اور اس نے ایک ایسی کارروائی کو جواز دیا ہے، جس میں ایودھیا جیسے جذباتی فرقہ وارانہ تنازعے کے لئے ادارہ جاتی حل خاص طور پر ‘امن اور ہم آہنگی’بنائےرکھنے پر آکر ٹک جاتا ہے، بجائے اقلیتوں کو انصاف دینے کے۔ اس پوائنٹ پر اعلیٰ ترین عدلیہ بھی گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔ اس سے اکثریت پسندطاقتوں کو اور طاقت ملنی طے ہے۔
یہ دیکھنا دلچسپ ہے کہ کس طرح سے ہندو رائٹ ونگ کے سر بھی 1980 سے لےکر اب تک بدلے ہیں۔ ایل کے اڈوانی کی رتھ یاترا کے ذریعے رام مندر مدعا کو بی جے پی کا اہم سیاسی مدعا بنائے جانے سے پہلے 1980 کی دہائی کےآخر میں میں نے مہنت اویدھ ناتھ کا انٹرویو کیا تھا۔ اس وقت مہنت اویدھ ناتھ، جسٹس ڈی این اگروال اور ایودھیا مقدمہ کے ایک فریق رام چندر پرم ہنس جیسے اہم ہندو رہنماؤں نے ایک حل پیش کیاتھا۔
اس کے تحت متنازعہ مقام کے اندر ہی ایک دیوار کھڑی کرکے رام چبوترہ کوہندوؤں کی پوجا کے لئے الگ کرنے کی تجویز تھی، جس کا اپنا الگ داخلہ ہوتا۔ موجودڈھانچے کا استعمال مسلمانوں کے ذریعے نماز پڑھنے کے لئے ہوتا۔ اس حل کو عام طور پر مقامی ہندوؤں اور مسلمانوں کی حمایت ملی تھی، جومستقل امن اور ہم آہنگی چاہتے تھے۔ لیکن آج کا سپریم کورٹ اس کو ممکن نہیں مانتاہے۔
سید شہاب الدین اور صلاح الدین اویسی جیسے رہنماؤں نے بھی کورٹ کے باہراس سمجھوتہ کی حمایت کی تھی۔ یہاں تک کہ وشو ہندو پریشد کے صدر اشوک سنگھل بھی متنازعہ مقام کو بانٹکر آپسی سمجھوتہ کے خیال کے بالکل خلاف نہیں تھے۔ لیکن آگے چلکر سنگھ پریوار نے بابری مسجد کے پورے احاطے کا دعویٰ کرنےوالی تحریک کے لئے اس خیال سے کنارہ کر لیا۔ یعنی اکثریت کا دباؤ چھپی ہوئی شکل میں کام کرتا ہے اور ہمیں اس پوائنٹ پر لےکر جاتا ہے، جہاں پر عدالت عظمیٰ کو بھی غالباً مکمل انصاف کی قیمت پر ‘امن اور ہم آہنگی’کے نام پر فیصلہ سنانا پڑتا ہے۔
یہ دہائیوں سے ہو رہا ہے۔ اب فرق بس یہ آیا ہے کہ یہ زیادہ تیز اور واضح ہو گیا ہے۔ ایک طرح سے عدالت عظمیٰ کا فیصلہ بھی اس دلیل کو لےکر کافی شفاف ہے۔ا س پوائنٹ سے آگے کس طرح سے یہ ہندوستان کے تکثیری اقدار اور اقلیتوں کودیے گئے مختلف آئینی حقوق کو متاثر کرےگا، یہ دیکھنے کی بات ہوگی۔ حالاں کہ امکان توبہت اچھے نظر نہیں آ رہے ہیں۔
Categories: فکر و نظر