خبریں

شدید ہنگامے کے بیچ لوک سبھا میں پیش کیا گیا شہریت ترمیم بل

شہریت ترمیم بل  کوغیر آئینی  بتاتے ہوئے لوک سبھا میں اپوزیشن  پارٹیوں نے اس کو  پیش کیے جانے کی  مخالفت کی۔ حالانکہ، لوک سبھا کے کل 293 ممبروں  نے بل  کو پیش کیے جانے کےحق میں ووٹنگ  کی جبکہ 82 ممبروں نے اس کے خلاف ووٹنگ کی۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی : سوموار کو مرکزی وزیر داخلہ  امت شاہ کے ذریعے مجوزہ متنازعہ شہریت ترمیم  بل کو لوک سبھا میں پیش کرنے کی منظوری مل گئی۔ کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن  پارٹیوں نے بل  کو ایوان میں پیش کرنے کی  مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ بل  آئین  کےدفعہ 14 کی خلاف ورزی ہے۔لوک سبھا کےکل 293 ممبروں نے بل  کو پیش کیے جانے کے حق میں ووٹنگ کی جبکہ 82 ممبروں  نے اس کے خلاف ووٹنگ کی۔

اس بل میں پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والی چھ غیر مسلم کمیونٹی کے پناہ گزینوں کوہندوستان کی شہریت  دینے کی بات کہی گئی ہے۔ فرقہ وارانہ  اور غیر مسلم ہونے کی وجہ سےملک بھرمیں ، خاص طور پرنارتھ ایسٹ کی ریاستوں میں اس کی شدید مخالفت ہو رہی ہے۔امت  شاہ کے ذریعے بل کو پیش کرنے کی منظوری مانگے جانے کے بیچ بل  کو پیش کرنے کی منظوری نہ دیےجانے کی بحث کی شروعات کرتے ہوئے کانگریس رہنما ادھیر رنجن چودھری نے آئین کی تمہید پڑھی۔ چودھری نے شاہ سے پوچھا کہ کیا آپ کوآئین  پسند نہیں ہے؟

بل  کو کھلے طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے والا بتانے کے چودھری کے تبصرے کا جواب دیتے ہوئے شاہ نے کہا کہ یہ بل ایسا0.001 فیصدی بھی نہیں کر رہا ہے۔امت شاہ کے بیچ میں ٹوکنے پر ادھیر رنجن نے کہا کہ کیا آپ بھی ایسا کریں گے۔ اس پر امت شاہ نے کہا کہ ابھی اس بل کے اہتماموں  پر چرچہ نہیں ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بل پر اٹھائے جا رہے ہر سوال کا جواب دیں گے تب آپ ا یوان  سے واک آؤٹ نہیں کرناانہوں نے بل کی ضرورت پر چرچہ کرتے ہوئے کہا کہ اس بل سے پاکستان اور بنگلہ دیش سے آئے مسلمانوں  کوفائدہ نہیں ملےگا کیونکہ وہاں پر ان کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر زیادتی  نہیں ہوتی ہے۔

بل کی مخالفت کرتے ہوئے این کے پریم چندرن نے کہا کہ مذہب کو شہریت کی بنیاد  نہیں بنایا جا سکتا ہے۔آرٹیکل  25 اور 16 غیرشہریوں سمیت سبھی پر نافذ ہوتا ہے، جو کہ مذہبی آزادی کا حق  دیتا ہے۔  آرایس پی رکن پارلیامان این کے پریم چندرن نے کہا کہ یہ بل آئین  کی بنیاد کے خلاف ہے۔ مذہب کی بنیاد پر شہریت سیکولرازم کے ڈھانچے کے خلاف ہے۔ کانگریس ایم پی ششی تھرور نے کہا کہ کیا اب ملک  میں مذہب  کی بنیادپرشہریت طے کی جائےگی۔

ترنمول  کانگریس کے سوگت رائے نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ شاہ کے اس بچاؤ میں کوئی دم نہیں ہے کہ اس میں مسلمانوں کا ذکر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، امت شاہ ایوان میں نئے ہیں۔ شاید وہ ضابطے  کو نہیں سمجھتے ہیں۔بل باٹنے والا اورغیر آئینی  ہے۔

اے آئی ایم آئی ایم چیف اسدالدین اویسی نے شاہ کا موازنہ ہٹلر سے کیا۔ انہوں نے کہا، ‘میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ ایسے قانون سے ملک  اور وزیر داخلہ کو بھی بچائیں۔نہیں تو نیومبرگ ریس قانون اور اسرائیل کی شہریت بل  کی طرح وزیر داخلہ  کا نام بھی جرمن تاناشاہ ہٹلر اور سابق اسرائیلی  وزیراعظم  بین گرین کے ساتھ لکھا جائےگا۔’حالاں کہ ، اسپیکر اوم برلا نے بعد میں اس تبصرے کو ریکارڈ سے نکال دینے کا حکم دیا۔

قابل ذکر ہے کہ   اے آئی ایم آئی ایم  کے رہنمااور رکن پارلیامان اسدالدین اویسی نے اس کی شدید  مخالفت کی، انہوں نے کہا کہ یہ بل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ لوک سبھا میں انہوں نے کہا، ‘میں صرف چارنکات پر ہی بولوں گا، وقت نہیں ہے، اور یہ لوگ (اقتدار) جواب بھی نہیں دے پائیں گے۔ پہلی بات ہے، سیکولرازم  اس ملک کے بنیادی ڈھانچےکا حصہ ہے، کیشوانند بھارتی (کیس) میں کہا گیا، (آئین کے)دفعہ 14 میں کہا گیا۔ دوسری بات، ہم اس لیے اس (بل) کی مخالفت کر رہے ہیں، کیونکہ یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، یہ من مانا ہے، شائرہ بانو (کیس) میں، نوتیج جوہر (کیس) میں اس کا ذکر ہے۔

اس کے علاوہ بومئی، کیشوانند بھارتی بھی ہیں۔ تیسرا، ہمارے ملک میں ایک شہریت  کا تصور ہے۔ آپ (حکمراں جماعت) یہ بل لاکر سربانند سونووال سپریم کورٹ کیس کی خلاف ورزی  کر رہے ہیں۔ آپ اس ملک کو بچا لیجیے۔’

کانگریس نے اس بل کو مسلمانوں  کے خلاف بتایا ہے، لیکن وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ یہ بل کہیں سے بھی اقلیتوں کے خلاف نہیں ہے۔

انڈین یونین مسلم لیگ کے ای ٹی محمد بشیر، کانگریس کے گورو گگوئی، ششی تھرور نے بھی بل  کو ایوان  میں پیش کرنے کے  خلاف اپنی بات رکھی۔ہنگامہ  بڑھنے پر اسپیکر نے کہا کہ انہیں بل کے خلاف کئی نوٹسیں مل چکی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ یہ آئین  کے آرٹیکل5،10،14،15 اور 26 کی خلاف ورزی ہے۔

شاہ جب بولنے کے لیے کھڑے ہوئے تب اپوزیشن  پارٹی کے رہنماؤں نے خوب  ہنگامہ کیا۔ ہنگامہ کے بیچ شاہ نے کہا کہ ہ بل کے آئین کی خلاف ورزی  کرنے کے سبھی ڈر کو دور کر دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 14 خاص درجہ بندی کی بنیاد پر سرکار کو بل  تیار کرنے سے نہیں روکتا ہے۔انہوں  نے کہا، ‘1974 میں اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ بنگلہ دیش کے لوگوں کوشہریت  دی جائےگی۔ آخر، انہوں نے پاکستان کا نام شامل کیوں نہیں کیا تھا۔’

اس کے ساتھ ہی انہوں نے اقلیتوں کو دیے گئے کئی خصوصی حقوق  کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کو ملے ایسے حقوق تودفعہ 14 کی خلاف ورزی  نہیں کرتے ہیں۔ پہلے بھی مناسب درجہ بندی کی بنیاد پرمشتمل  کئی قوانین پاس کیے گئے۔ مجھے بھی اس بل  کو ایوان میں پیش کرنے کا موقع ملنا چاہیے کیونکہ یہ مناسب درجہ بندی پر مشتمل ہے۔شاہ  کے بولنے کے بیچ اپوزیشن پارٹیوں کے رہنماؤں نے انہیں کئی بار بیچ میں ٹوکا اور اسپیکر نے رہنماؤں کو بیٹھنے کو کہا۔

ہنگامہ بڑھنے پر شاہ نے اچانک کہا، ‘مخالفت کرنے والے لوگ پاکستان کے قبضے والے کشمیر کوہندوستان  کا حصہ نہیں مانتے ہیں۔’وزیرداخلہ نے کہا، ‘بل میں جن ملکوں  کاذکر ہے وہاں اقلیتوں  پر ظلم ہو رہے ہیں اور ہندوستان  کی ذمہ داری ہے کہ ان مظلوم لوگوں  کو اپنائے۔ ان تینوں ملکوں  میں اسلام ان کا مذہب  ہے اور یہ بل  کو مناسب درجہ بندی  کی بنیا دفراہم کرتا ہے۔ ان ملکوں میں کبھی بھی مسلمانوں کے ساتھ امتیاز نہیں کیا گیا۔’انہوں نے کہا، ‘وہ کانگریس تھی جس نے مذہب کی نیاد پر ملک کو بانٹا۔’

ایوان میں ہنگامہ کے بیچ وزیر داخلہ نے کہا کہ اگر مذہب کی  بنیاد پر کانگریس ملک  کابٹوارہ  نہیں کرتی تو آج اس  بل کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ان کے اس بیان پر بھی اپوزیشن  کی جانب  سے خوب ہنگامہ  ہوا۔

واضح ہو کہ آسام کے ڈبروگڑھ یونیورسٹی کی طلبہ  یونین اور کاٹن اسٹیٹ یونیورسٹی کی  طلبا یونین نے وزیراعلیٰ سربانند سونووال سمیت حکمراں بی جے پی، آرایس ایس کے ممبروں اور بل کی حمایت کرنے والوں کو ان دونوں یونیورسٹیوں میں داخل ہونے پر غیر معینہ مدت پابندی لگا رکھی ہے۔غور طلب ہےکہ تمام مخالفت کے بعد بھی مرکزی کابینہ نے گزشتہ  چار دسمبر کوشہریت ترمیم بل کو منظوری دے دی تھی۔ اس سے پہلے یہ بل اس سال جنوری میں لوک سبھامیں منظور ہو گیا تھا لیکن راجیہ سبھا میں منظور نہیں ہو سکا تھا۔

بل لائے جانے کے بعد سے آسام سمیت نارتھ ایسٹ  کی کئی ریاستوں میں اس بل کی پر زور مخالفت ہو رہی ہے۔ نارتھ ایسٹ میں کئی تنظیموں  نے اس بل کو لے کریہ دعویٰ کرتےہوئے مخالفت کی ہے کہ وہ علاقے کے اصلی باشندوں کے حقوق کو کم کر دے‌گا۔حالانکہ اروناچل پردیش، ناگالینڈ، میزورم کے’انر لائن پرمٹ ‘(آئی ایل پی)علاقوں اور شمال مشرق کی چھٹی فہرست کے تحت آنے والے علاقوں کو شہریت ترمیم بل سے باہر رکھا گیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ شہریت ترمیم بل کا فائدہ اٹھانے والوں کو ہندوستان کی شہریت مل جائے‌گی لیکن وہ اروناچل پردیش، ناگالینڈ اور میزورم میں بس نہیں پائیں‌گے۔موجودہ ہندوستانی شہریوں پر بھی یہ پابندی نافذ رہے‌گی۔ کہا جا رہا ہے کہ آسام، میگھالیہ اور ترپیورہ کا ایک بڑا حصہ چھٹی فہرست کے تحت آنے کی وجہ سے اس متنازعہ بل کے دائرے سے باہر رہے‌گا۔

دریں اثنا پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے غیر مسلم پناہ گزینوں کوہندوستانی شہریت عطا کرنے کی مرکزی حکومت کے فیصلے کے خلاف جمعہ کو نارتھ ایسٹ اسٹوڈنٹس یونین (این ای ایس یو)نے 10 دسمبر کو 11 گھنٹے کے نارتھ ایسٹ بند کا اعلان کیا۔ این ای ایس او کے صلاح کار سمجّول کمار بھٹاچاریہ نے بتایا کہ آسام،اروناچل پردیش، میگھالیہ، ناگالینڈ، میزورم، منی پور اور تریپورہ کی  کل طلباتنظیموں نے مشترکہ طور پر بند کا اعلان کیا ہے۔