شہریت ترمیم جیسے ایکٹ لوگوں کوذات اور مذہب کی بنیاد پر بانٹنے کا کام کرتے ہیں۔ کشمیر اور آسام جیسی ریاستوں میں آواز وں کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔
شہریت ترمیم بل کو راجیہ سبھاسے بھی منظوری مل گئی ہے اور صدر کے دستخط کے بعد اب یہ قانون میں تبدیل ہو گیا۔اس بل کے تحت 1955 کے سٹیزن شپ ایکٹ میں تبدیلی کی تجویز ہے۔ اس کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سےآکر ہندوستان میں بسے ہندو، سکھ، بدھ، جین، پارسی اور عیسائی کمیونٹی کے پناہ گزینوں کو شہریت دینے کا اہتمام ہے۔
ان کمیونٹیز کے ان لوگوں کوشہریت دی جائےگی، جو گزشتہ چھ سال سے ہندوستان میں رہ رہے ہیں۔ فی الحال ہندوستان کی شہریت حاصل کرنے کے لئے یہ مدت 11 سال کی ہے۔ اس بل کے خلاف نارتھ ایسٹ کیک ئی ریاستوں میں مظاہرہ ہورہاہیں۔ آسام میں تشدد ہو رہا ہے۔ وہاں کے کئی اضلاع میں انٹرنیٹ کی سہولت بین کر دی گئی ہے۔ کئی علاقوں میں کرفیو لگا ہے۔ انتظامیہ سختی برت رہی ہے۔مخالفت کی آواز دبانے کے لئے مرکز نے سکیورٹی اہلکار بھیجے ہیں۔
سوال ہوتا ہے کہ آخر اس قانون کی مخالفت کیوں ہو رہی ہے؟ اس کا پہلا اور سیدھا جواب تو یہ ہے کہ اس کے پیچھے بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے کی نیت کی وجہ سے اس کی مخالفت ہو رہی ہے۔اس بل کو ہندو راشٹربنانے کی سمت میں ایک اور قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ مخالفت کی دوسری بڑی وجہ ہے کہ اس بل میں دوربینی نہیں ہے۔ یہ بل فوراً تو ہندوؤں کے مفاد میں دکھ رہا ہے پرجس کا دوررس پہلو یہ ہے کہ مسلم ممالک میں رہ رہے ہندوؤں کی مصیبت یہ اور بڑھائےگی۔
تیسری سب سے بڑی وجہ ہے کہ یہ بل ہندوستان کی سخاوت اور جمہوری کردار کو نقصان پہنچاکر اس کو کٹرپن اور فرقہ پرستی کاجامہ پہنائےگا۔ یہ صاف طور پر دکھ رہا ہے کہ اس میں مسلم پناہ گزینوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ جو ملک سارےمذاہب کے یکساں ہونے کاپیغام دیتا ہے، وہی ملک ایسا قانون بنانے جا رہا ہے، جس کی نظر صرف مذہبی پہچان دکھےگی۔ملک کو کانگریس سے آزاد کرنے کانعرہ دینے والی بی جے پی آج خود کانگریس میں ضم ہوتی گئی ہے۔ اس کے تمام بڑے فیصلےاوندھے منھ گرے ہیں۔اپوزیشن میں رہتے ہوئے اس نے آدھار کارڈ کی پرزور مخالفت کی تھی۔ ایف ڈی آئی کو یہ سب سے تباہ کن مانتی رہی تھی۔
جی ایس ٹی کی تیاری کو یہ کاروباریوں کے لئے پھانسی کا پھندا بتاتی رہی تھی۔ لیکن اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی اس کی مخالفت کے سُر گُم ہو گئے اور یہ اسی راستے پر چل نکلی، جس کی مخالفت کرکے اس نے اقتدار تک اپنی پہنچ بنائی تھی۔این ڈی اے حکومت کے اہم فیصلوں میں ہے نوٹ بندی، جس کی مار سے عوام اب تک نکل نہیں سکی ہے۔ دفعہ 370 کے کچھ حصوں کو خارج کرنے کے لئے اس نے وادی کو ملک کے سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر دیا۔
اس حکومت نے کئی ریاستوں اورمقامات کے نام بدلے۔ گڑگاؤں گروگرام ہو گیا۔ فیض آباد ایودھیا ہو گیا۔ الٰہ آبادپریاگ راج کہلانے لگا۔ مغل سرائے اسٹیشن دین دیال اپادھیائے اسٹیشن ہو گیا۔ اس سےپہلے کی حکومتوں نے بھی شہروں اور ریاستوں کے نام بدلے ہیں۔ بامبے ممبئی کیا گیا،مدراس چنئی بنایا گیا تھا۔ موجودہ حکومت کا واحد ایجنڈہ حب الوطنی کی گھٹی پلاکر ملک کو ہندو راشٹر کی طرف لے جانا ہے۔ اس حکومت کے پاس روٹی کا جواب حب الوطنی ہے۔ ا س کے فیصلوں کی مخالفت کرنے والے تمام لوگ غدارِ وطن ہیں۔
ملک میں بےروزگاروں کا اعدادو شمار بڑھتا جا رہا ہے، روزگار تباہ ہو رہے ہیں، جی ڈی پی گرکر 4.5 پر پہنچ گئی ہے۔ اپنے ملک کے لوگوں کو تحفظ دینے میں ناکام حکومت کے سب سے بڑی فکر پڑوس سے آنےوالے غیرمسلم پناہ گزیں ہیں۔پوچھا جا سکتا ہے کہ حب الوطنی میں برائی ہے کیا؟ یا ہندو راشٹر بنانے کی کوشش کرنا گناہ ہے کیا؟ اس کا سیدھا اور سپاٹ جواب ہےکہ حب الوطنی میں ذرا بھی برائی نہیں۔ برائی یا اچھائی اس بات پر منحصر کرتی ہے کہ حب الوطنی آپ کس کو کہہ رہے ہیں یا اس کو کیسے متعارف کر رہے ہیں۔
ہندو راشٹر کے طور پرہندوستان کو دیکھنا ایک طرح سے ہندوستان کی فطرت میں تبدیلی کی کوشش کرنا ہے۔ یہ کثیررنگی تہذیب اور سنسکار والا ملک رہا ہے۔ اس کو کسی ایک رنگ میں رنگا نہیں جاسکتا۔ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے اس نظریے کو جو ہمیشہ گھس پیٹھیوں سے غیرمحفوظ رہتا ہے، جس کے لئے ملک جیسے کوئی جڑ چیزہے، جس کو ہندو راشٹر کے کھانچے میں ہی کسا جانا چاہیے۔
دراصل، یہ ڈرا سہما اورگھبرایا ہوانظریہ ہے جو خود کے لئے محفوظ ٹھکانہ ڈھونڈ رہی۔ اس کا ہندو راشٹر پل بھرمیں خطرے میں پڑ جاتا ہے اور یہ نظریہ مشتعل ہو اٹھتا ہے۔ وہ ایودھیا مدعا پرسپریم کورٹ کے فیصلے کی بھوری-بھوری تعریف کرتی ہے، مگر سبری مالا پر اسی کورٹ کےفیصلے کی مخالفت میں کھلکر سامنے آتی ہے۔ قاعدے سے ہر ہندوستانی پاکستانی حکمرانوں کی دورخی چالوں کی وجہ سے پاکستان کے خلاف ہوتا ہے۔
پر ڈرے ہوئے نظریے والے پاکستان کی مخالفت کرتے ہوئے اسی کے نقشِ قدم پر چل پڑتے ہیں۔ اسی طرح کا کٹرپن اپنے اندرپالنے لگتی ہے۔ اور اس طرح وہ خود کے اندر ایک نیا پاکستان رچتی ہے۔ روز اس سےتصادم کرتی ہے۔ نتیجہ ہے کہ اس کے دل میں کبھی این آر سی کا منصوبہ بناتی ہے تو کبھی شہریت ترمیم بل کی حمایت میں دلیلیں سوجھتی ہیں۔ یہ نظریے کی ضرورت پڑنے پر جھوٹ بھی بولتی ہے اور تاریخ بھی بدلنے کی کوشش کرتی ہے۔
اسی بل پر بحث کے دوران ملک کی تقسیم کا جو الزام کانگریس پر لگایا گیا اور اب ہندو راشٹر کی حفاظت کئے جانے کی دلیل اس بل سے نتھی کی گئی، اس کو منظور کئے جانے سے پہلے ہمیں ایمانداری سے تاریخ کھنگالکے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ دوقومیی نظریہ کا اصول کہاں سے آیا، کون-کون لوگ اس کے حمایتی رہے۔کہنے کی ضرورت نہیں دو قومی نظریہ اس نظریے کی پیداوار تھی، جس پر گاندھی کے قتل کا الزام ہے، اس قتل کےالزام سے اس وقت ساورکر بھی گھرے تھے۔
یشپال کی آپ بیتی ‘سنگھاؤلوکن’ پلٹکر دیکھیں، تو پائیںگے کہ ساورکر کے بڑے بھائی نے جناح کو ماردینے کی پیشکش یشپال کے سامنے رکھی تھی۔ یہ تجویز جب چندرشیکھر آزاد نے سنی توانہوں نے ناراضگی کے ساتھ کہا کہ کیا ساورکر ان کو بھاڑےکا قاتل سمجھتے ہیں۔ بہر حال، ملک کی تقسیم سے ہوئےنقصان کا اندازہ بہت بار ہوتا رہا ہے، فی الحال ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دوقومی نظریہ نظریاتی طور پر مرا نہیں اور اس بل کے ذریعے نئی شکل میں آکر ملک کےاندر ہی ایک نیا پاکستان بنانے کی کوشش میں ہے۔
دراصل، ایسے بل لوگوں کو ذات اور مذہب کی بنیاد پر باٹنے کا کام کرتے ہیں۔ کشمیر اور آسام جیسی ریاستوں میں جمہوریت کی آوازوں کو دبانے کی کوشش کرتے ہے۔ نقلی ہندوتوا اورمصنوعی راشٹر واد سے خیالی مسئلہ پیدا کر کے یہ اصل مدعوں سے ہمارا دھیان بھٹکاتے ہیں ۔اب یہ ہمیں طے کرنا ہے کہ ہم خاموش رہیں، برداشت کریں یا پھر مخالفت کریں، وطن پرست بنیں۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر