راہل کا دعویٰ اس آسان اور اکلوتی حقیقت پر ٹکا ہوا ہے کہ وہ سونیا گاندھی کے بیٹے ہیں اور ان کے والد بھی ان کی دادی اور ان کے پرنانا کی طرح ہندوستان کے وزیر اعظم تھے۔
13 دسمبر کو حکمراں بی جے پی کے ممبروں نے پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں کی کارروائی کو مسدود کیا۔ ان کی مانگ تھی کہ راہل گاندھی ایک دن پہلے جھارکھنڈ میں کئے گئے اپنے (عادتاً کی جانے والی ناسمجھی) تبصروں کے لئے معافی مانگیں۔امید کے مطابق کانگریسی ممبروں نے اپنے من موجی راج کمار کا بچاؤ کرنے کو اپنا فرض مانا۔ اس طرح سے حکمراں ممبروں کا دن اچھا گزرا۔ کانگریس کے چہرے اور رہنما کے طور پر راہل گاندھی سنگھ پریوار کو کافی پسند آتے ہیں۔
ایک دن بعد سنیچر 14 دسمبر کو اقتصادی مورچے پر مودی حکومت کی ناکامی کو اجاگر کرنے کے لئے منعقد کی گئی ایک ریلی میں گاندھی فیملی کے یہ چشم وچراغ پھر سے منچ پر تھے۔ اور ایک بار پھر وہ بی جے پی کی طرف سے اپنے پالے میں گول کرنے سے نہیں چوکے۔وی ڈی ساورکر کو لےکر کسی کا کیسا بھی نظریہ ہو سکتا ہے، لیکن انہوں نے بیوقوفانہ اور غیر مہذب طریقے سے خود کو ان کی قطار میں رکھنے کی کوشش کی۔
لیکن کانگریس کے ‘ کارکن ‘ ہی نہیں کانگریس کے لیڈران بھی ان کی اس جارحیت پر فدا ہیں۔آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی مانیں، تو ان کی یہ جارحیت سیکولرازم کی حفاظت کرنے کے سوال پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کے ان کے عزم کا ثبوت ہے-کوئی ان سے پوچھے کہ ان سے یہ ثبوت بھلا مانگ کون رہا ہے؟
ہمیں اس ٹریجڈی کو قبول کرنا ہوگا؛کانگریس کے صدر کے طور پر راہل گاندھی کی واپسی ہی بس ایک مدعا ایسا ہے، جس پر سونیا گاندھی اور بی جے پی قیادت آپس میں راضی ہو سکتے ہیں۔زیادہ وقت نہیں گزرا ہے جب ان کی قیادت میں کانگریس کی لگاتار دوسری بار توہین آمیز شکست کے بعد وہ تنککر کانگریس صدر کی ذمہ داری سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔
انہوں نے کانگریس کو ‘فیملی’کے باہر سے کوئی دوسرا رہنما چننے کا چیلنج دیا تھا۔ اس کے بعد پارٹی کی باگ ڈور پھر سے ان کی والدہ کو سونپ دیا گیا تھا۔ اور اب اس بیٹے کی دوبارہ واپسی یقینی بنانے کے لئے پردے کے پیچھے زورآزمائی کی جا رہی ہیں۔راہل کا دعویٰ اس آسان اور اکلوتی حقیقت پر ٹکا ہوا ہے کہ وہ سونیا گاندھی کے بیٹے ہیں اور ان کے والد بھی ان کی دادی اور ان کے پرنانا کی طرح ہندوستان کے وزیر اعظم تھے۔
حق کا یہ دعویٰ وقت اور زمانے کے رفتار سے میل نہیں کھاتا اور بدلے ہوئے ہندوستان میں اس کا کوئی لین دار نہیں ہے۔ گاندھی فیملی جس کرشمہ کا دکھاوا اور دعویٰ کرتی رہی ہے، اس کا رنگ اتر چکا ہے۔سرخیوں میں رہنے والی 20 سالوں کی سیاسی زندگی طلسماتی چمک کو نچوڑنے کے لئے کافی ہے۔ ‘ کانگریس کو ان کے نام پر ووٹ ملتے ہیں’اس فریب کو کافی وقت ہوا خود عوام نے ہی تار تارکر دیا ہے۔
ایک اور فرضی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اگر کانگریس کی قیادت نہرو-گاندھی فیملی کے علاوہ اور کسی کو دی جائے، تو کانگریس بکھر جائےگی۔ لیکن حقیقت کچھ اور ہی کہانی کہتی ہے۔آندھر پردیش/تلنگانہ کی تقریباً پوری قیادت اس وقت ایک ساتھ پارٹی سے نکل گئی جب سونیا گاندھی حکمراں یو پی اے کی قیادت کر رہی تھیں۔
پچھلے چھ سالوں سے ملک بھر میں-اور نالکل حال میں مہاراشٹر اور ہریانہ میں-کئی سینئر کانگریسی رہنماؤں نے پارٹی چھوڑی ہے۔ نوجوت سنگھ سدھو اور ہاردک پٹیل جیسے چند کو چھوڑ دیں، تو نئے لوگوں کو متوجہ کرنے میں راہل کی کانگریس ناکام رہی ہے۔
اور ہم نے پارٹی کے ذریعے ہریانہ کے نئے ریاستی صدر چنے جانے کے بعد ‘راہل کے سپہ سالار’اشوک تنور کے ذریعے آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے باہر مظاہرہ کرنے کا غیرمہذب منظر بھی دیکھا ہے۔بکھراؤ کی دلیل کی بے وقعتی کو ظاہر کرنے کے لئے یہ مثال کافی ہے۔ لیکن پھر بھی کانگریس نے خود کو ایک پھندے میں پھنسا لیا ہے، جس کو مؤرخ ایان بروما ‘سامراجیت کے بعد کشمکش ‘ کہتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں،’بیسویں صدی کے بیچ میں سامراجی طاقتیں یہ دلیل دیا کرتی تھیں کہ وہ نوآبادیات کو نہیں چھوڑ سکتی ہیں کیونکہ ان کی نوآبادیوں کی رعایا خود پر حکومت کر پانے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ‘پچھلی دو دہائیوں میں کانگریس کی کھوکھلی تنظیمی صلاحیت اتنی گہرائی تک پہنچ چکی ہے کہ گاندھی فیملی سے باہر جاکر غور کرنے کی اس کی اجتماعی صلاحیت ختم ہو گئی ہے۔
ا س کے قلعہ کی رکھوالی آنند شرما، غلام نبی آزاد، پی چدمبرم، اے کے اینٹنی جیسے فیملی کے وفادار کر رہے ہیں۔ یہ سب گزرے ہوئے کل کے لوگ ہیں، جو اس فیملی کو کوئی چیلنج پیش نہیں کریںگے۔کسی کو پسند ہو یا نہ ہو، راہل گاندھی کی واپسی کے لئے اسٹیج تیار کیا جا چکا ہے۔ کئی لوگوں کو شک ہے کہ 14 تاریخ کی ریلی اصل میں راہل گاندھی کی ضرورت کو ظاہر کرنے کے لئے منعقد کی گئی تھی۔
سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان کی واپسی ان کی ناکامی اور غلط شرطوں پر ہو رہی ہے، جس کا مطلب ہے کہ پارٹی کے اندر کسی کو بھی ان کے طورطریقوں اور ان کی اخلاقیات پر سوال اٹھانے کی اجازت نہیں ہے۔کسی کے پاس یہ پوچھنے کی ہمت نہیں ہے کہ اس عمر میں، جس میں ان کو جوان تو نہیں کہا جا سکتا، ان کے پاس اگلے چار سالوں تک لڑائی میں ٹکے رہنے کی طاقت اور لگن ہے یا نہیں۔
کسی کے پاس یہ صلاح دینے کی جرأت نہیں ہے کہ قیادت کو ادارہ جاتی اصولوں اور عمل کی کسوٹی پر کسا جانا چاہیے۔نریندر مودی نے اکثر کانگریس پر ماں-بیٹا کی پارٹی میں سمٹ جانے کا الزام لگایا ہے۔ اب اس کی ترقی ماں-بیٹا-بیٹی پارٹی کے طور پر ہو گئی ہے اور محترم رابرٹ واڈرا بھی سیاست میں شامل ہونے کی عوام کی بھاری مانگ کو مان لینے کی دھمکی دے رہے ہیں۔
قیادت کا یہ خاکہ سیاست پر اپنی طرح سے اثر+ ڈالتا ہے۔
کانگریس کی قیادت گاندھی فیملی کے پاس ہونے اور اپنے ان کے ذریعے خاندان کے نام پر خصوصی اختیارات کا دعویٰ کرنے سے مودی اور بی جے پی کے دوسرے رہنما ان زخموں اور ناانصافیوں کو کریدنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، جو کبھی غیر–کانگریس کے ازم کو بڑھاوا دینے کا کام کرتے تھے۔
جبکہ اس وقت کی ضرورت بی جے پی-مخالف جذبہ کی تعمیر کی ہے، جس سے این ڈی اے کا حصہ بی جے پی کے ساتھ اپنے تعلقات کا تجزیہ کے لئے مجبور ہوںگے۔اس لئے آزاد خيالوں کے سامنے سب سے دردناک کشمکش یہ ہے کہ ٹھیک اس وقت جب جمہوریت کو قائم آئینی قدروں اور اصولوں کی حفاظت کرنے کے لئے نئے تصور کو منظم کرنے اور نئی توانائی کو اپنی طرف کرنے کی ضرورت ہے، جمہوریہندوستان قیادت کو لےکر کانگریس پارٹی کے پرانے، تھکے ہوئے اور داغدار پسند کا غلام بنا ہوا ہے۔
پارٹی کے لوگوں اور وسائل پر گاندھی فیملی کی مضبوط گرفت کو دیکھتے ہوئے راہل کی دوبارہ تاج پوشی کے خلاف پارٹی کے اندر سے کوئی آواز اٹھنے کی امید نہیں کی جا سکتی ہے۔کیا کانگریس کے باہر کی آوازیں اس میں مداخلت کر سکتے ہیں؟
حال کے سالوں میں بڑی تعداد میں آزادخیالوں اور جمہوریآوازوں نے مودی حکومت کے ذریعے اداروں پر حملے کے خلاف مظاہرہ کرنے کے اپنے بنیادی حقوق کو پوری طاقت کے ساتھ ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے پوری طاقت اور جرأت کے ساتھ ‘ نیا ہندوستان ‘کے اخلاقی دکھاوے کو چیلنج دیا ہے۔
آخر کیوں یہی لوگ اور گروپ ایک جمہوریپارٹی میں کانگریس کی تبدیلی کی مانگ کرنے کے لئے متحد نہیں ہو سکتے ہیں؟سیاسی پارٹیاں عوامی ادارہ ہوتے ہیں۔ چاہے جو کچھ بھی ہو، ایک سچائی یہ بھی ہے کہ جمہوریطاقتوں اور جماعتوں کے کسی نئے اتحاد کے مرکز میں ایک طاقتور کانگریس کا ہونا ضروری ہے۔
اس لئے کانگریس کے تنظیمی معاملوں میں جمہوریہندوستان کی دلچسپی جائز ہے اور اس میں اس کا بھی کافی کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔لیکن حیرت انگیزطریقےسے اعتدال پسند دانشور طبقہ اپنے اثر کا استعمال کرنے اور کانگریس کی قیادت میں ردو بدل کرنے کو لےکر مشورہ دینے کو لےکر عدم خواہاں ہے۔
یہ خاموشی ٹوٹنی ہی چاہیے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر