گزشتہ اگست میں مرکزی حکومت کے جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹانے اور یونین ٹریٹری بنا کر دو حصوں میں باٹنے کے فیصلے کے پہلے سے 3 وزیراعلیٰ سمیت کئی مقامی رہنما حراست میں ہیں۔
نئی دہلی: وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا ہے کہ حراست میں لیے گئے جموں و کشمیر کے تین سابق وزیراعلی ٰکی رہائی پر فیصلہ مقامی انتظامیہ کرے گا اور ان کی حکومت میں کسی نے بھی ان رہنماؤں کو ‘ملک مخالف’ نہیں کہا ہے۔وزیر داخلہ نےجمعرات کی رات ایک نیوز چینل کی طرف سے منعقد پروگرام کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھڑکاؤ بیان دینے کی وجہ سے فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو ‘کچھ وقت ’ کے لیے حراست میں رکھنا پڑا۔
شاہ نے کہا، ‘مہربانی کر کے ان کے بیانوں کو دیکھیں جیسے اگر آرٹیکل 370 کو چھوا بھی گیا تو پوراملک جل جائے گا… انہیں سارے بیانوں کو دیکھتے ہوئے کچھ وقت کے لیے ان کو حراست میں رکھے جانے کا ایک پیشےور فیصلہ لیا گیا۔’معلوم ہو کہ تین سابق وزیراعلیٰ سمیت جموں وکشمیر میں کئی رہنماؤں کو پانچ اگست کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔ اسی دن مرکز نے آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتماموں کو رد کر ریاست کو دو یونین ٹریٹری جموں وکشمیر اور لداخ – میں باٹنے کا اعلان کیا تھا۔
فاروق عبداللہ پر پی ایس اے لگایا گیا ہے اور انہیں سرینگر میں گپکر روڈ واقع ان کی رہائش گاہ تک ہی محدود کر دیا گیا ہے اور ان کے گھر کو ہی جیل قرار دے دیا گیا ہے۔ وہیں، ان کے بیٹے عمر عبداللہ کو ہری نواس میں حراست میں رکھا گیا ہے۔پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کو شروع میں چشماشاہی ہٹ میں رکھا گیا تھا لیکن بعد میں انہیں سرکاری رہائش گاہ بھیج دیا گیا۔ وزیرداخلہ سے سوال پوچھا گیا تھا کہ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور مفتی کی پی ڈی پی کبھی بی جے پی کی معاون تھی، لیکن اب ان کے رہنماؤں کو ‘ملک مخالف ’ کہا جا رہا ہے۔
اس پر انہوں نے واضح کیا کہ نہ تو انہوں نے اور نہ ہی سرکار میں کسی نے ان لوگوں کو ایسا کہا ہے۔ انہوں نے آگے کہا، ‘جہاں تک ان کی رہائی کے فیصلے کا سوال ہے تو اس پر مقامی انتظامیہ فیصلہ لے گا، میں نہیں۔’انہوں نے کہا کہ جب بھی مناسب لگےگا انتظامیہ ان کو رہا کر دےگا۔ شاہ نے کہا کہ کشمیر گھاٹی میں حالات اب قابو میں ہیں اور روزمرہ کے کام معمول کے مطابق چل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘آج کشمیر میں ایک انچ جگہ بھی کرفیو میں نہیں ہے۔’
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں