خبریں

جے این یو تشدد: یہ اتنا برا ہے کہ مرکزی وزیر بھی مجبوروں کی طرح ٹوئٹ کر رہے ہیں؛ اویسی

مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ  ادھو ٹھاکرے نے نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں  ہوئےتشدد کو لےکر کہا، مجھے 26/11 کے ممبئی دہشت گردانہ  حملے کی یاد آ گئی…نقاب پوش حملہ آور کون تھے، اس کی تفتیش ہونی چاہیے۔

A car with its windscreen smashed inside JNU campus on Sunday night. Photo: Jahnavi Sen/The Wire

A car with its windscreen smashed inside JNU campus on Sunday night. Photo: Jahnavi Sen/The Wire

نئی دہلی: اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اسدالدین اویسی نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں ہوئے تشدد کے بعد وہاں کے طلبہ و طالبات  کے ساتھ سوموار کو اپنے اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے  کہا کہ ‘وحشیانہ حملہ’ طلبا کو سزا دینے کے لیے ہے کیونکہ انہوں نے ‘اٹھ کھڑے ہونے کی جراٴت’ کی۔

حید رآبا دسے رکن پارلیامان  اویسی نے ٹوئٹ کیا،‘یہ اتنا برا ہے کہ مرکزی وزیر  بھی مجبور وں  کی طرح ٹوئٹ کر رہے ہیں۔ مودی سرکار کو جواب دینا چاہیے کہ پولیس غنڈوں کی طرفداری کیوں کررہی ہے۔’

ان کی پارٹی اے آئی ایم آئی ایم نے بھی ٹوئٹ کیا،‘‘اے آئی ایم آئی ایم جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ  کے ساتھ کھڑا ہے۔طلبہ و طالبات کی آواز سے کون ڈرا ہو محسوس کر رہا ہے؟

وہیں مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ  ادھو ٹھاکرے نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں  ہوئےتشدد کو لےکر کہا، مجھے 26/11 کے ممبئی دہشت گردانہ  حملے کی یاد آ گئی…نقاب پوش حملہ آور کون تھے، اس کی تفتیش ہونی چاہیے…انہوں نے کہا،ملک بھر کے طلبا میں ڈر کا ماحول ہے… ہم سبھی کو ایک ساتھ آکر ان میں(طلبا میں) خوداعتمادی کو بھرنا ہوگا…اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ جے این یو میں حملہ کرنے والے نقاب پوش حملہ آور بزدل  ہیں، ان کی پہچان کاانکشاف  ہونا چاہیے۔ ملک  میں طلبا غیر خود محفوظ  محسوس کر رہے ہیں۔

ادھر، کانگریس صدرسونیا گاندھی نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ہوئے تشدد کی مذمت  کرتے ہوئے سوموار کو نریندر مودی سرکار کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہاکہ ، اس پورے معاملے کی آزادانہ جوڈیشل  جانچ ہونی چاہیے۔

انہوں نے اپنے  بیان میں کہا، ‘ہندوستان  کے نوجوانوں  اور طلبا کی آواز ہر دن دبائی جا رہی ہے۔ ہندوستان کے نوجوانوں  پروحشیانہ اور غیر متوقع ڈھنگ سے تشدد کیا گیا اور ایسا کرنے والے غنڈوں کو مودی سرکار کی جانب  سے اکسایا گیا ہے۔ یہ تشدد قابل مذمت اور ناقابل قبول  ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘پورے ہندوستان میں تعلیمی اداروں  اور کالجوں پر بی جے پی  سرکار سے مددپانے والےعناصر اورپولیس روزانہ حملے کر رہی ہے۔ ہم اس کی مذمت  کرتے ہیں اور آزادانہ  جانچ کی مانگ کرتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی سونیا نے کہا، ‘جے این یو میں طلبا اور اساتذہ  پر حملے اس بات کاثبوت  ہیں کہ یہ سرکار مخالفت کی  ہر آوازکو دبانے کے لیے کسی بھی حد تک جائےگی۔’ انہوں نے کہا کہ کانگریس ملک  کے نوجوانوں  اور طلبا کے ساتھ کھڑی ہے۔

اس کے علاوہ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے کہا، ‘دہلی پولیس اروند کیجریوال کے ماتحت  کام نہیں کرتی ہے۔ وہاں کی پولیس مرکزی  سرکار کے کے ماتحت کام کرتی ہے۔ ایک طرف وہ لوگ بی جے پی کے غنڈوں کو بھیج رہے ہیں اور دوسری طرف پولیس کو کام نہیں کرنے دے رہے ہیں۔ پولیس اس میں کیا کر سکتی ہے جب انہیں اوپر سے حکم  دیا جا رہا ہو۔ یہ ایک فاشسٹ سرجیکل اسٹرائیک ہے۔’

جے این یو میں تشدد معاملے میں وائرل ہو رہے ویڈیو کو دیکھنے کے بعد انہوں نے کہا، ‘یہ بہت پریشان کن  ہیں۔ یہ پہلے سے طے شدہ جمہوریت پر حملہ ہے۔ جو کوئی ان کے خلاف بولےگا اس کو پاکستانی قرار  دیا جائےگا اورملک کا دشمن قرار دے دیا جائےگا۔ ہم نے اس سے پہلے ملک  میں اس طرح کے حالات نہیں دیکھے ہیں۔’

دریں اثنا جے این یو پر ہوئے وحشیانہ حملے کی مذمت ٹوئنکل کھنہ نے ٹوئٹ کیا،ہندوستان ، جہاں گایوں کو طلبا سے زیادہ تحفظ  حاصل  ہے۔ یہ وہ ملک  ہے جس نے ڈر میں جینے سے انکار کر دیا ہے۔ آپ تشدد کرکے لوگوں کو دبا نہیں سکتے… زیادہ احتجاج  ہوگا، مظاہرے زیادہ ہوں گے، سڑکوں پر زیادہ لوگ اتریں گے۔

 انڈسٹری سے رتیش دیش مکھ نے ٹوئٹ کیا، آپ کو اپنا چہرہ ڈھکنے کی ضرورت کیوں پڑ گئی؟ اپنے ٹوئٹ کے ذریعے رتیش دیش مکھ نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں گھسے نقاب پوشوں  کو تنقید کا  نشانہ بنایا۔

انہوں نے لکھا،آپ کو اپنا چہرہ ڈھکنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ کیونکہ آپ جانتے تھے کہ آپ کچھ غلط، غیرقانونی  اورسزا کے لائق کام کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی اعزاز کی بات نہیں ہے۔ جے این یو میں نقاب پوش غنڈوں کے ذریعےطلبا اوراساتذہ پر وحشیانہ  حملے کے مناظر کافی بھیانک ہیں۔ ایسےتشدد کو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔”

اس معاملے پر سورا بھاسکر، سیانی گپتا، راج کمار راؤ، ذیشان ایوب، انوبھو سنہا اور انوراگ کشیپ جیسے کئی فلمی ہستیوں  نے ٹوئٹ کرکے  ردعمل کا اظہا ر کیا ہے۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)