احمدآباد کے ایک پرائیویٹ اسکول کے ذریعے 5ویں سے 10 ویں کلاس کے طلبا سے وزیراعظم کو شہریت ترمیم قانون پر مبارک باد اور حمایت دینے کے لیے پوسٹ کارڈ لکھنے کو کہا گیا تھا۔ گارجین کے اس کی مخالفت کرنے کے بعد اسکول انتظامیہ نے معافی مانگتے ہوئے بچوں کے ذریعے لکھے پوسٹ کارڈ واپس کر دیے۔
نئی دہلی: ملک بھر میں ہو رہے شہریت ترمیم قانون (سی اے اے) کی مخالفت کے بیچ گجرات کے ایک اسکول کے ذریعے بچوں سے اس قانون کی حمایت میں وزیراعظم کے نام پوسٹ کارڈ لکھوائے جانے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، احمدآباد کے کانکریا کے ایک پرائیویٹ اسکول کے ذریعے 5ویں سے 10 ویں کلاس کے طلبا سے وزیراعظم کو شہریت ترمیم قانون پر مبارک باد اور حمایت دینے کے لیے پوسٹ کارڈ لکھنے کو کہا گیا تھا۔
حالانکہ بدھ کو گارجین کی مخالفت کے بعد اسکول نے معافی مانگی اور کہا کہ اس بارے میں ‘غلط فہمی’ ہوئی ہے۔ پھر یہ پوسٹ کارڈ گارجین کو واپس کر دیے، جنہوں نے انہیں پھاڑ دیا۔لٹل سٹار نام کا یہ اسکول صرف لڑکیوں کے لیے ہے، جس میں نرسری سے لے کر کلاس 10 تک کے تقریباً 1200 اسٹوڈنٹس پڑھتے ہیں۔
کچھ گارجین نے بتایا کہ منگل کو یہاں کلاس میں اساتذہ کے ذریعے بلیک بورڈ پر وزیراعظم کو خطاب کرتے ہوئے ایک پیغام لکھا گیا اور پھر بچوں سے اس کو پوسٹ کارڈ پر لکھنے کو کہا گیا۔ پی ایم او کا پتہ لکھے ان پوسٹ کارڈ پر بچوں سے ان کے گھر کا پتہ لکھواکر جمع کر لیا گیا۔ انگریزی میں لکھے گئے اس پیغام میں کہا گیا تھا ‘مبارک ہو۔ میں، ہمدوستان کے شہریت ترمیم قانون پر وزیراعظم نریندر مودی کو مبارک باد دیتی ہوں۔ میں اور میری فیملی اس قانون کی حمایت کرتے ہیں۔’
دسویں کلاس کی طالبات، جن کے ابھی پری بورڈ امتحان چل رہے ہیں، ان کو اس پیغام کی فوٹوکاپی دی گئی۔ ایک گارجین نے بتایا، ‘میری بیٹی چھٹی کلاس میں پڑھتی ہے۔ مجھے منگل شام کو پتہ چلا کہ کلاس میں ٹیچر نے سب سے مودی کو سی اے اے کی حمایت میں مبارک باد کا پیغام لکھوایا ہے۔ اس کو اس کا حصہ بننے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے جو ہمیں منظور نہیں ہے۔’
ایک دوسرے گارجین نے کہا، ‘اس وقت دسویں کلاس کے بچوں کے امتحان چل رہے ہیں۔ انہیں بھی پوسٹ کارڈ لکھنے کو کہا گیا۔ جب انہوں نے اس کی مخالفت کی، تب ان سے کہا گیا کہ جس نے یہ پوسٹ کارڈ جمع نہیں کیا، اس کو انٹرنل اگزام میں نمبر نہیں ملیں گے۔ ان کے گھر کا پتہ لکھوانے کا کیا مطلب ہے، وہ بھی ان کے والدین کی اجازت کے بغیر!’
اس کے بعد بدھ کو کئی گارجین اسکول کے ٹرسٹی اور مالک کے آفس میں پہنچے اور اس بارے میں اپنا احتجاج درج کرایا۔ اس پر اسکول انتظامیہ نے اس کو ‘غلط فہمی’ بتاتے ہوئے معافی مانگی اور گارجین کو ان کے بچوں کے ذریعے لکھے پوسٹ کارڈ لوٹا دیے۔گارجین نے بھی اس پورے معاملے پر اپنا احتجاج ظاہر کرتے ہوئے اسے وہیں پھاڑ کر پھینک دیا۔ جب اس بارے میں اسکول انتظامیہ سے سوال کیا گیا تب انہوں نے کسی پارٹی کے دباؤ میں آکر ایسا کرنے سے انکار کیا۔
اسکول کے ٹرسٹی اور مالک جنیش پرسرام نے کہا، ‘یہ مسئلہ حل ہو چکا ہے۔ میری اجازت کے بغیر منگل کچھ اساتذہ کے ذریعے کلاس میں اس طرح کی سرگرمی کرواکر ان کے عہدے کا غلط استعمال کیا گیا۔ ہم نے وہ پوسٹ کارڈ گارجین کو واپس کر دیے تھے اور انہوں نے انہیں پھاڑ بھی دیا ہے۔’
بتا دیں کہ پچھلے ہفتے خبر آئی تھی کہ بی جے پی نے شہریت ترمیم قانون کی حمایت کے لیے شروع کی گئی مہم میں اسکولی طلبا نے بھی حصہ لیا تھا۔ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو جنوری کو کم سے کم 15 اسکولوں کے طلبا نے پارٹی کے سی اے اے کو لےکر شروع کی گئی بیداری کی مہم میں حصہ لیا تھا۔ ان طلبا نے بھی وزیراعظم کے نام پوسٹ کارڈ لکھے تھے۔ ذرائع کے مطابق، بی جے پی کارکنوں کے ذریعے اسکولوں میں پوسٹ کارڈ بٹوائے گئے تھے۔
Categories: خبریں