مرکزی وزیر جی کشن ریڈی نے لوک سبھا میں بتایا کہ لو جہاد لفظ کی تعریف موجودہ قوانین کے تحت نہیں کی گئی ہے۔ آئین کا آرٹیکل25 کسی بھی مذہب کو قبول کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کی آزادی دیتا ہے۔
نئی دہلی: مرکزی حکومت نے منگل کو کہا کہ ‘لو جہاد’ کی تعریف موجودہ قوانین کے تحت نہیں کی گئی ہے اور اس سے جڑا کوئی معاملہ سینٹرل ایجنسیوں کی جانکاری میں نہیں آیا ہے۔مرکزی وزیر جی کشن ریڈی نے لوک سبھا میں کانگریس رہنما بینی بیہان کے ایک سوال کےتحریری جواب میں یہ جانکاری دی۔ بیہان نے پوچھا تھا کہ کیا سینٹرل ایجنسیوں میں سے کسی نے پچھلے دو سالوں کے دوران جنوبی ریاست سے لو جہاد کا کوئی معاملہ درج کیا ہے؟
ریڈی نے کہا کہ ، آئین کاآرٹیکل25 کسی بھی مذہب کو قبول کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کی آزادی دیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ کیرل ہائی کورٹ سمیت کئی عدالتوں نے اس خیال کو صحیح ٹھہرایا ہے۔ریڈی نے کہاکہ ، ‘لو جہاد’ لفظ کی موجودہ قوانین کے تحت تعریف نہیں کی گئی ہے۔ لو جہاد کا کوئی معاملہ سینٹرل ایجنسیوں کی جانکاری میں نہیں آیا ہے۔’ انہوں نے کہا کہ این آئی اے نے کیرل میں الگ الگ مذاہب کے جوڑوں کے شادیوں کے دو معاملوں کی جانچ کی ہے۔
لو جہادشدت پسند ہندو گروپوں کے ذریعے پھیلایا گیا لفظ ہے، جس کے مطابق وہ مانتے ہیں کہ یہ مسلمان مردوں کی ہندو عورتوں کے مذہب بدلنےاور شادی میں پھنسانے کی ایک منظم سازش ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ان مبینہ مقاصد میں ہندوستان کی مسلم آبادی کی توسیع اور اسلامک اسٹیٹ کی حمایت شامل ہے۔بتا دیں کہ، کیرل کے کنور ضلع کی ہادیہ نے 16 مئی، 2017 کو ایک مسلم نوجوان کے ساتھ اپنا گھر چھوڑ دیا تھا۔ اس کے والدین کی شکایت پر ایک مہینے بعد ہریانہ کے سونی پت ضلع میں پولیس نے ان کا پتہ لگایا اور انہیں حراست میں لیا تھا۔
کہا گیا کہ یہ معاملہ اس لڑکی کے والدین کے ذریعے‘لو جہاد’کے طورپر پیش کیا گیا تھا، جبکہ وہ دونوں پیار میں تھے اور بعد میں دونوں نے شادی کر لی اور دوسرے فریق کے ذریعے اس کو ‘گھر واپسی’ کا نام دیا گیا۔اس معاملے میں شنوائی کرتے ہوئے کیرل ہائی کورٹ نے بین مذاہب شادی کو ‘لو جہاد’ کے طورپردیکھنے کے بڑھتے رجحان کو خارج کر دیا تھا۔ جسٹس وی چٹمبریش اور جسٹس ستیش ننان کی ایک بنچ نے ‘ہیبیس کورپس’کی عرضی پر غور کرتے ہوئے دو مذاہب کے بیچ شادی کو جائز بتایا تھا۔
عدالت نے یہ بھی کہا تھا، ‘ہم اس صورتحال میں حالیہ رجحان کو دھیان میں رکھتے ہوئے فکرمند ہیں کہ بین مذاہب شادی کے ہر معاملے کو ‘لو جہاد’ یا ‘گھر واپسی’ کا نام کیوں دیا جاتا ہے، جبکہ یہ دیکھا گیا ہے کہ دونوں میں شادی سے پہلے بھی محبت کا معاملہ تھا۔’بنچ نے ‘لتا سنگھ بنام اتر پردیش سرکار’ 2004 معاملے میں سپریم کورٹ کی ہدایت کا حوالہ دیتے ہوئے بین کمیونٹی اور بین مذاہب شادی کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
شادی کو صحیح ٹھہراتے ہوئے بنچ نے یہ بھی کہا، ‘ہمیں احتیاط برتنی ہوگی کہ ہر بین مذاہب شادی کوفرقہ وارانہ رنگ نہیں دیا جا سکتا۔ ورنہ کیرل جیسی ریاست میں فرقی وارانہ ہم آہنگی بگڑ جائےگی۔’
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں