خبریں

عدم اتفاق کا حق جمہوریت کے لیے ضروری ہے: جسٹس دیپک گپتا

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیراہتمام منعقد ‘ جمہوریت اور عدم اتفاق ‘کے موضوع پر ایک لیکچر دیتے ہوئے جسٹس دیپک گپتا نے کہا کہ اگر یہ بھی مان لیا جائےکہ اقتدار میں رہنے والے 50 فیصد سے زیادہ رائےدہندگان کی نمائندگی کرتے ہیں تب کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ باقی کی 49 فیصد آبادی کا ملک چلانے میں کوئی رول  نہیں ہے؟

جسٹس دیپک گپتا(فوٹو : وکی پیڈیا)

جسٹس دیپک گپتا(فوٹو : وکی پیڈیا)

نئی دہلی: سپریم کورٹ کے جج جسٹس دیپک گپتا نے سوموار کو کہا کہ عدم اتفاق کا حق جمہوریت کے لئے ضروری ہے اور مجلس عاملہ، عدلیہ، نوکرشاہی اورمسلح افواج کی تنقید کو ‘ملک-مخالف ‘نہیں کہا جا سکتا ہے۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام منعقد ‘ جمہوریت اور عدم اتفاق ‘پر ایک لیکچر دیتے ہوئے جسٹس گپتا نے کہا کہ جب عدم اتفاق کی بات آتی ہےتب کسی کو پاک صاف نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدم اتفاق کا حق آئین کے ذریعے فراہم کردہ ‘ سب سےبڑا ‘ اور ‘ سب سے اہم حق ‘ ہے اور اس میں تنقید کا حق بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا،’ عدم اتفاق کے بغیر کوئی جمہوریت نہیں ہو سکتی۔ ‘جسٹس گپتا نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن(ایس سی بی اے)کے زیر اہتمام’ جمہوریت اور عدم اتفاق ‘کے موضوع پر منعقد ایک تقریر میں کہا کہ سبھی کو تنقید کے لئےکھلا ہونا چاہیے، اور عدلیہ تنقید سے اوپر نہیں ہے۔

انہوں نے کہا، ‘ خود احتسابی بھی ہونی چاہیے، جب ہم خود احتسابی کرتے ہیں، تو ہم پائیں‌گے کہ ہمارے ذریعے لئے گئے کئی فیصلوں کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ ‘جسٹس گپتا نے حالانکہ کہا کہ عدم اطمینان بخش خیالات کو ‘پرامن طریقے سے ‘اظہار کیا جانا چاہیے اور شہریوں کو جب لگے کہ حکومت کے ذریعے اٹھایاگیا قدم مناسب نہیں ہے تو ان کو یکجا ہونے اور مخالفت کرنے کا حق ہے۔ ان کی وجہ ہمیشہ صحیح نہیں ہو سکتی ہے، لیکن ساتھ ہی حکومت بھی صحیح نہیں ہو سکتی ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، جسٹس گپتا نے کہا کہ جب تک مخالفت پر امن ہوتی ہے، تب تک حکومت کو مظاہرہ کو دبانے کا کوئی حق نہیں ہے۔انہوں نے کہا،اگر منظور شدہ معیاری اصول کو کوئی چیلنج نہیں ہے،تو سماج مستحکم رہے‌گا۔’انہوں نے کہا، ‘ مجھے کئی موضوع دئے گئے تھے، لیکن ملک کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے میں نے جمہوریت اور عدم اطمینان کے موضوع پر بولنا پسند کیا۔عدم اتفاق کو نہ صرف برداشت کیا جانا چاہیے بلکہ حوصلہ افزائی بھی کی جانی چاہیے۔ ‘

انہوں نے کہا، ‘عدم اتفاق، عدم اطمینان اور مکالمہ ہی جمہوریت کوچلا سکتے ہیں۔ حکومت اور ملک دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ملک کی تنقید کئے بغیر آپ حکومت کے ناقد ہو سکتے ہیں۔’جسٹس گپتا نے یہ بھی کہا کہ جمہوریت میں اکثریت کی حکومت ہونے کے باوجود اکثریت کی حکومت کو منظور نہیں کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا، جب اقتدار میں رہنے والے دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کی خواہش کی نمائندگی کرتے ہیں تب وہ بڑی تعداد میں اکثریت رائےدہندگان کے ذریعےچنی گئی حکومت ہو سکتی ہیں، لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ لوگوں کی مکمل خواہش کی نمائندگی کرتے ہیں۔’

انہوں نے کہا، ‘اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ وہ 50 فیصد سے زیادہ رائےدہندگان کی نمائندگی کرتے ہیں تب کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ باقی کی 49 فیصدآبادی کا ملک چلانے میں کوئی رول نہیں ہے؟فروری 2017 میں عدالت عظمی کے جج بننے کے بعد، جسٹس گپتا نےماحولیات کے کئی اہم معاملوں کی صدارت کی ہے، جس میں قومی راجدھانی میں فضائی آلودگی پر روک  لگانے کا معاملہ بھی شامل ہے۔ وہ جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ(پاکسو)قانون کی مناسب کارروائی  کی مانگ کرنے والی بنچ کا بھی حصہ ہیں۔ وہ 6 مئی کوسبکدوش ہونے والے ہیں۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کےساتھ)