مرکزی وزارت داخلہ نے نہ صرف بوگس کی بنیاد پر شہریت ترمیم قانون سے جڑی فائلوں کو عام کرنے سے منع کیا بلکہ اطلاع دینے کے لئے آر ٹی آئی ایکٹ،2005 میں طے شدہ مدت کی بھی خلاف ورزی کی۔
نئی دہلی: امت شاہ کی قیادت والی مرکزی وزارت داخلہ متنازعہ شہریت ترمیم قانون (سی اے اے) سے جڑی فائلوں کو عام کرنے اور اس قانون پر اٹھ رہے سوالوں کا جواب دینے سے لگاتار انکار کر رہی ہے۔دی وائر کے ذریعے اس کو لےکر دائر کی گئی کئی آر ٹی آئی کی درخواستوں پر وزارت داخلہ نے بوگس کی بنیاد پر جواب دینے سے منع کر دیااور کچھ معاملوں میں اطلاع دینے کے لئے آر ٹی آئی ایکٹ، 2005 میں طے شدہ مدت کی بھی خلاف ورزی کی۔
مثال کے طور پر، 25 دسمبر 2019 کو دائر کی گئی آر ٹی آئی درخواست میں ہم نے شہریت ترمیم بل کو کابینہ سے پاس کرانے سے جڑی فائلوں کے بارے میں جانکاری مانگی تھی۔ خاص طورپر ہم نے ان تمام دستاویزوں، ریکارڈس، فائل نوٹنگس، خط وکتابت کی کاپی مانگی تھی جس کی بنیاد پر اس بل کو تیار کیا تھا۔حالانکہ وزارت داخلہ کے سی پی آئی اونے 29 فروری کو بھیجے اپنے جواب میں جانکاری دینے سے منع کر دیا۔ جوشی نے دلیل دی کہ اگر یہ جانکاری عام کی جاتی ہے تو اس سے غیر ملکی ریاستوں کے ساتھ ہندوستان کےتعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔
CAA RTI Reply Dheeraj Mishra by The Wire on Scribd
وزارت داخلہ نے اپنے جواب میں لکھا، یہ فائلیں غیر ملکی شہریوں کو شہریت دینے کی پالیسیوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ ایسی جانکاری کا انکشاف کرنے سے غیرملکی ریاستوں کے ساتھ تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔ اس لئے آر ٹی آئی ایکٹ، 2005 کی دفعہ 8 (1) (ا) کے تحت اس جانکاری کا انکشاف کرنے سے چھوٹ حاصل ہے۔ ‘دی وائر کے ذریعے ایک دیگر آر ٹی آئی دائر کرکے شہریت ترمیم بل کوکابینہ سے پاس کرانے سے جڑی تمام فائلوں کا جائزہ لینے کی مانگ پر بھی وزارت داخلہ نے یہی جواب دیا۔ ہاف پوسٹ انڈیا نے بھی رپورٹ کرکے بتایا ہے کہ انہوں نے آر ٹی آئی دائر کرکے یہ جانکاری مانگی تھی لیکن ان کو ہوبہو اسی طرح کے لفظوں میں جواب دیا گیا۔
آر ٹی آئی کارکن اور سابق سینٹرل انفارمیشن کمشنر شیلیش گاندھی کاکہنا ہے کہ پبلک انفارمیشن افسر کو تفصیل سے یہ ضرور بتایاجانا چاہیے کہ کس طرح ایسی جانکاری کاانکشاف کرنے سے غیر ممالک کے ساتھ رشتے خراب ہوںگے۔گاندھی نے کہا،’پبلک انفارمیشن افسر نے کوئی مناسب وجہ نہیں بتائی ہے کہ کس طرح سے یہ جانکاری کسی کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ دوسری طرف یہ واضح ہے کہ اگر عوام کو یہ جانکاری ملتی ہے کہ کس بنیاد پر کابینہ نے اس بل کو منظورکرنے کا فیصلہ لیا تھا، تو یہ ایک بہتر اور بامعنی جمہوریت کی تعمیر کرنے میں مدد کرےگی اور آخرکار عوام کی ضروریات پوری ہوںگی۔
اسی طرح سال 2019 میں سینٹرل انفارمیشن کمیشن نے اپنے ایک حکم میں محکمہ عملہ کے ذریعے اطلاع نہ دینے کے لئے دفعہ 8 کا ذکر کرنے کے فیصلےکو اس لئے خارج کر دیا تھا کیونکہ سی پی آئی او نے ایسا کرنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی تھی۔انفارمیشن کمشنر دیویہ پرکاش سنہا نے اپنے فیصلے میں لکھا، ‘آر ٹی آئی قانون کے تحت اطلاع دینے سے چھوٹ حاصل دفعات کا من مانے طریقےسے ذکر کرنا غلط رواج کو بڑھاوا دیتا ہے۔ ‘
اگر سی پی آئی او دفعہ 8 (1) (ا) کا سہارا لےکر جانکاری دینے سےمنع کرتا ہے تو اس کی ذمہ داری بنتی ہے وہ فائلوں کے اس حصے کو عام کریں جو کسی چھوٹکے دائرے میں نہیں آتا ہے۔ یہ کام فائل کے اس حصے کو ‘کالا کرکے ‘ کیا جاسکتا ہے جو چھوٹکے دائرے میں ہے۔جانے-مانے سابق سینٹرل انفارمیشن کمشنر اور موجودہ وقت میں بینیٹ یونیورسٹی کے ڈین ایم شری دھرآچاریہ لو کا کہنا ہے کہ پبلک انفارمیشن افسر کو ‘علیحدگی کا اصول ‘ کو اپنانا چاہیے تھا اور ایسی جانکاری دی جانی چاہیے تھی جوکہ دفعہ 8 (1) (a) کےتحت نہیں آتی ہے۔
RTI Application Kabir Agarwal by The Wire on Scribd
آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 10 کے مطابق اگر کسی فائل یا اطلاع کا کوئی حصہ چھوٹ حاصل دفعات کے زمرہ میں آتا ہے تو اتنے حصے کو ہٹاکر یا اس حصے کو ‘ کالاکرکے ‘ باقی کی ساری جانکاری امید وار کو دی جانی چاہیے۔اس کے علاوہ وزارت داخلہ کی یہ دلیل بھی سوالوں کے گھیرے میں ہے کہ ہندوستان غیر ملکی ریاستوں کے ساتھ رشتے خراب کرنا نہیں چاہےگا۔ وزیر داخلہ امت شاہ اور وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیامنٹ سے لےکر اپنی ریلیوں میں کئی باریہ کہا ہے کہ چونکہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں غیر-مسلموں کو کافی استحصال کا سامنا پڑ رہا ہے اس لئے شہریت ترمیم قانون کے تحت ان کو ہندوستان کی شہریت دی جائےگی۔
جنوری میں سی اے اے کا بچاؤ کرتے ہوئے مودی نے پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف مبینہ مظالم کے خلاف نہ بولنے کے لئے حزب مخالف جماعتوں کو نشانے پر لیاتھا۔ انہوں نے کہا، ‘ہر شہری کا ایک سوال ہے کہ لوگ پاکستان کے خلاف کیوں نہیں بولتے ہیں، بلکہ ریلی نکالتے ہیں؟ پاکستان کا قیام مذہبی بنیاد پر کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اقلیتوں جیسے کہ ہندو، سکھ، جین اور عیسائی کے خلاف استحصال میں اضافہ ہواہے۔لیکن کانگریس اور ان کے معاون پاکستان کے خلاف نہیں بولتے۔
نریندر مودی نے متنازعہ شہریت ترمیم کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کوصلاح دی اور اس میں بھی انہوں نے پاکستان کی تنقید کی۔ وزیر اعظم نے کہا، اگر آپ کو مظاہرہ کرنا ہے تو پاکستان میں پچھلے 70 سالوں میں ہوئی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھائیے۔ اب پاکستان کو عالمی سطح پر بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔امت شاہ نے بھی سی سی اے کے بارے میں کہا تھا کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں مذہب کی بنیاد پر ‘ کروڑوں لوگوں کو قتل کیاگیا ہے۔
یہ الزام لگاتے ہوئے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں ہندوؤں، سکھوں،جین اور بودھ کی تعداد میں گراوٹ آئی ہے، شاہ نے کہا، ‘ وہ کہاں گئے؟ وہ یا تومارے گئے، مذہب بدلا یا پناہ گزین کے طور پر ہندوستان آئے۔ یہ اندھے لوگ یہ نہیں دیکھ سکتے ہیں کہ کروڑوں لوگوں پر ظلم کیا گیا تھا۔
حال ہی میں حکومت ہند نے یہ بھی کہا کہ سی اے اے’ہندوستان کااندرونی معاملہ ‘ ہے اور ‘ کسی بھی غیر ملکی پارٹی کے پاس ہندوستان کی خودمختاریت سےمتعلق مدعوں پر کوئی قابو نہیں ہے۔ ‘ اقوام متحدہ کےانسانی حقوق کے سربراہ کے ذریعےشہریت ترمیم قانون پر سپریم کورٹ میں دائر کئے گئے درخواست پر ہندوستان کے وزارت خارجہ نے یہ جواب دیا تھا۔
اقوام متحدہ نے کئی مواقع پر کہا ہے کہ سی اے اے بنیادی طور پر امتیازی ہے اور یہ ہندوستان کے ذریعے عالمی قانون کے تحت کئے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
اس طرح ایک طرف حکومت ہند نے یہ کہہکر غیر ملکی مداخلت سے بچنے کی کوشش کی ہے کہ معاملہ اندرونی ہے، دوسری طرف غیر ملکی ریاستوں کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کا حوالہ دےکر بل سے متعلق دستاویزوں کو عام کرنے سے انکار کر دیا۔دی وائر کے ذریعے دائر کی گئی دو دیگر آر ٹی آئی درخواستوں پروزارت داخلہ نے جانکاری دینے کے لئے آر ٹی آئی ایکٹ میں طے کی گئی مدت کی خلاف ورزی کی ہے۔ ہم نے پوچھا تھا کہ مذہبی استحصال کی وجہ سے پاکستان، افغانستان اوربنگلہ دیش سے آئے لوگوں کی تعداد کتنی ہے۔
ایک دیگر سوال میں ہم نے پوچھا تھا کہ ان ممالک سے آئے کتنے لوگوں کو لمبی مدت والا ویزا (لانگ ٹرم ویزا) دیا گیا ہے۔ ان سوالوں کے ساتھ 23 دسمبر2019 کو آر ٹی آئی درخواست دائر کی گئی تھی۔ وزارت داخلہ نے تقریباً ڈیڑھ مہینے بعدچار فروری 2020 کو جواب دیا اور کہا کہ یہ معاملہ امیگریشن بیورو سے جڑا ہوا ہےاور اس کو آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 6 (3) کے تحت وہاں ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔
قانون کے مطابق اگر پبلک انفارمیشن افسر کو لگتا ہے کہ موضوع کسی دیگر محکمہ سے جڑا ہے تو پانچ دن کے اندر دفعہ 6 (3) کے تحت متعلقہ محکمہ کو آرٹی آئی ٹرانسفر کر دی جانی چاہیے۔ حالانکہ یہاں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ وزارت داخلہ نے اس کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔
دی وائر نے یہاں مذکورتمام معاملوں میں پہلی اپیل دائرکر دی ہے۔