جس طرح کورونا وائرس انسانی جسم میں داخل ہو جاتا ہے اور وہاں موجود بیماریوں کے اثرات کو تیز کر دیتا ہے ، ٹھیک اسی طرح اس نے مختلف ممالک اور معاشرےمیں رسائی حاصل کر کےان کی کمزوریوں کو بے نقاب کردیا ہے۔
کو رونا وائرس نے سرمایہ دارانہ نظام کی مشین کے انجن کو روک دیا ہے۔ لیکن یہ ایک عارضی صورتحال ہے۔ آج جب پوری نوع انسانی کچھ عرصے کے لیے اپنے اپنےگھروں میں قید ہے، تب زمین نے خود ہی اپنے زخموں پر مرہم رکھنے کی قوت کے اشارے دیے ہیں۔اور ادھر ہم جو بیمار اور کچھ نہ کر پانے کی سی حالت میں ہیں، اور کچھ کر سکیں یا نہ کرسکیں اس(قدرت)کو حیرانی سے سانس روک کر ایسا کرتے دیکھ سکتے ہیں۔
لیکن اس کوبھی کیسے ختم کر دیا جائے، اس پر زور وشور سے کام جاری ہے۔ مثلاً ہندوستان میں پچھلے کچھ دنوں میں ایک ٹائیگر ریزرو کےمحفوظ علاقے کے بڑے حصہ کو ایک عظیم الشان مذہبی انعقادکمبھ میلے کے لیے لگ بھگ تیار کیا جا چکا ہے۔ کمبھ میلہ جہاں کروڑوں کی تعدادمیں عقیدت مند شامل ہوتے ہیں۔
آسام میں ہاتھیوں کے لیےمحفوظ ایک جنگلی علاقے کو کوئلہ کی کان کنی کے لیے نشان زد کیا جا رہا ہے۔ اروناچل پردیش واقع ہمالیہ کے جنگلوں کی ہزاروں ایکڑ زمین کی نشاندہی ایک پن بجلی کے ڈیم کی تعمیر کی غرض سےآبی ذخیرے کے لیے کر دی گئی ہے۔اس بیچ، صدر ٹرمپ نے بھی پیچھے نہ رہتے ہوئے چاند پر کھدائی کی اجازت دینے کے انتظامی احکامات پر دستخط کر دیے ہیں۔
جس طرح کورونا وائرس انسانی جسم میں داخل ہو جاتا ہے اور وہاں موجود بیماریوں کے اثرات کو تیز کر دیتا ہے ، ٹھیک اسی طرح اس نے مختلف ممالک اور معاشرےمیں رسائی حاصل کر کےان کی کمزوریوں کو بے نقاب کردیا ہے۔اس نے ہماری معاشرت میں موجودناانصافی، فرقہ واریت، نسل پرستی، ذات پات اور ان سب سے زیادہ عدم مساوات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
اقتدر کے وہ سارے حصےجن کا کبھی غریبوں کے مسائل سے ان کی پریشانیوں سے کچھ لینا دینا نہیں رہا بلکہ جنہوں نے ان کے زخموں پر ہمیشہ نمک چھڑکنے کا کام کیا، اب ان کے دفاع میں لگے ہیں کہ غریبوں میں اگر بیماری پھیلی تو امیروں کے لیے یہ بڑا خطرہ ہوگا۔ابھی تک اس بیماری سے تحفظ کے لیے کوئی حفاظتی دیوار نہیں ہے، لیکن جلدی ہی کوئی نہ کوئی بن ہی جائےگی، جو بےشک کسی ویکسین کی شکل میں ہوگی۔
اور ہمیشہ کی طرح اس پر سب سے پہلا قبضہ انہی کا ہوگا جن کے ہاتھوں میں طاقت ہے۔ اور وہی کھیل ایک بار پھر شروع ہو جائےگا– جو جتنا امیر ہوگا اس کے زندہ رہنے کی گنجائش بھی اتنی زیادہ ہوگی۔میرے لیے یہ معمہ ہے کہ اقتدارکے یہ سارے حصے، جن کے لیے ترقی اور تہذیب کامفہوم ہمیشہ تباہ کن رہا ہے بھلا کیسے وائرس کی وجہ سے برپا تباہی کو روکنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔
انہدام کا خیال جوہری، کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کا انبار لگاتے وقت بھی ان کے ذہنوں میں رہا ہے۔ اس خیال کو وہ اس وقت بھی گلے لگاتے رہے ہیں جب وہ تمام ممالک پر معاشی پابندیاں عائد کرکےعوام تک زندگی بچانے والی دواؤں کی رسائی کو روکتے رہے ہیں۔
یہ خیال ان پر اس وقت بھی حاوی رہا ہے جب وہ لگاتار اس سیارے کوتباہ کرنے کا کام اتنی تیزی سے کرتے رہے ہیں کہ کووڈ 19 کی وجہ سے دنیا بھر میں کی جانے والی بربادی تو بچوں کا کھیل نظر آئےگی۔ (حالانکہ سچ یہ ہے کہ وہ بربادی پہلے ہی ہو چکی ہے، بس ٹیلی ویژن پر اس کو دکھایا نہیں گیا۔)
اب ہم جب لاک ڈاؤن میں بند ہیں تو ان کی شطرنجی چالیں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔آمرانہ حکومتوں کے لیے کو رونا وائرس کسی تحفے کی طرح آیا ہے۔وبا کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن ڈیجیٹل دور میں یہ پہلا موقع ہے۔ ہم قومی سطح کے آمروں کے مفادات کو بین الاقوامی سطح کے تباہی سے پیسے بنانے والوں اور ڈیٹا اکٹھا کرنے والوں کو ساتھ آتا دیکھ رہے ہیں۔
ہندوستان میں یہ کام اور بھی تیزی سے ہو رہا ہے۔ فیس بک نے ہندوستان کے سب سے بڑے فون نیٹ ورک والی کمپنی جیو سے ایک معاہدہ کیا ہے، جہاں یہ اس کے 40 کروڑ وہاٹس ایپ صارفین بیس کو شیئرکرےگا۔بل گیٹس بھی اعلان ہونےوالے پروٹوکال سے زیادہ سے زیادہ منافع کی امید میں وزیر اعظم مودی کی تعریفوں کے پل باندھے جا رہے ہیں۔
مودی کی سفارش پر مانیٹرنگ/ہیلتھ ایپ آروگیہ سیتو کو اب تک چھ کروڑ سے زیادہ لوگ ڈاؤن لوڈ کر چکے ہیں۔ سرکاری ملازمین کے لیے اس ایپ کو ڈاؤن لوڈ کرنا لازمی کر دیا گیا ہے۔اس کے ساتھ ہی سرکاری ملازمین کے لیے جولازمی کیا گیا ہے، وہ ہے پراسرار پی ایم کیئرس فنڈ جس کا کوئی عوامی آڈٹ نہیں ہو سکتا اس میں ایک دن کی تنخواہ دینا۔
اگر کو رونا سے پہلے ہم بنا سوچے سمجھے نگرانی(سرولانس)کی جانب بڑھ رہے تھے، تو اب خوف کی وجہ سے بھاگ کر اس سپرسرولانس کے شکنجے میں پہنچ رہے ہیں جہاں ہم سے اپنا سب کچھ ہماری پرائیویسی، ہماراوقار، ہماری آزادی سب دینے کو کہا جائے اور خود کےمنظم ہونے کی منظوری بھی۔
لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد بھی اگر ہم تیزی سے آگے نہیں بڑھے، تو یہ یقینی ہے کہ ہم ہمیشہ کے لیے قید ہو جائیں گے۔ہم اس انجن کو ہمیشہ کے لیے کیسے بند کریں؟ یہی ہمارا اگلا کام ہے۔
Categories: فکر و نظر