خبریں

ہائیڈروکسی کلوروکوئن: ڈبلیو ایچ او کی پابندی کے بعد بھی ہندوستان کو اس پر بھروسہ کیوں ہے؟

کورونا وائرس سے متاثرمریضوں پر ہائیڈروکسی کلوروکوئن دوا کے ٹیسٹ پر حال ہی میں ڈبلیو ایچ او نے عارضی طور پر روک لگا دی ہے۔ حالانکہ حکومت ہند کا کہنا ہے کہ اس کے استعمال کے بارے میں ملک میں خاطر خواہ تجربہ ہے، مختلف مطالعے اس کے استعمال کو سہی ٹھہراتے ہیں۔

(فوٹو: رائٹرس)

(فوٹو: رائٹرس)

ڈبلیو ایچ اوکے ذریعے کووڈ 19 سے متاثر مریضوں پر ہائیڈروکسی کلوروکوئن(ایچ سی کیو)کےٹیسٹ روکنے کےبعد ہندوستان نے دوہرایا ہے کہ انہیں بھروسہ ہے کہ یہ دوا کو رونا وائرس کے علاج میں مفید ہے۔انڈین ایکسپریس کے مطابق،حکومت ہند کا کہنا ہے کہ اس دوا کے استعمال کے بارے میں ملک میں خاطر خواہ تجربہ ہے، ساتھ ہی آبزرویشنل اور کیس کنٹرول کے مطالعے اس کے استعمال کو سہی ٹھہراتے ہیں۔

منگل کوآئی سی ایم آر کے ڈائریکٹر جنرل اور ہیلتھ ریسرچ ڈپارٹمنٹ کے سکریٹری ڈاکٹر بلرام بھارگو نے کہا تھا کہ ہندوستان میں کووڈ 19 کے علاج کے لیے ایزتھرومائسن کے ساتھ ایچ سی کیو کا استعمال جاری رہےگا اور وہ اس کا تجزیہ کریں گے۔ڈاکٹرونود پال نیتی آیوگ کے ممبر(صحت)اور سرکار کے میڈیکل ایمرجنسی مینجمنٹ پلان پر بنے امپاورڈ گروپ کے ممبر ہیں۔ان کا کہنا ہے، ‘ہم کئی سالوں سے کلوروکوئن کا استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ میرے اساتذہ کہا کرتے تھے کہ اگر بخار سے متاثر کوئی بچہ آئے تو اسے کلوروکوئن دے دو اور تین دن انتظار کرو۔ایچ سی کیو تو اس سے بھی زیادہ محفوظ ہے کیونکہ اس کاریگولراستعمال ریومیٹائٹ گٹھیا کے علاج میں کیا جاتا ہے۔’

انہوں نے آگے کہا، ‘اس کے استعمال کی حیاتیاتی صراحت(biological plausibility) ہے۔ اس  کوخلیہ  کا پی ایچ بڑھاکر  الکلائن بنانے کے لیے جانا جاتا ہے۔زنک کے ساتھ مل کر یہ خلیہ  میں وائرس پہنچنے سے روکتا ہے۔ مانا جا رہا ہے کہ یہ ایک نیا وائرس ہے، جس کی فطرت کے بارے میں ہم ابھی بھی سیکھ ہی رہے ہیں، لیکن یہ(ایچ سی کیو)دوسرے کو رونا وائرس پر مؤثر رہنے کے لیے جانا جاتا ہے۔ ہم نے اس دوائی کی فراہمی  اور حیاتیاتی صراحت کی وجہ سے یہ فیصلہ لیا ہے۔’

ڈاکٹر پال نے کہا کہ پچھلے ہفتے ایچ سی کیو کے استعمال کے بارے میں سبھی فرنٹ لائن اسٹاف(صحت خدمات سے الگ بھی)سے کی گئی تفصیلی سفارش سے پہلے سبھی شواہد کی پوری طرح سےجانچ کی گئی ہے۔انڈین ایکسپریس سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ‘ہندوستان کی اکادمک اور ریسرچ برادری کو اجتماعی طور پراس دوا پر یقین ہے۔ بادی النظرمیں اس دوا کے استعمال کے ساتھ مسئلہ تو ہے لیکن ہم جیسے جیسے آگے بڑھیں گے اس کے پروٹوکال کی توسیع کریں گے، اسے موڈیفائی کریں گے۔’

انہوں نے آگے کہا، ‘ایچ سی کیو کے غیر معمولی ایس ای جی اور دھڑکن بڑھ جانے جیسے کم از کم  اور قابل برداشت سائیڈ افیکٹس ہوتے ہیں۔ حالانکہ ہم جس مقصد کے لیے اس کی سفارش کر رہے ہیں، وہاں جوکھم کم اور فائدہ زیادہ ہے۔ڈاکٹر بھارگو بھی ڈاکٹڑ پال کی بات سے متفق ہیں۔

منگل کو ہوئی پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا، ‘یہ نیا وائرس ہے۔ ہمیں نہیں پتہ اس پر کون سی دوا کام کرےگی یا نہیں۔ علاج کے لیے کئی دواؤں کی  جانچ کی  جا رہی ہے۔ کلوروکوئن 100 سالوں سے استعمال کی جا رہی ہے۔ ایچ سی کیو تو اس سے زیادہ محفوظ ہے۔’

انہوں نے یہ بھی کہا، ‘اس کی حیاتیاتی صراحت دکھاتی ہے کہ یہ اینٹی وائرل دوائی ہے…ایک جرنل میں ڈیٹا بھی آیا تھا کہ اس نے اینٹی وائرل اثر دکھایا تھا۔ ہمیں بھی ٹیسٹ میں ایسا ہی دیکھنے کو ملا ہے۔ امریکی حکومت نے اس کو  استعمال کرنا بھی شروع کیا تھا، انہیں فاسٹ ٹریک اجازت ملی تھی۔ ٹیسٹ، بایو پلاسبلٹی، محفوظ ہونے اورفراہمی کی بنیاد پر ہم نے سوچا کہ یہ ایک مفید دوا کے طور پر کام کر سکتی ہے۔’

انہوں نے بتایا، ‘ہم نے کچھ وقت پہلے کڑی نگرانی میں اس کے تجرباتی استعمال کی سفارش کی تھی۔ ان چھ ہفتوں کے دوران ہمیں ہندوستان کا کچھ ڈیٹا ملا ہے جو بنیادی طور پر تجزیاتی مطالعہ  ہے ۔ایمس،آئی سی ایم آر اور دہلی کے تین سرکاری اسپتالوں میں کچھ کنٹرولڈٹیسٹ کے مطالعے ہوئے ہیں۔’

انڈین ایکسپریس سے بات چیت میں ڈاکٹر بھارگو نے بتایا، ‘کسی بھی دوائی، جس کے بارے میں ہم ‘فائدہ کر سکتی ہے’جیسی بات کہیں، اس کا رینڈم کنٹرولڈ ٹرائل کرنا مشکل ہے۔ ہم نے دونوں طرح کے مطالعے کا ڈیٹا دیکھ کر پایا کہ شاید یہ مفید ہو سکتی ہے۔’حالانکہ انہوں نے کہا کہ قئے آنے اور کبھی کبھی جی گھبرانے کے علاوہ اس کے کوئی بڑے سائیڈ افیکٹس نہیں ہیں۔

ڈاکٹربھارگو کا کہنا تھا، ‘ہم نے اس کے استعمال کے لیے جاری ایڈوائزری میں لکھا ہے کہ اس کا استعمال جاری رہنا چاہیے، کیونکہ کوئی نقصان نہیں ہے اور شاید فائدہ ہی ہو… دوسرا، ہمیں سائیڈ افیکٹ ملے اس لیے کہا گیا کہ اسے کھانے کے ساتھ لیا جائے۔ تیسری بات جو ہم نے کہی تھی وہ یہ کہ اس دوا کے استعمال کے وقت ہمیں ایک ایس ای جی کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک بار ایس ای جی دستیاب  ہو اور یہ محفوظ ہو تو آٹھ ہفتوں یا اس سے زیادہ کے لیے اسے میڈیکل پیشہ وروں  کے علاوہ فرنٹ لائن اسٹاف کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔’

اس بیچ ممبئی کے کئی نجی اسپتالوں نے کووڈ 19 کے مریضوں کے علاج میں ایچ سی کیو کا استعمال کرنا بند کر دیا ہے۔ ان اسپتالوں کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جن مریضوں کو ایزتھرومائسن کے ساتھ ایچ سی کیو کا مجموعی خوراک دیا گیا تھا، ان پر اس کا نامناسب اثر دیکھا گیا ہے۔حالانکہ ممبئی کے سرکاری اسپتالوں میں کم از کم آثار والے مریضوں کے علاج میں اس کا استعمال جاری ہے۔

ڈاکٹر جلیل پارکر جو امراض تنفس کے ماہر  ہیں اور لیلاوتی اسپتال میں کووڈ 19 مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے، ‘کچھ مریضوں کی دھڑکن کی رفتار پر ٹھیک اثر نہیں دیکھا گیا، اس لیے ہم نے تبدیلی کی کیونکہ یہ دوائی اثر نہیں کر رہی تھی۔’انڈین ایکسپریس سے بات چیت میں ڈاکٹرپارکر کہتے ہیں کہ انہوں نے ڈبلیو ایچ او کے ذریعے اس کے ٹیسٹ روکنے کے پہلے ہی اس کا استعمال بند کر دیا تھا اور اس کے بجائے ایورمیسٹن اور ڈاکسی سائکلن کا استعمال شروع کیا تھا۔

(فوٹو: رائٹرس)

(فوٹو: رائٹرس)

ممبئی کے بھاٹیہ اسپتال کی ڈاکٹر گنجن چنچلانی بتاتی ہیں،‘ہم نے کوئی مضر اثر تو نہیں دیکھا، لیکن کئی ساری نگیٹو رپورٹس کے بعد ہم نے اس کا (ایچ سی کیو)استعمال بےحدمحدودکر دیا ہے۔ ہم اس کو پوری طرح سے بند کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔’ناناوتی اسپتال کے ڈاکٹر راہل تامبے کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس دوا کو ہائپرٹینشن، شوگر، دل کے مریضوں اور بزرگوں پر استعمال نہیں کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بےحد کم مریضوں پر اسے استعمال کیا گیا ہے اور انہیں اس بارے میں اور ڈیٹا کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر بال کرشن اڈسل سیون ہلس اسپتال کے انچارج ہیں، ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے گردوں کی پریشانی سے متعلق  کچھ مریضوں پر اس کے نامناسب اثر دیکھے ہیں، پر وہ کہتے ہیں، ‘جب تک آئی سی ایم آر کی ایڈوائزری میں تبدیلی  نہیں ہوتی، ہم اس کا استعمال جاری رکھیں گے۔ ہر دوا کے کچھ سائیڈ افیکٹ تو ہوتے ہیں،’

بی ایم سی کے زیر اہتمام چلنے والے اسپتالوں میں آئی سی ایم آر کی ایڈوائزری پرعمل کیا جا رہا ہے، جن کے مطابق کم آثار والے مریضوں کے ساتھ جنہیں نمونیا، سانس لینے میں تکلیف اور اعضا سہی سے کام نہیں کر رہے ہیں، انہیں بھی ایچ سی کیو دینے کو کہا گیا ہے۔

اس کی مقدار 200 ایم جی سے 400 ایم جی کے بیچ رکھی گئی ہے اور بنیادی طورپر15 سال سے 40 سال تک کے مریضوں کو ہی دی جا رہی ہے۔

ڈاکٹر سبھاش سالنکے مہاراشٹر سرکار کے صلاح کار ہیں، وہ کہتے ہیں، ‘کیونکہ ڈبلیو ایچ او کے ذریعے اس کے ٹیسٹ پر عارضی روک لگائی ہے، اسے پوری طرح بند نہیں کیا ہے، مہاراشٹر میں مریضوں پر اس دوائی کا استعمال جاری رہےگا۔ ہمیں فوراً کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ جانا چاہیے۔ ہمیں ایس ای جی لینے ہو ں گے، مریضوں پر نزدیک سے نظر رکھنی ہوگی۔ اسے لےکر ڈر کھڑا نہیں ہونا چاہیے۔

انڈین ایکسپریس سے بات چیت میں ریاست کے ہیلتھ سکریٹری ڈاکٹڑ پردیپ اواٹے کہتے ہیں،‘آئی سی ایم آر کے ڈیٹا کے مطابق اس کے استعمال کے صرف تین سائیڈ افیکٹ ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے ٹرائل میں آئی سی ایم آر کے ذریعے بتائے گئے اعدادوشمار سے دوگنی مقدار مریضوں پر ٹیسٹ کی گئی ہے۔ کیونکہ ہم کم مقدار میں اس کا ڈوز دے رہے ہیں، ہمیں سائیڈ افیکٹ کی فکرنہیں ہے۔’

سوموار کو ڈبلیو ایچ او نے اس دوائی کے استعمال پر عارضی روک لگاتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے بارے میں موجود شواہد کو دیکھنے کے بعد اگلے مہینے تک کوئی فیصلہ لیا جائےگا۔غورطلب ہے کہ ہائیڈروکسی کلوروکوئن ملیریا کی ایک پرانی اور سستی دواہے اور اسے کووڈ 19 کے علاج کے لیے ایک عملی علاج مانا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں کو رونا وائرس کے خلاف دواؤں کو لےکر کئی ٹیسٹ جاری ہیں لیکن کوئی بھی علاج میں مفید ثابت نہیں ہوا ہے۔

اس سے پہلے کئی ایسی رپورٹ سامنے آ چکی ہیں جن میں ہائیڈروکسی کلوروکوئن کے استعمال کو کووڈ 19 کے مریضوں پر کوئی اثر نہیں پڑنے کی بات کی گئی تھی۔ایک امریکی رپورٹ کے مطابق، امریکہ میں کووڈ 19 مریضوں کے علاج کے لیے ہائیڈروکسی کلوروکوئن کے استعمال سے کوئی فائدہ نہیں مل رہا ہے اور بڑی تعدادمیں ان لوگوں کی موت کی خبر ہے، جنہیں یہ دوا دی گئی تھی۔’

اسی مہینے میڈیکل جرنل دی  لینسیٹ میں شائع ایک مطالعے میں کہا گیا تھا کہ کووڈ 19 مریضوں پر کلوروکوئن یا ہائیڈروکسی کلوروکوئن دواؤں کا استعمال کلینکل ٹرائلس کے علاوہ نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس سے دل کی بیماری  کے ساتھ موت کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ہائیڈروکسی کلوروکوئن کے ایک مسلسل اور بولڈ حمایتی  رہے ہیں اور اس دوا کو لےکر کیے گئے ان کے دعووں کے بعد ہی اس کی مانگ میں تیزی آئی۔

پچھلے مہینے ڈونالڈ ٹرمپ نے ہائیڈروکسی کلوروکوئن دوا نہ دینے پر ہندوستان کو سخت نتائج کی وارننگ دی تھی۔ اس کے کچھ گھنٹوں بعد ہی ہندوستان نے کچھ ممالک کو مناسب مقداد میں پیراسٹامول اور ہائیڈروکسی کلوروکوئن کی سپلائی کو عارضی طور پر منظوری دے دی تھی۔

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

ٹرمپ انتظامیہ نے ہائیڈروکسی کلوروکوئن کی تین کروڑ سے زیادہ  خوراک کا ذخیرہ جمع کیا ہے، جس کا ایک بڑا حصہ ہندوستان سےآیا ہے۔حالانکہ اس کے بعد امریکہ کے ایف ڈی اے نے ہائیڈروکسی کلوروکوئن کے بارے میں وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے مضر اثرات  میں دل کی دھڑکن  سے جڑی سخت اور جان لیوا پریشانی ہو سکتی ہے۔

یف ڈی اے نے کہا تھا کہ ہائیڈروکسی کلوروکوئن اور کلوروکوئن جیسی دواؤں کا استعمال صرف اسپتالوں یا کلینکل ٹیسٹوں میں کیا جانا چاہیے کیونکہ ان کے شدید مضر اثرات  ہو سکتے ہیں۔حالانکہ، ٹرمپ نے نہ صرف ان مطالعوں  کی تردید کی بلکہ بناشواہد کے یہ بھی کہہ دیا کہ یہ مطالعے کرنے والے لوگ سیاست سے متاثر ہیں اور کو رونا وائرس پابندیوں کو ختم کرنے کی ان کی کوششوں پر پانی پھیرنا چاہتے ہیں۔

اس دوران ایک انکشاف کرتے ہوئے ٹرمپ نے بتایا کہ وہ خود کورونا وائرس سے بچنے کے لیے اس دوا کا استعمال کر رہے ہیں۔ حالانکہ ایک حالیہ رپورٹ کہتی ہے کہ انہوں نے اب اسے لینا بند کر دیا ہے۔ٹرمپ اکیلے ایسے صدر نہیں ہیں جو ہائیڈروکسی کلوروکوئن کے استعمال کو بنا کسی سائنسی تصدیق  کے بڑھاوا دے رہے ہیں۔ ٹرمپ کے بےحد قریبی اور برازیل کے صدرجییر بولسانارو اس دوا کی 30 لاکھ ٹکیہ بٹوا چکے ہیں۔

ان کی سرکار کا کہنا ہے کہ وہ ڈاکٹروں سے سفارش کریں گے کہ شروعاتی آثار کی پہچان ہوتے ہی اس دوا کو دینا شروع کر دیں۔حالانکہ شروع میں وہ ریاستی حکومتوں اورہیلتھ انتظامیہ کے مشوروں کے برعکس کورونا وائرس کے خطرے سے انکاکرتے رہے تھے۔ اب برازیل، اسپین اور اٹلی کو پیچھے چھوڑکر دنیا میں سب سے زیادہ  متاثر معاملوں والے ملک میں سے ایک بن گیا ہے۔

کو رونا وائرس شروع ہونے کے بعد سے بولسانارو نے اختلافات کی وجہ سے ایک وزیر صحت کو خود ہٹا دیا تھا جبکہ دوسرے نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ دونوں وزیرصحت ان کی ہائیڈروکسی کلوروکوئن اسکیم کی مخالفت کر رہے تھے۔ڈبلیو ایچ او کے ذریعے روک لگائے جانے کے بعد برازیل نے کہا ہے کہ وہ کووڈ 19 کے علاج کے لیے ہائیڈروکسی کلوروکوئن کے استعمال پر روک نہیں لگائےگا۔

وہیں، ہندوستان نے بھی حال ہی میں ہائیڈروکسی کلوروکوئن کے استعمال کا دائرہ بڑھا دیا ہے۔ گزشتہ جمعہ کو ہندوستان نے کووڈ 19 اسپتالوں میں کام کر رہے بناآثار والے میڈیکل پیشہ وروں، کنٹنمنٹ زون میں نگرانی ڈیوٹی پر تعینات اہلکاروں  اور کو رونا وائرس انفیکشن کو روکنےسے متعلق سرگرمیوں  میں شامل پیراملٹری/پولیس اہلکار کو ہائیڈروکسی کلوروکوئن کا استعمال کرنے کی سفارش کی تھی۔