خصوصی سی بی آئی عدالت 6 دسمبر، 1992 کوایودھیا میں بابری مسجد انہدام معاملے میں 32 ملزمین کے بیان درج کر رہی ہے۔ اس معاملے میں بی جے پی رہنما اورسابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی، اتر پردیش کےسابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ اورسابق مرکزی وزیرمرلی منوہر جوشی کا بیان درج ہونا ابھی باقی ہے۔
نئی دہلی:سینئربی جے پی رہنما اوما بھارتی ایودھیا میں بابری مسجد انہدام کے معاملے میں جمعرات کو خصوصی سی بی آئی عدالت میں پیش ہوئیں۔وہ اس معاملے میں عدالت میں بیان درج کرانے والی 19ویں ملزم ہیں۔ انہوں نے خصوصی سی بی آئی جج ایس کے یادو کی عدالت میں دیے گئے اپنے بیان میں کہا کہ 1992 میں مرکز کی اس وقت کی کانگریس حکومت نےسیاسی بدلے کے جذبےسے ان پر بابری انہدام کا الزام لگایا تھا۔ وہ بالکل بے قصور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت کی مرکزی حکومت نے بابری انہدام معاملے میں اپنے سیاسی مفاد کے لیے ان کے اوردیگر لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔ سب کوسیاسی دباؤ میں غلط طریقے سے پھنسایا گیا۔اوما بھارتی نے اس معاملے میں سی بی آئی کی جانب سے پیش کیے گئے ثبوتوں پر کہا کہ یہ سب سیاسی دشمنی کی وجہ سے کیا گیا ہے۔
حالانکہ عدالت کے باہر آکر انہوں نے صحافیوں سے کہا کہ رام مندر مہم سے جڑ کر وہ فخرمحسوس کرتی ہیں۔انہوں نے کہا، ‘میں تو رام بھکت ہوں اور رام بھکتی کے جذبےکی وجہ سے میں نے اس مہم میں حصہ لیا۔ اس کے لیے میں ہمیشہ خود کو خوش قسمت مانتی ہوں۔’
انہوں نے کہا کہ انہیں فخر ہے کہ ان کی زندگی‘گنگا’، ‘ترنگا’، ‘گئو’، ‘غریب’، ‘ناری’ اور ‘رام’ کو وقف ہے۔
بھارتی نے عدالت میں دیے گئے بیان پر صحافیوں کو کچھ بھی بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا، ‘میں بھارت کے قانون کو ویدوں کی طرح مانتی ہوں۔ عدالت ایک مندر ہے اور اس میں بیٹھے ہوئے جج کو میں بھگوان کی طرح مانتی ہوں۔ ان کے سامنے میں نے جو باتیں کہیں ہیں، ان پر میں کوئی تبصرہ نہیں کر سکتی،کیونکہ تمام باتوں پر فیصلے آنے باقی ہیں۔ میں نے عدالت میں جو بھی کہا، اس کے بارے میں میں آپ کو کچھ نہیں بتاؤں گی۔’
انہوں نے کہا، ‘لیکن میں یہ ضرور کہوں گی کہ یہ 500 سال تک چلی لمبی لڑائی ہے۔ شاید ہی دنیا کی کوئی مہم ایسی رہی ہو جس نے پانچ صدیاں پار کی ہوں اور ان پانچوں صدی میں وہ لگاتار بڑھتا ہی گئی ہو۔ آخر میں سپریم کورٹ کا جو فیصلہ آیا ہے، اس کوہندوستانی عوام نے جس طرح قبول کیا اس سے ہندوستان کی امیج دنیا میں بہت روشن ہوئی ہے۔’
معلوم ہو کہ سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی کی قیادت والی پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے پچھلے سال 40 دنوں کی لمبی شنوائی کے بعد نو نومبر کو بابری مسجدرام جنم بھومی زمینی تنازعہ پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے متنازعہ زمین پر مسلم فریق کا دعویٰ خارج کرتے ہوئے ہندوفریق کو زمین دینے کو کہا تھا۔
بھارتی نے کہا، ‘کیونکہ ہندوستان کے بارے میں یہ مانا جاتا تھا کہ یہاں مذہبی تفریق موجود رہتی ہے لیکن عدالت کے فیصلے کے بعدہندوستان نے جس طرح متحدہوکر اس کوقبول کیا، اس سے ایک عظیم الشان روایت قائم ہوئی ہے۔’متنازعہ زمین پر عدالت کا فیصلہ آنے اورمرکزی حکومت کی جانب سے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے ٹرسٹ تشکیل کرنے کے فیصلے بعد اوما بھارتی نے کہا تھا کہ اگر بابری مسجد کا ڈھانچہ نہیں ہٹایا جاتاتو سچ لوگوں کے سامنے نہیں آتا۔
خصوصی سی بی آئی عدالت 6 دسمبر، 1992 کو ایودھیا میں بابری مسجد انہدام کے معاملے میں 32 ملزمین کے بیان درج کر رہی ہے۔سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق خصوصی عدالت اس معاملے کی شنوائی 31 اگست تک پوری کرنے کے لیے روزانہ کام کر رہی ہے۔اس معاملے میں سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی، اتر پردیش کےسابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ اورسابق مرکزی وزیرمرلی منوہر جوشی کا بیان درج ہونا ابھی باقی ہے۔ ان کے وکیلوں نے عدالت کو بتایا ہے کہ وہ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے اپنا بیان درج کرانا چاہتے ہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں