جے کے سی سی ایس نے اپنی ایک جامع رپورٹ میں بتایا ہے کہ مواصلاتی رابطوں کو بند کرنے میں کشمیر دنیا کی تاریخ میں پہلی مثال ہے۔ رپورٹ کے مطابق سال رواں کے ماہ جنوری میں جب ٹو جی موبائل انٹرنیٹ خدمات بحال کی گئیں، تب سے بھی 70 بار عارضی طور پر اس کو معطل کرنے کے احکامات صادر کیے گئے ہیں۔
پچھلے سال اگست میں جب ہندوستانی حکومت نے کشمیر میں مواصلاتی لاک ڈاؤن نافذ کردیا، انٹرنیٹ سمیت موبائل اور لینڈ لائن فون کی سروس بھی بند کردی، توشمالی کشمیر کے بارہمولہ قصبہ میں ہندوستانی فوج کی 19ویں ڈویژن کے ہیڈکوارٹر کے باہر جموں و کشمیر بینک کی اے ٹی ایم مشین سے ایک سپاہی روز ہی پیسے نکالنے آتا تھا۔ خواجہ باغ علاقے میں واقع اس اے ٹی ایم مشین کا چوکیدار تجسس میں تھا، کیونکہ سپاہی ہرروز مقررہ وقت پر آکر نہایت ہی معمولی رقم نکالتا تھا۔
کشمیر میں کسی سپاہی سے سوال کرنے کے لیے خاصی جرأت اور بہادری چاہیے۔ ایک دن جب اے ٹی ایم کے باہر اور بھی لوگ لائن میں کھڑے تھے، چوکیدار نے جرأت کرکے سپاہی سے پوچھ ہی لیا، کہ آخر وہ روز، روز اے ٹی ایم پر آکر اتنی معمولی رقم کیوں نکالتا ہے؟ تو سپاہی نے بتایا کہ وہ اتر پردیش کے کسی گاؤں کا رہنے والا ہے اور مواصلاتی رابطوں کے منقطع ہونے کی وجہ سے وہ کئی ماہ سے اپنے گھر بات نہیں کر پارہا ہے۔
چونکہ اس کا بینک اکاؤنٹ، اس کی بیوی کے موبائل نمبر سے منسلک ہے، اس لیے جب بھی وہ اے ٹی ایم سے پیسے نکالتا ہے، تو بینک کے سسٹم سے ایس ایم ایس گاؤں میں اس کی بیوی کے موبائل پر پہنچتا ہے۔”جس سے اس کو میری خیریت معلوم ہوتی رہتی ہے اور یہ پتہ چلتا ہے کہ میں زندہ ہوں۔“
مواصلاتی رابطوں کے مسدود ہونےپر یہ ایک ہندوستانی سپاہی کی حالت تھی، تصور کیجیے کہ عام آدمی کا کیا حال ہوا ہوگا۔ آج کی دنیا میں تصور کرنا بھی محال ہے کہ بس چند دہائی قبل کس طرح موبائل اور انٹرنیٹ کے بغیر لوگ زندگی گزارتے تھے۔ ہندوستان کے وزیر اطلاعات و نشریات پرکا ش جاویڈکرنے پچھلے سال ایک بار کابینہ بریفنگ کے دوران کسی دوسرے معاملے کو لےکر بتایا تھا کہ آج کے دور میں سب سے بڑی سزا اور انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی کسی شخص کو مواصلات سے دور رکھنا ہے۔
ستم ظریفی تو یہ تھی کہ اسی وقت کشمیر کی تقریباً 12ملین آبادی اس سزا کو جھیل رہی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دہائی قبل جب میں دہلی کے تہاڑ جیل میں سرکاری مہمان تھا، تو سزا کے طور پر کسی قیدی کو جب قصوری سیل میں بند ہونا یا پٹائی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کےلیے کہا جاتا تھا، تو اکثر قیدی پٹائی کو ہی ترجیح دیتے تھے۔ قصوری سیل میں قید تنہائی میں24گھنٹے بند ہونے سے اوسان خطا ہو جاتے تھے۔ کسی آدم یا آدم زاد کی آواز سننے کے لیے کان ترس جاتے تھے۔
انسانی حقوق کی تنظیم جموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی یعنی جے کے سی سی ایس نے کشمیر میں گزشتہ ایک برس سے زائدمواصلاتی رابطوں پرحکومتی بندشوں کی عوامی زندگی پر اثرات کا جائزہ لیا ہے۔ اپنی ایک جامع رپورٹ میں تنظیم نے موبائل انٹرنیٹ خدمات پر جاری پابندی کو اجتماعی سزا کی علامت قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ میانمار کے بعد کشمیر میں دنیا کا طویل ترین انٹرنیٹ لاک ڈاؤن نافذ تھا۔ میانمار میں پھر بھی دیگر نیٹ ورک بند نہیں تھے۔
لہذا مواصلاتی رابطوں کو بند کرنے میں کشمیر دنیا کی تاریخ میں پہلی مثال ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال رواں کے ماہ جنوری میں جب ٹو جی موبائل انٹرنیٹ خدمات بحال کی گئیں، تب سے بھی 70 بار عارضی طور پر اس کو معطل کرنے کے احکامات صادر کیے گئے ہیں۔مزید ماہرین کا حوالہ دےکر بتایا گیا ہے کہ 12.25ملین کی آبادی کو 3.5بلین گھنٹے کی انٹرنیٹ ترسیل روک دی گئی۔
پچھلے سال 5اگست کو جب ہندوستانی پارلیامنٹ نے ریاست کو تحلیل کرکے ضم کر دیا، تو اکثر علاقوں میں عوام کو کئی روز تک پتہ ہی نہیں چل سکا کہ آخر کون سی آفت ٹوٹ پڑی ہے۔ کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے بعد بھی حکام کے دل نہیں پسیجے۔ ڈاکٹر و اسپتال اس قدر معذور تھے کہ وہ اس وبا سے نپٹنے کے لیے ضروری مواد اور ہدایات کو ڈاؤن لوڈ نہیں کر پارہے تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فاسٹ انٹرنیٹ کی عدم موجوگی کی وجہ سے اسپتالوں میں ڈاکٹر پیچیدہ کیسزیا آپریشن کا فیصلہ لینے سے قبل سینئرڈاکٹروں سے مشورہ نہیں کر پاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اکثر مریضوں کے علاج یا آپریشن کرنے کا وہ رسک نہیں لیتے ہیں۔
آج کی دنیا میں انٹرنیٹ اور تجارت اس قدر مربوط ہو چکی ہے کہ ان کو الگ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ پچھلے سال اگست اور دسمبر کے درمیان انٹرنیٹ کی عدم موجودگی کی وجہ سے کشمیری معیشت کو 178.8بلین روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ انڈین کونسل فار ریسرچ آن انٹرنیشنل اکانومک ریلیشنز کے مطابق کشمیر پہلے ہی مختلف قسم کے لاک ڈاؤن جھیل رہا تھا۔
اعداد وشمار کے مطابق 2012سے 2017تک حکومت کی طرف سے وقفہ وقفہ سے عائد لاک ڈاؤن کی وجہ سے کشمیر ی معیشت کو 40بلین روپے کا نقصان پہلے ہی اٹھانا پڑا تھا۔ اس دوران بینکوں کا کیا حال ہوگیا، جے کے سی سی ایس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دیگر بینکوں یا اپنی ہی دیگر شاخوں کے ساتھ لین دین کے لیے ان کو ہرکاروں کا سسٹم بحال کرنا پڑا۔
اپنے گراہکوں تک پہنچے اور ان کو کوئی اطلاع دینے کا کوئی ذریعہ ہی نہیں تھا۔ رپورٹ کے مطابق کشمیر میں تقریباً ڈھائی لاکھ ہنر مند دستکاری کے پیشہ سے وابستہ ہیں، ان میں 60سے 70ہزار بے روزگار ہو چکے ہیں۔ اگست اور ستمبر کے دوران اکثر دستکار دنیا کے مختلف حصوں سے آرڈر انٹرنیٹ پر وصول کرتے ہیں۔ صرف اسی شعبہ کو ہی 10بلین روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ مواصلاتی ناکہ بندی کے ابتدائی 120 دنوں میں ہی سیاحت کے شعبہ کو 91.91بلین روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑا ہے۔ ہر سال کشمیر سے تقریباً دو لاکھ میٹرک ٹن سیب بر آمد ہوتے ہیں۔
ہارٹیکلچر انڈسٹری کہ وجہ سے ہر سال تقریباً 80سے90بلین روپے خطے میں گردش کرتے ہیں۔ شوپیان کے ایک باغبان شاہنواز کے مطابق پچھلے سال اس کے باغ میں سیبو ں کی عمدہ فصل ہوئی تھی۔ چونکہ دہلی کی آزاد پور فروٹ منڈی میں کمیشن ایجنٹوں سے اس کا رابطہ فون کے ذریعے ہی ہوتا ہے، وہ وقت پر فصل بھیج پایا نہ ہی اس کے واجب دام وصول کر پایا۔
سیب اگانے والوں کے لیے حکومت نے ڈپٹی کمشنر دفاتر میں لینڈ لائین فون کی سہولیت فراہم کی تھی۔ جب شاہنواز فون کرنے کے لیے دفتر پہنچا تو وہاں اتنی لمبی لائن لگی تھی، کہ تین دن بعد ہی وہ دہلی فون کرپایا۔ کمیشن ایجنٹ نے 1200 روپے کا سیبوں کا بکس 500روپے میں ہی بیچ دیا۔ مواصلاتی رابطوں کے منقطع ہونے سے ٹرانسپورٹر بھی دستیاب نہیں تھے۔ جہاں ایک بکس پر دہلی لے جانے کےلیے60سے 70روپے کا کرایہ ہوتا ہے، شاہنواز کو 180روپے فی بکس دینے پڑے۔
چند برس قبل ہندوستان میں حکومت نے کئی مقامی ٹیکسوں کو ضم کرنے ایک ملک ایک ٹیکس کے نام پر گڈس اینڈ سروس ٹیکس یعنی جی ایس ٹی لاگو کر دیا، جو تاجرو ں کو مرکزی حکومت کو انٹرنیٹ کے ذریعے ہر ماہ دینا پڑتا ہے۔ رپورٹ میں سرینگر کے ایک تاجر اقبال احمد گنائی کا تذکرہ ہے کہ 600کیلومیٹر دور پنجاب بارڈر کراس کرکے مادھو پور میں گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی کرکے وہ اپنے موبائل انٹر نیٹ سے یا کسی انٹرنیٹ کیفے سے ٹیکس کی ادائیگی کرکے واپس سرینگر آتا تھا۔
اس کام کے لیے اس کو تین دن لگتے تھے۔ دو دن سفر میں اور ایک رات جموں میں ہوٹل میں قیام کرنا پڑتا تھا۔ ماحولیاتی آلودگی سے نسبتاً پاک ہونے کی وجہ سے کئی سالوں سے حکومت کشمیر میں سافٹ ویئر اور کمپیوٹر ہارڈ ویئرانڈسٹری کو بڑھاوا دینے کی کوششیں کر رہی تھی۔ مگر اس نوزائیدہ انڈسٹری کی کمر ہی مواصلاتی رابطوں کے منقطع ہونے کے وجہ سے ٹوٹ گئی ہے۔ انٹرنیٹ اس انڈسٹری کی جا ن ہے۔
پچھلے سال ایک آئی ٹی کمپنی کے ایک سی ای او کو گرفتار کرکے ایک ہفتے تک انٹروگیشن سینٹر میں محبوس رکھا گیا۔ اس کا قصور تھا کہ مواصلاتی لاک ڈاؤن کا اعلان ہونے کے ایک گھنٹہ کے بعد بھی اس نے مواصلاتی لائن بحال رکھی تھی۔ یہ شخص امریکہ میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی کی ملازمت چھوڑ کر حکومت کی کال پر کشمیر میں آئی ٹی یونٹ کھولنے کےلیے آیا تھا۔
اس کی کمپنی میں 150افراد کام کرتے تھے۔ اور ایک قلیل عرصے میں ہی اس انڈسٹری نے 25000ہزار افراد کو ملازمت فراہم کی تھی۔ جے کے سی سی ایس کی رپورٹ کے مطابق اس سی ای او نے بتایا کہ کشمیر میں انفارمیش ٹکنالوجی کا سیکٹر اب ختم ہو گیا ہے۔ پچھلے سال اگست میں ریاست جموں کشمیر کی خصوصی آئینی پوزیشن کو ختم کرتے وقت ہندوستانی حکومت نے دنیا کو بتایا کہ اب کشمیر میں تعمیر و ترقی کے نئے باب رقم ہوں گے، کیونکہ اس کے بقول خصوصی پوزیشن آڑے آرہی تھی۔
مگر حالت اب یہ ہے کہ اس ایک سال ہی میں کشمیر میں صنعت و تجارت کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ جے کے سی سی ایس کی رپورٹ کے مطابق کشمیریوں کی ایک طرح سے اجتماعی سزا دی جا رہی ہے اور مواصلاتی نظام منقظع کرنا عصبیت کی بدترین مثا ل ہے۔
Categories: فکر و نظر