نریندر مودی کی آمد تو 2014میں ہوئی، اس سے قبل سیکولر جماعتوں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی، جن کی سانسیں ہی مسلمانوں کے دم سے ٹکی ہوئی تھیں، بابری مسجد کی مسماری کے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔
چھ دسمبر1992کی رات، بی بی سی نے اپنی نشریات روک کر اعلان کیاکہ اتر پردیش کے شہر فیض آباد سے سنڈے آبزرور کے نمائندے قربان علی لائن پر ہیں اور وہ ابھی ابھی ایودھیا سے وہاں آن پہنچے ہیں۔ اگلی پاٹ دار آواز قربان علی کی تھی۔ جس میں انہوں نے دنیا کو بتایا کہ مغل فرمانروا ظہیر الدین بابر کی ایما پر تعمیر کی گئی بابری مسجد اب نہیں رہی۔ جس وقت و ہ ایودھیا سے روانہ ہوئے، وہ ملبہ کے ایک ڈھیر میں تبدیل ہوچکی تھی۔
اس دن 12 بجے کے بعد سے کسی بھی میڈیا ادارے کا ایودھیا میں موجود اپنے رپورٹروں سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ حکومت دعویٰ کر رہی تھی کہ ایک ہجوم نے مسجد پر حملہ کرکے اس کو معمولی نقصان پہنچایا اور سیکورٹی دستوں نے ان کو کافی پیچھے دھکیل دیا ہے۔ ہندو قوم پرست تنظیموں بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)اور وشو ہندو پریشد(وی ایچ پی)نے جب رام مندر تحریک شروع کی تو میں بھی تقریباً اسی وقت دہلی میں صحافت کی تعلیم مکمل کر رہا تھا۔
ایل کے اڈوانی کی رتھ یاترا جب چاندنی چوک سے گزر رہی تھی، تو میں سڑک کے کنارے ہوا میں تلواریں اوربھالے لہراتے ہجوم کو جئے شری رام، مندو وہی بنائیں گے اور بابر کی اولادوں کے نام ان کی دشنام طرازی کے نعرے بلند کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔
گو کہ آنجہانی پرمود مہاجن اس یاترا کے چیف آرگنائزر تھے، مگر دہلی میں بی جے پی کے دفتر میں موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی اس کے متعلق پروگرام وغیرہ کی بریفنگ دیتے تھے۔ خیر پچھلے سال نومبر میں سپریم کورٹ کے عجیب و غریب فیصلہ کے بعد تو مسجد ایک قصہ پارینہ بن ہی گئی تھی، اب پچھلے ہفتے اس کو مسمار کرنے والوں کو بھی اتر پردیش صوبہ کے شہر لکھنؤ کی خصوصی عدالت نے بری کرکے انصاف کو دفن کر نے کا مزید سامان مہیا کروادیا۔
پچھلے 28 سالوں سے جس طرح اس مقدمہ کی ٹرائل ہو رہی تھی، اس سے کچھ زیادہ امید یں تو نہیں بندھی تھیں، مگر سپریم کورٹ نے جب مسجد کی زمین ہندو بھگوان رام للا کے سپرد کی، تو مسلم فریق کے تین اہم دلائل کو بھی تسلیم کرکے فیصلہ میں شامل کردیا۔ عدالت اعظمیٰ نے یہ تسلیم کیا کہ 1949 کو رات کے اندھیرے میں مسجد کے محراب میں بھگوان رام کی مورتی رکھنا اور پھر دسمبر 1992کو مسجد کی مسماری مجرمانہ فعل تھے۔
اس کے علاوہ عدالت نے آثار قدیمہ کی تحقیق کا بھی حوالہ دےکر صاف کردیا کہ 1528 میں جس وقت مسجد کی تعمیر شروع ہوئی، اس وقت کی کسی عبادت گاہ کے آثار نہیں ملے۔ ہاں، کھدائی کے دوران، جو اشیا پائے گئے، ان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس جگہ پر 11ویں صدی میں کوئی عمارت موجودہ تھی، جو تباہ ہوچکی تھی۔ یعنی 500سالوں تک اس جگہ پر کوئی عمارت موجود نہیں تھی۔
ان دلائل سے ایک موہوم سی امید جاگ اٹھی تھی، کہ چاہے مسجد کی زمین پر ا یک پرشکوہ مندر کی تعمیر شروع ہو چکی ہے، مگر اس عبادت گاہ کو مسمار کرنے والوں کو قرا ر واقعی سزا دےکر ایک مثال قائم کی جائےگی۔ مگر 2000صفحات سے بھی زائد کےاپنے فیصلہ میں خصوصی عدالت کے جج سریندر کمار یادو نے سپریم کورٹ کی ہدایت اور تمام ثبوتوں کو درکنا ر کرتے ہوئے تمام 32ملزمان کو بری کر دیا۔ جس طرح اس کیس کی ٹرائل ہو رہی تھی، اس کا میں خود گواہ ہوں۔
استغاثہ نے جن 351گواہوں کی فہرست کورٹ میں دی تھی، اس میں سے تین شخص میر ے قریبی رفیق تھے، ان سے متواتر معلومات ملتی رہتی تھیں۔ نریندر مودی کی آمد تو 2014میں ہوئی، اس سے قبل سیکولر جماعتوں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی، جن کی سانسیں ہی مسلمانوں کے دم سے ٹکی ہوئی تھیں، بابری مسجد کی مسماری کے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔
حتیٰ کہ ایک معمولی نوٹیفکیشن تک کا اجرا نہیں کرسکیں جس سے خصوصی عدالت میں ان افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا۔اور جب نوٹیفیکشن جاری کی تو اس میں تکنیکی خامیاں تھیں، جن کو خدا خداکرکے 2010میں الہ آباد ہائی کورٹ کہنے پر دور کیا گیا اور سبھی مقدمو ں کو یکجا کرکے لکھنؤکی خصوصی عدالت میں سماعت شروع ہوئی۔
معروف فوٹو جرنلسٹ پروین جین نے نہ صرف 6دسمبر کے دن بابری مسجد کی مسماری کی تصاویر لیں تھیں، بلکہ اس سے کئی روز قبل ایودھیا کے نواح میں کارسیوکوں کے گروپ میں شام ہوکر ریہر سہل میں حصہ لےکر اس کی تصویریں بھی کیمرہ میں محفوظ کر دی تھیں۔ ان کے اخبار دی پائینیر نے مسجد کے مسمار ہونے کے بعد ان کو شائع کیا تھا۔استغاثہ نے ان کو بطور گواہ بنایا تھا۔ اس دوران ان کو کس طرح ہراساں کیا جاتا تھااور کورٹ میں حاضری کے دن ان کو وکیلوں و عدالتی اسٹاف کے معاندانہ رویہ کا کس طرح سامنا کرنا پڑتا تھا، یہ خود ایک درد بھری داستان ہے۔
سمن آنے پر مقررہ تاریخ سے ایک روز قبل وہ دہلی سے بذریعہ ٹرین لکھنؤ کے لیے روانہ ہوتے تھے۔ دن بھر عدالت کے باہر اردلی کی آوا ز کا انتظار کرنے کے بعد بتایا جاتا تھاکہ آج گواہی نہیں ہوگی، کیونکہ یا تو جج موجود نہیں ہے، یا استغاثہ یا وکیل دفاع موجود نہیں ہے۔ جین کے بقول کئی سالوں تک اس طرح کی گردشوں کے بعد جب ایک دن ان کو گواہوں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا، اوران کا بیان ریکارڈ ہونے ہی والا تھا، کہ ایک معمر وکیل نے کٹہرے کے پاس آکر اپنا منہ ان کے کان کے پاس لاکر ماں، بہن کی گالی دےکر دھمکی بھی دے ڈالی۔ جین نے بلند آواز میں جج کو متوجہ کرتے ہوئے شکایت کی کہ ان کو بھری عدالت میں دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
جج نے حکم دیا کہ ان کو ایک سفید کاغذ دیا جائے تاکہ یہ اپنی شکایت تحریری طور پر دیں۔ شکایت جج کے پاس پہنچتے ہی وکیل دفاع نے دلیل دی کہ اب پہلے اس کیس کا نپٹارہ ہونا چاہیے کہ گواہ کو کس نے گالی اور دھمکی دے دی۔ اس دوران کورٹ میں ہنگامہ مچ گیا اور گواہی اگلی تاریخ تک ٹل گئی اور بتایا گیا کہ وہ اپنا وکیل مقرر کریں، کیونکہ اب پہلے ان کو عدالت میں دھمکانے کا کیس طے ہوگا۔ تنگ آکر جین نے یہ کیس واپس لیا اور اصل کیس یعنی بابری مسجد کی مسماری سے متعلق اپنا بیان درج کروانے کی درخواست کی۔
اس طرح دوبارہ کئی تاریخوں کے بعد جب گواہی درج ہوگئی تو ان کو بتایا گیاکہ بس تصویریں کافی نہیں ہیں، 6دسمبر کے دن ایودھیا میں اپنی موجودگی ثابت کریں۔ خیر کسی طرح کئی ماہ کی تگ ودو کے بعد انہوں نے ایودھیا کے ضلعی صدر مقام فیض آباد کے ایک ہوٹل سے پرانا ریکارڈ نکالا اور اپنے پرانے ادارے پائینیر کا ایک سرٹیفیکٹ بھی حاصل کیا۔ مگر اب کورٹ میں ان کو بتایا گیا کہ یہ کاغذات بھی ناکافی ہیں۔ آخرکئی دہائی قبل کا ٹرین ٹکٹ ان کو مل گیا اور اب کئی سالوں کے بعد یہ طے ہو گیا کہ وہ اس دن ایودھیا میں تھے۔
مگر اب ان کو بتایا گیا کہ ان کی تصویریں قابل اعتبار نہیں ہیں، اس لیے ا ن کے نگیٹو پرنٹ کورٹ میں پیش کرنے ہوں گے۔ اس دوران دہلی میں ان کی عدم موجودگی میں ان کے فلیٹ پر چوروں نے دھاوا بھول دیا اور پورے گھر کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ گھر کی جو حالت تھی اس سے معلوم ہوتا تھا کہ درانداز کسی چیز کو تلاش کر رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ نقدی، زیورات اور دیگر قیمتی سامان غائب تھا، مگر تصویروں کے نگیٹو بچ گئے تھے، کیونکہ وہ انہوں نے کسی دوسری جگہ حفاظت سے رکھے ہوئے تھے۔
کورٹ میں مسجد کی شہادت کی تیاری اور باضابطہ ریہر سہل کرنے کی تصویریں پیش کی گئیں۔ معلوم ہوا کہ دو سول انجینئر اور ایک آرکیٹیکٹ مسجد کی عمارت گرانے کے لیے کارسیوکوں کو باضابطہ ٹریننگ دے رہے تھے۔ ان سب کے چہرے تصویروں میں واضح تھے۔
اسی طرح میرے کشمیری پنڈت دوست سنجے کاوؤ بھی ایک گواہ تھے۔ انہوں نے مسجد کی شہادت سے قبل باضابطہ ایک اسٹنگ آپریشن کے ذریعے انکشاف کیا تھا کہ 6دسمبر کو بابری مسجد کو مسمار کر دیا جائےگا۔ ان دنوں خفیہ کیمرہ سے اسٹنگ کا رواج نہیں تھا۔ کاؤ کے مطابق اخبار اسٹیٹس مین کے دفتر سے رات گئے جب وہ آفس کی گاڑی میں گھر جا رہے تھے، تو ڈرائیور نے ان کو بتایا کہ ایودھیا میں اس بار کچھ بڑا ہونے جا رہا ہے۔
ایڈیٹر نے اگلے دن ان کو ایودھیا جانے کی اجازت دے دی۔ مگر کاؤ نے صحافی کے بجائے ایک کارسیوک کے طور پر جانے کی ٹھانی اور دہلی میں بی جے پی کے دفترمیں سنجے کول کے نام سے اندراج کرواکے کار سیوک کا کارڈ حاصل کیا۔ ہندو اور کشمیری پنڈت ہونے کے باوجود نہ صرف ٹرین میں بلکہ فیض آباد میں اس کا کئی بار انٹروگیشن کیا گیا۔
شاید میں نیا چہرہ تھا، و ہ بار بار شک کی نگاہ سے مجھے دیکھتے تھے۔ میں نے اپنے آپ کو ایک انجینئرنگ اسٹوڈنٹ بتایا، جس کو کشمیر میں حالات کی خرابی کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی ہے۔
ایودھیا پہنچنے پر ایک بار پھر چھ سات افراد نے انٹروگیشن کیا۔ کشمیری پنڈت ہونے کی دہائی دےکر آخر کار اس کو کارسیوکوں کے ایک گروپ میں شامل کرکے خیمہ میں رہنے کے لیے کہا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:بابری مسجد مذہب کے لیے نہیں، اقتدار حاصل کر نے کے لیے مسمار کی گئی تھی: آنند پٹوردھن
واکی ٹاکی ہاتھ میں لیے ایک سادھو اس گروپ کا سربراہ تھا، جس نے اگلے دن ایک قبرستان میں لے جاکر ان کو قبریں منہدم کرنے کا حکم دے دیا۔ وہ بار بار ان کو تاکید کر رہا تھا کہ ہاتھ چلانا سیکھو۔ کارسیوک آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ اسی طرح مسجد کو بھی توڑنا ہے۔ سادھو نے اس کو خبردار کیا تھا کہ صحافی یا خفیہ محکمہ کا کوئی فرد ان کے آس پاس نہ پھٹکنے پائے۔ بار بار کے انٹروگیشن، ریہر سہل اور صحافیوں کے تئیں کارسیوکوں کے رویہ نے کاؤ کو کافی ڈرا دیا۔
رات کے اندھیرے میں وہ خیمہ سے بھاگ کر پہلے فیض آباد اور پھر دہلی روانہ ہوگیا، جہاں اس نے اسٹیٹس مین میں کئی قسطوں میں چھپی رپورٹوں میں بتایا کہ مسجدکی مسماری کی تیاریاں پوری طرح مکمل ہیں۔
دنیا کو مسجد کی شہادت کی خبر دینے والے صحافی قربان علی کے مطابق شام چھ بجے تک تاریخی شاہی مسجد کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ وہ بی بی سی کے جنوبی ایشیاکے بیورو چیف مارک ٹلی کے ساتھ کئی روز سے ایودھیا میں مقیم تھے۔ ان کا کہنا ہے گو کہ افواہوں کا بازار گرم تھا، مگر مسجد کی مسماری کا اندازہ نہیں تھا۔ ہندوستانی وقت کے مطابق 11:30بجے صبح کارسیوکوں نے مسجد پر دھاوا بول دیا۔ اس کے ساتھ ایک اور گروپ صحافیوں کو ڈھونڈکر ان کو پیٹ پیٹ کر کمروں میں بند کر رہا تھا۔
مارک ٹلی اور علی ان کو جل دیکر کسی طرح ایودھیا سے نکل کر فیض آباد پہنچے، اور وہاں کے ٹیلی گراف آفس سے دہلی خبر بھیجی۔ اس وقت فیض آباد میں مقیم سینٹرل ریزور پولیس فورس کے دستوں نے ایودھیا کی طرف مارچ کرنا شروع کر دیا تھا۔ یہی آخری خبر تھی، جو دہلی تک پہنچ سکی تھی۔ واپسی پر ان دونوں صحافیوں نے دیکھا کہ سینٹرل فورس کو ایودھیا کے باہر ہی روک لیا گیا ہے۔ خیر وہ دوسرے راستے سے ایودھیا شہر میں داخل ہوئے اور ایک ہجوم نے مارک ٹلی کو پہچان کر ان دونوں کو ایک بوسیدہ مندر کے کمرے میں بند کردیا۔
وہ پہلے ہمارے قتل کے لیے آپس میں مشورہ کررہے تھے۔ پھر ان کے سربراہ نے ان کو بتایا کہ پہلے مسجد کا قضیہ نپٹے، یعنی پوری طرح مسمار ہو، پھر ان کی تقدیر کا فیصلہ کریں گے۔
شام کو کسی دوسرے گروپ نے تالا کھولا اور ان کو وی ایچ پی کے سربراہ اشوک سنگھل کے دربار میں حاضر کروایا، جو قربان علی اور مارک ٹلی سے واقف تھے۔ انہوں نے ان کو رہا کرادیا۔ مگر شہر سے جانا ابھی بھی جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ علی کا کہنا ہے کہ ایودھیا سے فیض آباد کی محض دس کیلومیٹر کی دوری اس دن کئی سو کیلومیٹر کا ٖفاصلہ لگ رہا تھا اور جب وہ فیض آباد کے ہوٹل میں داخل ہو رہے تھے تو اس وقت بی بی سی اردو کی رات کی نشریات جاری تھیں، جس نے ان سے فون پر بات کرکے دنیا تک خبر پہنچائی۔
معروف قانون داں اور مصنف اے جی نورانی نے اس موضوع پر اپنی کتابDestruction of Babri Masjid:A National Dishonour کی تیسری جلد میں بابری مسجد کی ڈھانے کی سازش پر خوب بحث کی ہے۔ ان کے بقول مسجد کی شہادت میں ہندوستانی عدلیہ اور انتظامیہ نے بھر پور کردار ادا کرکے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کی پول کھول دی ہے۔نہ صرف نچلی عدالتوں کے لیت و لعل سے بلکہ اس وقت کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس وینکٹ چلیا کے طریقہ کار نے بھی مسجد کی مسماری کی راہ ہموار کردی۔
نورانی نے انکشاف کیا کہ جسٹس چلیا مسجد کو بچانے اور آئین اور قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کے بجائے کار سیوکوں کی صحت سے متعلق فکر مند تھے۔غالباً یہی وجہ تھی کہ 1998 میں بی جے پی کی قیادت والی مخلوط حکومت کے قیام کے بعد ان کو شاید انہی خدمات کے بدلے ایک اعلیٰ اختیاری کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ سابق سکریٹری داخلہ مادھو گوڈبولے کے مطابق ان کو بھی مسجدکی شہادت کی تیاری کی اطلاع تھی، اسی لیے ان کے محکمہ نے ریاست اتر پردیش میں گورنر راج نافذ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔مگر وزیراعظم نرسمہا راؤ نے اس کو نامنظور کر دیا۔
نورانی کا کہنا ہے کہ راؤ خود، مسجد کی شہادت میں بلا واسطہ ملوث تھے۔ ان کے مطابق کانگریس کے اندرا گاندھی کے دور اقتدارمیں ہی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے لئے وشو ہندو پریشد کے ساتھ ایک ڈیل ہوئی تھی۔گوکہ پریشد نے اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد اپنی تحریک روک دی مگر راجیو گاندھی نے اس ڈیل کو پھر زندہ کیاتاہم، اس سے پہلے وہ مسلمانوں پر کوئی احسان کرنا چاہتے تھے۔اس کے لیے ان کے حواریوں نے ایک مسلم مطلقہ خاتون شاہ بانو کا قضیہ کھڑا کیا اور پارلیامنٹ سے ایک قانون پاس کروایا کہ مسلم پرسنل لا میں عدالت کوئی ترمیم نہیں کر سکتی۔
مصنف کے بقول انہوں نے راجیو گاندھی کو مشورہ دیا تھا کہ اس قضیہ کو کھینچنے کا کو ئی فائدہ نہیں ہے، اور اس کو اینگلو محمڈن قانون کے بجائے شرعی قانون کے مطابق حل کیا جاسکتا ہے،مگر وہ مسلمانوں کو سیاسی بیوقوف بنانے پر تلے ہوئے تھے تاکہ پریشد کے ساتھ ڈیل کو آگے بڑھایا جاسکے۔ اور یہی ہوا۔بابری مسجد کو مسمار کرنے، اس کے قصور واروں کو سزا سے بچانے میں ہندو قوم پرستوں سمیت سیکولر جماعتیں کے دامن بھی خون سے آلودہ ہیں۔ اس حمام میں سب ننگے تھے۔ بابری مسجد نے شہادت کے بعد ان سبھی چہروں سے نقاب اتار کر پھینک دیے ہیں اور اگر ابھی بھی کسی کو یہ چہرے اصل روپ میں نظر نہ آتے ہوں، تو یقیناً ان کی دماغی حالت پر شبہ کے علاوہ اور کیا ہی کیا جاسکتا ہے۔
Categories: فکر و نظر