بہارکے انتخابی نتائج کا ہندوستان کے مجموعی سیاسی نقشہ پراثر اندازہونا یقینی ہے۔کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے دوران مہاجربہاری مزدوروں کی مشکلات کا ازالہ کرنے میں ناکامی کی وجہ سے جب بی جے پی نے دیکھا کہ اس کا’وکاس’کا نعرہ کام نہیں کر رہا ہے، تو وہ اپنی سابقہ روش پر اتر آئی ہے۔
نوے کی دہائی کے اوائل میں دہلی میں صحافت شروع کرتے ہی ایک بارمغربی بنگال کے ریاستی دارالحکومت کولکتہ میں منعقدہ ایک کانفرنس کو ر کرنے کا حکم صادر ہوا۔ سپر فاسٹ ڈی لکس ٹرین جب صبح سویرے پو پوٹھنے سے قبل، اتر پردیش کے آخری اسٹیشن مغل سرائے (اب دین دیال اسٹیشن)پہنچی، تو ڈبے میں چہ می گوئیاں ہو رہی تھیں کہ صوبہ بہار آرہا ہے، لوگ اپنا ساز و سامان چیک کرکے بساط کے مطابق محفوظ جگہوں پررکھ رہے تھے۔
میں پہلی بار اس لائن پر سفر کر رہا تھا۔ اگلاپڑاؤ بہار کا پہلا اسٹیشن بکسر تھا۔ پلیٹ فارم پر اتر کر چائے کا ایک کپ لےکر جب واپس برتھ پر لوٹا، و ہاں حشر برپا تھا۔ کئی افراد میرے برتھ پر برا جمان تاش کھیل رہے تھے۔ یہی حال دیگر سیٹوں کا بھی تھا۔ میں نے ٹکٹ ہاتھ میں لےکر دہائی دی کہ یہ میرا ریزروڈ برتھ ہے۔ بتایا گیا کہ یہ بہار ہے، اب ٹکٹ یا ریزرویشن کی کوئی وقعت نہیں ہے۔
بس جن افراد نے میرے برتھ پر قبضہ کیا تھا، انہوں نے سکڑ کر بیٹھنے کے لیے تھوڑی سی جگہ خالی کرکے دےدی۔ میں سوچ رہا تھا کہ ٹرین کی روانگی کے بعد ٹکٹ چیکریا ٹی ٹی سے شکایت کرکے برتھ خالی کرواؤں گا۔ مگر اس کا کہیں اتہ پتہ نہیں تھا۔ اگلے آٹھ گھنٹے نفسا نفسی کا عالم تھا۔ مغربی بنگال کی سرحد عبور کرنے سے قبل دھنباد اسٹیشن سے دوبارہ نظم و ضبظ بحال ہوکرمیرا برتھ واگذارہوا اور ٹی ٹی پھر نمودار ہوکر ٹکٹ وغیرہ چیک کرنے لگا۔
معلوم ہوا کہ بہار کی سرحد شروع ہوتے ہی، ہجوم کے ڈر سے ٹی ٹی وردی اتار کر اپنی سرکاری ہیکٹری طاق پر رکھ کر عام مسافر وں میں گھل مل جاتا ہے۔ اس صوبہ کی سرحد ختم ہوتے ہی اس کو اپنی سرکاری حثیت دوبارہ یاد آجاتی ہے۔
آبادی کے لحاظ سے ہندوستان کے تیسرے بڑے صوبہ بہار میں تین مرحلوں پر محیط ریاستی اسمبلی کے انتخابات کا عمل اس وقت جاری ہے۔ 10 نومبر کو ووٹ شماری کے بعد نتائج کا اعلان کیا جائےگا۔ اگرچہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ صوبے میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، مگر ملک بھر میں موجودہ تشویش ناک حالات کے پیش نظر یہ انتخابات کئی اعتبار سے بہت زیادہ اہمیت اختیارکرگئے ہیں۔
اس صوبہ میں فرقہ واریت اور فسطائت کا زہر سوسائٹی میں اتنا پھیلا ہو انہیں تھا، جس قدر ملک کے مختلف حصوں کو اس نے لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ہاں ذات پات کا نظام یہاں رگوں میں رچا ہوا ہے۔ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)اس صوبہ اور پھر اس سے متصل مغربی بنگال میں اپنے بل بوتے پر قدم جمانے کے لیے کوشاں ہے۔ صوبہ کی نو کروڑ آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 16.9فیصد ہے۔
سال2014میں ہوئے پارلیامانی انتخابات کے دوران تقریباً 20 دن اس صوبے کے طول و عرض کی خاک چھاننے اور 2500 کیلومیٹرکا سفر طے کرنے کے بعد مجھے ا دراک ہوا کہ جمہوریت کی دیوی کے ظہورکے بعد بھی عام آدمی کا کیسے استحصال ہوتا ہے۔ دارالحکومت پٹنہ سے متصل ضلع سمستی پور میں مجھے غربت اور ذات پات کی چکی میں پسے موساہاری طبقے کو دیکھنے کا موقع ملا۔
یہ سب سے نچلے درجے کے دلت ہیں۔ جو پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کھیتوں اورگھروں میں چوہے پکڑ کر اور انہیں بھون کر کھاتے ہیں۔ پٹنہ سےتقریباً150کیلومیٹر دوردربھنگہ ضلع کے ایک دور افتادہ علاقے پالی میں مجھے ایک ہجوم نے گھیر لیا۔ یہ معلوم ہونے پرکہ دہلی سے ایک صحافی ان کی خیر خبر لینے آیا ہے تو انہوں نے اپنے گاؤں کا واحد مسئلہ بجلی کا خراب ٹرانسفرمر بتایا اور اصرار کیا کہ میں اسے ٹھیک کروانے میں ان کی مدد کروں۔
جب اس جلوس کے ہمراہ مجھے ٹرانسفرمر کے پاس لے جا یا گیا تو یہ کسی بھی صورت میں بجلی کا ٹرانسفرمر نہیں لگ رہا تھا۔ یہ افتاد زمانہ کی شکار لوہے کی کوئی زنگ آلود شیٹ جیسی کوئی چیز تھی، جو لگ رہا تھا کہ شاید کھدائی کے دوران ان کو ہاتھ لگی ہو۔
پہلے میں نے ان سے بحث کی کہ یہ ٹرانسفرمر نہیں ہے، بعد میں جب میں نے پوچھا کہ یہ کب سے خراب ہے تو پہلے وہ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے، پھر ایک خاتون نے مسئلہ حل کرتے ہوئے کہا، گڈوکی پیدائش کے دوسرے دن ٹرانسفرمر جل گیا تھا۔ اب مجھے گڈوکو دیکھنے کا اشتیاق ہوا جس کے آنے سے گاؤں کی بتیاں گل ہوگئی تھیں۔ مجھے توقع تھی کہ یہ کوئی شیر خوار بچہ ہوگا مگر جب ایک ہٹا کٹا نوجوان جو میٹرک میں کئی بار فیل ہونے کے بعد کھیتی باڑی کر رہا تھا، میرے سامنے آکر کھڑا ہوا تو میں حیرت زدہ رہ گیا۔
معلوم ہوا کہ بارمبورہ کے اس گاؤں کی بجلی پچھلے 24 سالوں سے بند ہے۔ ٹرانسفرمر کی مرمت کے لیے انہوں نے ہر دروازے پر دستک دی ہے، مگر بے سود۔گاؤں کا سرپنچ رام چودھری لوگوں کوبتا رہا تھا کہ دہلی میں اب کوئی نریندر مودی وزیر اعظم بن رہا ہے اور اس کے آنے سے ٹرانسفرمر ٹھیک ہو جائے گا۔ دیہاتی تصدیق چاہ رہے تھے کہ کیا واقعی مودی اتنا طاقتور اور با اثر ہے کہ وہ ان کا ٹرانسفرمرٹھیک کرواسکے۔
اس مقام سے 10کیلومیٹر دور ایک اور گاؤں تومول میں بجلی تو تھی مگر عملے نے کھمبوں کی خریداری کے لیے ملنے والی رقم اپنی جیبوں میں رکھ لی تھی اوربجلی کے تار بانس کے ڈنڈوں کے سہارے کھڑے تھے۔ یہ ڈنڈے بھی دیہاتیوں سے ہی وصول کیے گئے تھے۔کئی جگہوں پر یہ برقی تار اتنی پست تھے، بتایا گیا کہ اس سے متعدد انسانوں اور جانوروں کی جانیں تلف ہو چکی تھیں۔وہ لوگ بجلی کو ہٹانے کی مانگ کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ بجلی کے بغیر ہی ٹھیک تھے۔ ایک اور گاؤں داؤدی بجلی کے سب اسٹیشن کے بالکل سامنے ہونے کے باوجود بجلی سے محروم تھا۔ میں نے جب اسٹیشن میں موجود انجینئر سے اس کی وجہ جاننی چاہی تو اس نے بتایا کہ 10سال قبل اس کے پیش رو نے 500 میٹر تار خریدنے کی خاطر فنڈزکے لئے فائل حکام کو روانہ کی تھی مگر ابھی تک اس پر کارروائی نہیں ہوئی۔ پڑوسی ضلع بیگو سرائے کے صاحب پور میں 1984میں بجلی آئی تھی مگر اسی سال سیلاب کھمبوں اور تاروں کو بہا کر لے گیا اور30 سال بعد بھی کسی کو یہ کھمبے دوبارہ نصب کرنے اور بجلی بحال کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔
سمستی پور میں سماجیات کے ایک ریٹائرڈ پروفیسر دھرمیندرکمار نے جو مختلف یونیورسٹیوں کی خاک چھاننے کے بعد اب اپنے آبائی گاؤں واپس آکرکھیتوں کی نگرانی کر رہے تھے، بتایا کہ ایک دن اخبار میں انہوں نے پڑھا کہ ان کے کھیت کے پاس ایک ناکارہ اور زنگ آلود ٹیوب ویل کی مرمت کے لیے حکومت نے رقم خرچ کی ہے۔ جب انہوں نے حق اطلاعات قانون کا استعمال کرکے تفصیلات جاننی چاہی تو معلوم ہوا کہ پچھلے آٹھ برسوں کے دوران متواتر سرکاری فائلوں میں اس ٹیوب ویل کی مرمت پر رقوم خرچ ہوتی رہی ہیں۔
بہارکے انتخابی نتائج کا ہندوستان کے مجموعی سیاسی نقشہ پراثر اندازہونا یقینی ہے۔کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے دوران مہاجربہاری مزدوروں کی مشکلات کا ازالہ کرنے میں ناکامی کی وجہ سے جب بی جے پی نے دیکھا کہ اس کا’وکاس'(ترقی)کا نعرہ کام نہیں کر رہا ہے، تو وہ اپنی سابق روش پر اتر آئی ہے اور کشمیر کی خصوصی کو حیثیت ختم کرنے اور رام مندر بنانے کے اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کو بھنا کر ووٹ مانگ رہی ہے۔
گزشتہ 2015 کے اسمبلی انتخابات میں لالو پرساد یادو کی راشٹریہ جنتا دل اور نتیش کمار کی جنتا دل یونائیٹد نے سیکولر گرینڈ الائنس قائم کرکے ماضی کی تلخیاں فراموش کرکے ہاتھ ملا لیا تھا۔ اس کے نتیجے میں ریاست کا انتخابی منظر نامہ اعلیٰ‘ ذات بمقابلہ پسماندہ ذات میں تبدیل ہوگیا تھا۔ اسی لیے اپنی تمام تر طاقت اور توانائی جھونکنے کے باوجود، بی جے پی کو سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سیکولر الائنس،نے 245 رکنی ایوان میں 178 نشستیں حاصل کرکے واضح اکثریت حاصل کرلی تھی۔
بی جے پی کی قیادت والے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کو صرف 58 سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا ہے۔ مگر دو سال بعد یعنی 2017 میں وزیراعلیٰ نتیش کمار نے راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس سے ناطہ توڑ کر بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ موجودہ انتخابات وہ بی جے پی کے ساتھ مل کر لڑ رہے ہیں، اس لیے سیاسی منظر نامہ بالکل مختلف ہے۔
حیدراباد دکن کے رکن پارلیامنٹ اور مجلس اتحادالمسلمین کےصدراسد الدین اویسی نے بھی اس بار دس امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ پچھلے بار انہوں نے چھ امیدوار میدان میں اتار ے تھے۔ وہ بھی ایک اور گرینڈ ڈیموکریٹک سیکولر فرنٹ اتحاد کا حصہ ہیں، جس میں دوسری اہم پارٹی دلتوں کی بہوجن سماج پارٹی ہے۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ بہارکی سیاست میں ذات پات کا غلبہ ہے اور اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتاکہ وہاں کے رائے دہندگان اجتماعی اورانفرادی مسائل سے زیادہ اپنی اپنی ذات (caste) کو ترجیح دیتے ہیں۔
جب ایک اعلیٰ ذات بھومیہار گاؤں میں معمر سچدانند پاٹھک سے میں نے پوچھا تھا کہ وہ کس کو ووٹ دیں گے، تو ان کا جواب تھا کہ”ووٹ اور بیٹی اپنی ذات والوں کی ہی دی جاتی ہے۔“بہار کی آبادی میں مختلف ذاتوں اور فرقوں کا تناسب کچھ اس طرح ہے؛دیگر پسماندہ طبقات (OBC) کا تناسب 51 فی صد (ان میں یادو 14 فی صد، کرمی 4 فی صد اور کوئری 8 فی صد) نیزانتہائی پسماندہ طبقات یا EBC کا تناسب 24 فی صد بشمول کشواہا چار فی صد اور تیلی 3.2 فی صد۔ مہا دلت 10 فی صد اور دلت 6 فی صد (جس میں پاسوان،دسادھ چار فی صد ہیں)۔ پیدائشی مراعات یافتہ یعنی اعلیٰ ذات طبقات 15 فی صد (بھومی ہار 6 فی صد، براہمن 5 فی صد، راجپوت 3 فی صد، اور کائستھ ایک فی صد)۔ قبائلی (ایس ٹی) 1.3 فی صد اوردیگر فرقے 1 فی صد (بشمول عیسائی، سکھ اور جین)۔
گو کہ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق نیشنل ڈیموکریٹک الائنس یعنی بی جے پی-جنتا دل (یونائیٹڈ)کو سبقت حاصل ہے، مگرسیکولر گرینڈ الائنس کی اہم پارٹی راشٹریہ جنتا دل کے محبوس قائد لالو پرساد یادو کے فرزند تیجسوی یادو، کے جلسوں میں جس طرح کی بھیڑ امنڈ آرہی ہے، اس سے لگتا ہے کہ مقابلہ خاصہ سخت ہوگا۔ دوسری طرف اسدالدین اویسی کے جلسوں میں بھی خاصی بھیڑ نظر آرہی ہے۔
بہار کی تاریخ میں1989میں ایک غریب اور پسماندہ خاندان سے تعلق رکھنے والے فرد لالو پرساد یادو کا وزیر اعلیٰ بننا ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب وہ اقتدار میں آئے، تو بہار او رجھارکھنڈ ایک ہی ریاست تھی، اور اسمبلی کے 324اراکین میں 230اونچی ذاتوں کے زمیندار تھے۔ لالو نے سیاست کو ان کے آہنی پنجے سے آزاد کروانے میں کامیابی توحاصل کی، مگر بدقسمتی سے اس کے بعد ان کے پاس کوئی وژن نہیں تھا۔بجائے میرٹ کے وہ بھی کانگریس کی طرح خاندانی راج کی طرف گامزن ہوئے۔
اس حد تک جب 1997میں مویشیوں کے چارہ گھوٹالہ(جس کہ وجہ سے وہ فی الوقت جیل میں ہیں)کے طشت از بام ہونے سے ان کو استعفیٰ دینا پڑا، بجائے زمام اقتدار کسی پارٹی لیڈر کو سونپے کے، انہوں نے اپنی آٹھویں جماعت پاس بیوی رابڑی دیوی کو وزارت اعلیٰ کی کرسی پر بٹھایا۔ مجھے یاد ہے کہ اس دوران ایک بار پٹنہ میں ان کی رہائش پر صبح سویرے ملاقات کے لیے حاضر ہوا، تو وسیع و عریض لان میں لالو یاد وکی صدارت میں محفل جمی تھی۔
ان کی اہلیہ، جو وزیرا علیٰ تھی، ان کے کپڑے نکال کر ان کو دے رہی تھی۔ ناشتہ کرتے ہوئے، وزیرا علیٰ کا پرنسپل سکریٹری ہاتھ میں کوئی فائل لیے ہوئےان کو بریف کرنے کی کوشش کررہا تھا، تاکہ کسی معاملہ میں ہدایت حاصل کرے، تو لالو اس کو بری طرح جھڑک رہے تھے، کہ وہ عوام سے گفتگو کر رہے ہیں۔ گفتگو کیا تھی، بس لطیفے سنائے جا رہے تھے۔ جہان آباد ضلع سے یادو ذات کا ایک وفد اپنے علاقے میں اسکول کھلوانے کے لیے فریاد لےکر آیا تھا۔ تو لالو ان کی حوصلہ شکنی کرکے کہہ رہے تھے، ”تمہاری اولاد تو اسکول مکمل کرے گی نہیں، بھومیہار کا بچہ ہی پڑھ کر، بابو بن کر تمہارے سینے پر بیٹھے گا۔ اس لیے کوئی اور مطالبہ کرو۔“
مگر اس کے باوجود ان کے اور ان کی اہلیہ کے 13سالہ دور اقتدار میں پچھڑی ذاتیں خاص طور پر ان کی اپنی یادو برادری اعلیٰ تعلیم کی طرف بڑی تعداد میں راغب ہوگئی اور اور نوکریوں میں بھی ان کو وافر مواقع فراہم ہوئے، جو بہار میں قدم قدم پر نظر آتا ہے۔
دربھنگہ کی متھلا یونیورسٹی میں کئی یادو طلبہ اور اساتذہ نے کہا کہ ان کی پڑھائی وغیرہ بس لالو حکومت کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی ہے۔ گو کہ ان کے دور میں ہر قدم کو ذات پات کی عینک سے دیکھنے کو بڑھاوا تو ملا، مگر انہوں نے فرقہ واریت پر لگام کس دی۔ 1989میں بھاگلپور میں ہوئے ہندو مسلم فسادات کے بعد اس صوبہ میں کوئی اور بڑا فساد نہیں ہوا۔
کاش لالو یادو اپنے سوشلسٹ ہونے کا بھرم رکھ کر، خاندانی راج کے بجائے، میرٹ پر اپنی پارٹی کی بنیاد رکھتے، بد عنوانی پر لگام لگا کر نظم و نسق پر کچھ توجہ دیکر، تعمیر و ترقی پر بھی دھیان مرکوز رکھتے، تو نہ صرف بہار بلکہ ہندوستان کی بھی قسمت ان کی لیڈرشپ میں بدل سکتی تھی اور فرقہ واریت کے زہر کو تریاق بھی میسر ہوتا۔
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر