گجرات 2002کے مسلم کش فسادات کے بعد سیکولر اور لبرل طاقتوں نے کانگریس کو اقتدار میں پہنچایا تھا، اس لیے کئی تنظیموں کا کہنا تھا کہ اس قتل عام میں ملوث سیاسی لیڈران بالخصوص نریندر مودی پر قانون کا شکنجہ کسنا چاہیے۔کئی مقتدر کانگریسی لیڈران بھی اس پر مصر تھے، مگر احمد پٹیل نے دلیل دی کہ مودی کا سیاسی طور پر مقابلہ کرنا چاہیے۔اس طرح ایک گجراتی نے دوسرے گجراتی کو قانونی شکنجہ سے بچاکر کئی سال بعد اس کے لیے وزارت اعظمیٰ کی کرسی تک پہنچنا آسان بنایا۔
ہندوستانی پارلیامنٹ کمپلیکس کے بالکل سامنے ہی جامع مسجد نئی دہلی واقع ہے۔ اکثر عشا کی نماز کے بعد کونے میں ایک شخص مسجد کے مقفل ہونے تک خشوع و خضوع کے ساتھ نمازیں ادا کرتا ہوا نظر آتا تھا۔ یہ شخص اور کوئی نہیں بلکہ ہندوستان کی سب سے بڑی اپوزیشن کانگریس پارٹی کے صدر سونیا گاندھی کے سیاسی مشیر احمد پٹیل ہوتے تھے، جو کورونا وائرس کا شکار ہوکر 25نومبر کو داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔
پچھلے ڈیڑھ سال کے عرصے میں یکے بعد دیگرے ہندوستانی سیاست کے تین اہم بیک روم بائز ارون جیٹلی، امر سنگھ اور اب احمد پٹیل کے انتقال سے ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے، جس کو پر کرنا نا ممکن لگتا ہے۔ جیٹلی اور امر سنگھ نجی ملاقاتوں میں تو اکثر اپنے کارنامے بیان کرکے خو نمائی کرتے رہتے تھے، مگر احمد پٹیل نام و نمود سے دور رہتے تھے۔ 1998میں کانگریس کی صدارت کا عہدہ سنبھالتے ہی، سونیا گاندھی نے ان کو اپنا سیاسی مشیر مقرر کردیا۔ یعنی 2017میں راہل گاندھی کے صدر بننے تک19 سال تک وہ اس عہدہ پر فائز رہے۔
ان کے عاجزانہ رویہ اور حلیم طبیعت کو دیکھ کر نہیں لگتا تھا کہ اس شخص کے ایک اشار ے پر وزیروں کی قسمت کے فیصلے ہوتے ہوں گے اور اس کی صوابدید پر ہی 2004سے 2014یعنی کانگریس کی زیر قیادت من موہن سنگھ حکومت کے دس سال میں وزیر اور مشیر مقرر ہوتے تھے۔ ولنگٹن کریسنٹ پر ان کا چھوٹا سا بنگلہ بھی عام گزر گاہ سے ہٹ کر ہی تھا۔ عجیب بات تھی کہ ان کا کام کے اوقات عشا کی نماز کے بعد شروع ہوتے تھے اور رات بھر وہ فائلوں کا معائنہ کرکے اور فون پر کالز کا جواب دےکر فجر کے بعد سونے کے لیے چلے جاتے تھے۔
اس دوران ان کے بنگلے پر بڑے بڑے جگادری سیاستدان ان کی نگاہ کے مشتاق رہتے۔ ایک بار جب ان سے میں ملنے گیا، تو دیکھا کہ ملاقاتی کمرے میں راجیہ سبھا کے نائب چیئرمین کے رحمان خان انتظار کر رہے تھے۔ حیرت ہوئی کیونکہ پارلیامنٹ میں تو نائب چیئرمین کے جلوے ہوتے ہیں اور احمد پٹیل تو بس ایک ممبر پارلیامان ہی تھے۔ مجھے اندر بلایا گیا تو میں سمجھا کہ شاید ان کو خان صاحب کے بارے میں پتہ نہیں ہے۔
میں نے ان کو بتایا کہ چیئرمین صاحب باہر بیٹھے ہیں وہ بس مسکرا کر رہ گئے اور بتایا کہ وہ جس کام کے لیے آئے ہیں، اس کے لیے وہ طویل انتظار کی کوفت برداشت کر سکتے ہیں۔ اسی طرح ان سے ملاقات کے لیے متعدد وزیروں حتیٰ کی لوک سبھا کی اسپیکر میرا کمار کو بھی لائن لگائے ہوئے دیکھا ہے۔
احمد پٹیل، جو احمد بھائی کے نام سے مشہور تھے، سے کسی خبر کی امید کرنا ہی عبث تھا۔ ان کا سینہ ہندوستانی سیاست کے رازوں کا ایک بیش بہا خزانہ تھا، جس کی وہ حفاظت کرتے تھے۔ بس اگر خبر آپ کے پاس ہے تو اس کی تصدیق یا تردید وہ کرتے تھے۔ اس معاملے میں وہ صحافیوں کو گمرا ہ نہیں کرتے تھے۔ لہذا اگر وہ کسی خبر کی تردید کرتے تھے تو اتنا یقین تھاکہ وہ چھپا نہیں رہے ہیں۔
دن میں ان کو کسی خبر کی تردید یا تصدیق کے لیے فون کرتے تھے، تو یہ طے تھا کہ وہ واپس کال یا پیغام کا جواب آدھی رات کے بعد ہی دیں گے۔ اگست 2011کو جب میں تہلکہ گروپ میں کام کرتا تھا، تو معلوم ہوا کہ کچھ عرصے سے سونیا گاندھی کسی تقریب میں نظر نہیں آرہی ہے اور اس نے ملاقاتیں بھی منسوخ کی ہیں۔ آخر پتہ چلا کہ وہ ملک سے باہر چلی گئی ہیں۔ ان کا یہ دورہ انتہائی خفیہ کیوں رکھا گیا اس کی کوئی تاویل سمجھ میں نہیں آرہی تھی؟
اس خبر پر کام کرنے کے دوران یہ معلوم ہوگیا کہ سونیا گاندھی کا کچھ عرصے قبل دہلی کے گنگا رام اسپتال میں معا ئنہ ہوا ہے اور ان کو امریکہ میں علاج کروانے کی صلاح دی گئی ہے۔ مگر دفتر میں بتایا گیا کہ یہ ایک بڑی خبر ہے، جو بغیر تصدیق کے جاری نہیں ہوسکتی ہے۔ آخر اسی طرح احمد بھائی کو فون لگایااور حسب معمول آدھی رات کے بعد، ان کا واپس فون آیا اور کہا کہ ہاں، نیویارک کے کینسر اسپتال میں ان کا آج آپریشن ہوا ہے۔
اگلے روز اسپتال کا پتہ لگانے اور دیگر ذرائع سے مزید معلومات حاصل کرنے کے بعد تہلکہ نے یہ خبر بریک کی۔ چند لمحوں کے بعد ہی موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ٹوئٹر پر اس کی خوب تشہیر کر کے سوال اٹھایا کہ سونیا گاندھی کی بیماری کو کیوں چھپایا جا رہا ہے؟
کانگریس کا سیشن ہو یا کوئی اور تقریب،احمد بھائی اس کی پوری تفصیلات یعنی اسٹیج سے لےکر ساؤنڈ سسٹم، مہمانوں کی آمد اور ان کی نشستیں مخصوص کرنا وغیرہ خود طے کرتے تھے۔ سبھی انتظامات کے بعد وہ خود کسی کونے میں عام کارکنان کے ساتھ بیٹھ جاتے تھے یا منظر سے غائب ہوجاتے تھے۔ اگر کانگریس ورکنگ کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے اسٹیج پر بیٹھنا بھی پڑتا تو آخری قطار کو منتخب کرتے۔ صدارتی محل میں کوئی تقریب ہو یا کسی غیر ملکی مہمان کی آمد ہو، وہ کسی بھی ضیافت یا تقریب میں شامل نہیں ہوتے تھے۔
سال 2008کو بائیں بازو کی پارٹیوں نے امریکہ کے ساتھ جوہری توانائی کے معاہدہ کو لےکر، جب من موہن سنگھ حکومت سے حمایت واپس لےکر پارلیامنٹ میں تحریک عدم اعتماد پیش کی، تو احمد بھائی نے آنجہانی امر سنگھ کے ذریعے سماج وادی پارٹی کے سربرا ہ ملائم سنگھ یادو کا دروازہ کھٹکٹھایا۔
بائیں بازو اور اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی کو یقین تھا کہ شوشلسٹ ہونے کے ناطے ملائم سنگھ یاد کی سماج وادی پارٹی حکومت گرانے میں ان کا ساتھ دےگی۔ مگر احمد بھائی نے امر سنگھ اور ملائم سنگھ کی ملاقات سبکدوش صدر اے پی جے عبدالکلام سے کروائی، جس نے ان کو اس جوہری ڈیل کے فائدے گنوائے۔ چونکہ عبدا کلام سائنسداں اور مسلمان بھی تھے، اس لیے ان کا نام لےکر سماج وادی پارٹی نے اعلان کردیا کہ ان کی وجہ سے وہ اس ڈیل کی حمایت کرکے ایوان میں حکومت کے حق میں ووٹنگ کریں گے۔
چونکہ من موہن سنگھ حکومت اتحادیوں کی حمایت پر ٹکی ہوئی تھی، اس لیے پارلیامنٹ سیشن کے دوران کسی بل کو پاس کروانے کے لیے سینٹرل ہال میں اپوزیشن اور اتحادیوں کو احمد بھائی را م کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔ دسمبر 2011کو ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں لوک پال (قومی محتسب) کا بل زیر بحث تھا۔ عوامی دباؤ اور پے درپے کورپشن اسکینڈلز کے طشت از با م ہونے کی وجہ سے حکومت یہ بل پارلیامنٹ میں تو لائی تھی، مگر اس کو پاس نہیں کروانا چاہتی تھی۔
جب اس دوران احمد بھائی سے پوچھا کہ آخر لوک پال کی تعیناتی سے وہ خائف کیوں ہیں، تو ان کا کہنا تھا کہ کسی ایک ادرارے یا شخص کوو زیر اعظم کے سر پر بٹھا یا جائے، تو احتساب کے نام پر ملکی استحکام داؤپر لگے گا۔ صدر پرنب مکھرجی نے اس بل پر بحث اور پاس کروانے کے لیے29دسمبر تک سیشن کی توسیع کی تھی۔ طے تھا کہ سبھی تقریروں کے اختتا م پر رات 11بجے بل پر ووٹنگ ہوگی۔ جب آخری تقریریں ہو رہی تھی، تبھی کانگریس کی اتحادی جماعت راشٹریہ جنتا دل کے راج بینی پرساد نے ایوان کے مرکز میں آکر بل کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ بس ہنگامہ ہوگیا۔
چیئرمین حامد انصاری نے آدھے گھنٹے کے لیےاجلاس ملتوی کیا۔ مگر ہنگامہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا کہ کلاک نے رات کے 12بجادئے اور انصاری نے اعلان کیا کہ ایوان کی نشست 29دسمبر تک ہی تھی، اس لیے اب کارروائی غیر معینہ مدت تک ملتوی کی جاتی ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سارا ڈراما احمد بھائی کی ایما پر ہی تشکیل دیا گیا تھا، تاکہ لوک پال کی تقرری کسی طرح فی الحال ٹل جائے۔
کہتے ہیں کہ جب 2004میں بی جے پی کی زیر قیادت قومی جمہوری اتحاد کو انتخابات میں شکست ہوئی اور من موہن سنگھ برسراقتدار آگئے، تو سبکدوش وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے نئی حکومت سے درخواست کی تھی کہ ان کے چارمنصوبوں جن میں امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنرشپ، پاکستان کے ساتھ امن مساعی، ملک میں دریاؤں کو آپس میں جوڑنا اور شمال،جنوب، مشرق سے مغرب تک ہائی وے کی تعمیر کے پروجیکٹس کو جاری رکھا جائے۔ بس دریاؤں کے منصوبے کو چھوڑ کر بقیہ سبھی ایشوز پر من موہن سنگھ نے کام جاری رکھ کے خاصی پیش رفت حاصل کی۔
یہ بھی پڑھیں:کانگریس میں احمد پٹیل کے بعد کون؟
ان انتخابات سے بس چند ماہ قبل واجپائی اسلام آباد کے دورہ کرکے پاکستانی صدر پرویز مشرف سے ملاقات کرکے لوٹے تھے۔ امن مساعی کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے 2007میں طے ہوگیا تھا کہ چونکہ سائچن گلیشیر اور سرکریک کے معاملے پر خاصی پیش رفت ہو چکی ہے اس لیے ان پر اگریمنٹ کرکے باقی مسائل کو حل کروانے کے لیے عوامی سطح پر ماحول تیار کیا جائے۔ فروری 2007کو پاکستان کے سکریٹری دفاع طارق وسیم غازی جب معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے دہلی وارد ہوئے اس سے چند روز قبل الیکشن کمیشن نے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کی صوبائی اسمبلی کے انتخابا ت کا اعلان کردیا تھا۔
مذاکرات سے ایک روز قبل سونیا گاندھی کی رہائش گاہ پر کانگریس کی اعلیٰ فیصلہ ساز مجلس ورکنگ کمیٹی کا اجلاس اتر پردیش میں امیدوار طے کرنے کے لیے بلایا گیا تھا۔ مگر اس میں سونیا گاندھی کی موجودگی میں احمد پٹیل نے من موہن سنگھ کو سائچن پر مذاکرات اور وہاں سے فوجوں کے انخلا کے سوال پر خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ میٹنگ میں موجود افراد کا کہنا ہے کہ اس طرح کی صورت حال میں سونیا گاندھی اکثر من موہن سنگھ کی حمایت میں کھڑی ہوجاتی تھی، مگر اس وقت و ہ خاموش رہی۔ احمد بھائی نے من موہن سنگھ کو بتایا کہ پاکستان کے ساتھ کسی اگریمنٹ کرنے سے اتر پردیش میں پارٹی کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ اجلاس جاری تھا کہ معلوم ہوا کہ شمال مشرقی ریاستوں کا دورہ کرتے ہوئے فوج کے سربراہ جنرل جے جے سنگھ نے سائچن سے فوجوں کے انخلا کی مخالفت کی ہے۔ جبکہ چند روز قبل کابینہ کی سلامتی سے امور کمیٹی کے اجلاس میں انہوں نے اس معاہدے کو منظوری دی تھی۔ احمد پٹیل کی یہ مخالفت پاکستان کے ساتھ امن مساعی کے تابوت میں ایک کیل ثابت ہوئی۔ اس کے فوراً بعد پاکستان میں وکلا کی ایجی ٹیشن نے مشرف کو داخلی طور پر الجھائے رکھا۔
کانگریس کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی نے من موہن سنگھ کو چوائس دی تھی، کہ پاکستان کے ساتھ امن مساعی یا امریکی کے ساتھ نیوکلیر ڈیل میں کسی ایک ایشو پر ہی وہ عوامی سطح پر رائے عامہ بنائے گی۔ اور وزیر اعظم نے نیوکلیر ڈیل کو ہی ترجیح دی۔ہندوستان کے موجودہ وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر، من موہن سنگھ حکومت کے دوران ایک سفارت کار تھے اور وزیر اعظم کے چہیتے افسروں میں تھے، کیونکہ نیوکلیر ڈیل کے حوالے سے انہوں نے امریکہ میں کافی کام کیا تھا۔
من موہن سنگھ ان کو 2013میں خارجہ سکریٹری بنانے والے تھے۔ مگر جب کئی وزراء نے احمد پٹیل سے شکایت کی کہ ایک ڈھیٹ امریکہ نواز افسر کو خارجہ سکریٹری بنانا کانگریس حکومت کو زیب نہیں دےگا، تو انہوں نے اس تقرری پر روک لگوا دی اور سجاتا سنگھ کے سر پر یہ تاج سجا۔ مگر 2015میں نئے وزیر اعظم نریندر مودی نے ان کو معزول کرکے جے شنکر جو بس کئی روز بعد ریٹائرڈ ہونے والے تھے کو سکریٹری خارجہ بنادیا۔
چونکہ گجرات میں برپا 2002کے مسلم کش فسادات کے بعد ہی سیکولر اور لبرل طاقتوں نے یکجا ہو کر کانگریس کا دامن تھا م کر اس کو اقتدار میں پہنچایا تھا، اس لیے کئی تنظیموں کا کہنا تھا کہ اس قتل عام میں ملوث سیاسی لیڈران بالخصوص وزیر اعلیٰ نریندر مودی پر قانون کا شکنجہ کسنا چاہیے۔
کئی مقتدر کانگریسی لیڈران اور وزرا پی چدمبرم اور کپل سبل بھی مودی کو قومی تفتیشی بیورو کے حوالے کرنے پر مصر تھے، مگر بتایا جاتا ہے کہ کانگریس ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں احمد پٹیل نے دلیل دی کہ مودی کا سیاسی طور پر مقابلہ کرنا چاہیے۔ اس طرح سے کہتے ہیں کہ ایک گجراتی نے دوسرے گجراتی کو قانونی شکنجہ سے بچاکر کئی سال بعد اس کے لیے وزارت اعظمیٰ کی کرسی تک پہنچنا آسان بنایا۔
بقول سونیا گاندھی وہ احمد بھائی کو تمام مسائل کو حل کرنے والا، مشکل کشا سمجھتی تھی۔ وہ انھیں ’احمد‘ کہہ کر پکارتی تھی۔ ان کی دوستی اور اثر کا دائرہ بے حد وسیع تھا، جس کی وجہ سے دوسری پارٹیوں کے رہنما ان پر اعتماد کرتے تھے۔ سینئر صحافی معصوم مراد آبادی کہتے ہیں کہ نئی دہلی کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کے وقت ایک دن پانی ختم ہو گیا۔ لوگ وہاں موجود واحد ٹیوب ویل کی طرف لپکے۔
احمد پٹیل اس کا ہینڈل گھما کر لوگوں کو وضو کرانے لگا۔ کئی افراد نے ان کوکہا کہ وہ اب ہینڈل چلاتے ہیں۔ مگر و ہ تیار نہیں ہوئے، جب تک جماعت کھڑی نہیں ہوئی، سبھی افراد کا انہوں نے وضو کروایا۔ وہ اکثر جمعہ کی نماز موتی لال نہرو روڑ کی سڑک پر واقع مسجد میں پڑھتے تھے، جو کانگریس صدر دفتر اور سونیاگاندھی کی رہائش گاہ کے قریب واقع تھی۔
اگر کبھی کانگریس سے متعلق کسی خبر کی تصدیق کی ضرور ت ہوتی تھی، تو میں بھی اسی مسجد میں نماز ادا کرنے پہنچ جاتا تھا۔ نماز کے بعد وہ کانگریس دفتر یا سونیا گاندھی کی رہائش گاہ تک پیدل ہی جاتے تھے اور اسی دوران ان سے خبر کے متعلق گفتگو بھی ہو جاتی تھی۔ وہ تین بار لوک سبھا کے رکن اور متعدد بار راجیہ سبھا کے رکن رہے۔
وہ 1949کو گجرات میں بھروچ ضلع کے پیرامل گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔چند سال قبل راجیہ سبھا کے انتخابات میں انہیں شکست دینے کے لیے نریندر مودی اور امت شاہ نے بہت کوششیں کیں۔ مگر وہ انہیں شکست نہیں دے سکے۔احمد بھائی کی اپنے لیڈر کے تئیں وفاداری، ذاتی ایمانداری، خود نمائی سے پرہیز، عاجزانہ شخصیت، اور رواداری ایسی خوبیاں تھیں، جو سیاسی گزر گاہوں میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔
موت کو سمجھتے ہیں غافل اختتام زندگی، ہے یہ شام زندگی، صبح دوام زندگی۔
Categories: فکر و نظر