الزام ہے کہ شرجیل امام نے نارتھ -ایسٹ کو ہندوستان سے کاٹ دینے کا اکساوا دیتے ہوئے بیان دیے تھے۔ انہوں نے اتنا ہی کیا تھا کہ سرکار پر دباؤ ڈالنے کے لیے راستہ جام کرنے کی بات کہی تھی۔ کسان ابھی چاروں طرف سے دہلی کا راستہ بند کرنے کی بات کہہ رہے ہیں، تاکہ سرکار پر دباؤ بڑھے اور وہ اپنی ہٹ دھرمی چھوڑے۔ کیا اسے دہشت گردانہ کارروائی کہا جائےگا؟
عمر خالد کو جیل میں 100 دن سےزیادہ ہو گئے اور خالدسیفی کو تقریباً 300 دن۔ مؤرخ راج موہن گاندھی، موسیقاراور گلوکارٹی ایم کرشنا سمیت کئی لوگوں نے ان کی رہائی کی مانگ کی ہے۔کل ہی شرجیل عثمانی نے ایک فہرست جاری کی جس میں پہلا نام وہ تھا جو یا تو ایسے مواقع پر رہ جاتا ہے یا جسے اور ناموں کے بیچ گھسا کر جلدی سے ہم آگے نکل جاتے ہیں۔ وہ نام ہے شرجیل امام کا۔
شرجیل امام کا نام سب سے پہلے یا لازمی طور پر لیے جانے اور یاد رکھنے کی وجہ ہے۔ سی اے اے اور این آرسی کے خلاف مظاہرہ کے لیے جن لوگوں کو دہشت گرد بتاتے ہوئے گرفتار کیا گیا ہے، ان میں پہلی گرفتاری شرجیل امام کی ہے۔
انہیں دہلی تشدد کے پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا۔ یہ گرفتاری تھی یا شرجیل امام کی پولیس کو خودسپردگی، اس بحث میں نہ بھی جائیں تو بھی اسے نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ28 جنوری، 2020 سے الگ الگ جیلوں میں رہ چکے ہیں۔
ان کی کئی گرفتاریاں ہو چکی ہیں۔ جنوری میں ہی ایک دو نہیں، 6 ریاستوں کی پولیس شرجیل کے پیچھے تھی۔ بہار،آسام، اتر پردیش، اروناچل پردیش، دہلی اور منی پور میں ان پر مقدمے درج کیےگئے۔ اس طرح ایک خطرناک دہشت گرد کو ایجاد کیا گیا۔
الزام تھا کہ شرجیل نے نارتھ ایسٹ کو ہندوستان سے کاٹ دینے کا اکساوا دیتے ہوئے بیان دیے تھے۔ اسے سیڈیشن مانا گیا۔ شرجیل کے بیانات کو پولیس کی چارج شیٹ میں درج کیا گیا ہے اور ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی رہی ہے کہ عمر خالد اور شرجیل ساتھ مل کر ایک دہشت گردانہ سازش کر رہے تھے۔
پولیس یہ سمجھانے کی کوشش کر رہی ہے کہ عمر کے شدت پسند ہونے میں کوئی شک نہیں ہے اور شرجیل کو عمر نے ہی ٹریننگ دی ہے۔ عمر جے این یو میں تھے اور شرجیل ابھی جے این یو میں ہیں، اس لیے ایک دوسرے کا شاگرد ہے، یہ پولیس منوانا چاہتی ہے۔
یہ سب کچھ اتنا مضحکہ خیز ہے کہ سمجھنا مشکل ہے کہ اس کا جواب کیا دیا جائے۔
شرجیل نے اتنا ہی کیا تھا کہ سرکار پر دباؤ ڈالنے کے لیے راستہ جام کرنے کی بات کہی تھی۔ کسان ابھی چاروں طرف سے دہلی کا راستہ بند کرنے کی بات کہہ رہے ہیں جس سے سرکار پر دباؤ بڑھے اور وہ اپنی ہٹ دھرمی چھوڑے۔ کیا اسے دہشت گردانہ کارروائی کہا جائےگا؟
ایسا نہیں ہے کہ اس سرکار نے کسانوں کو بھی دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ابھی بھی اس کے رہنما اور وزیر گھوم گھوم کر مظاہرہ کرہے کسانوں کو دہشت گرد ٹھہرا رہے ہیں۔پھر شرجیل جیسے ایک تقریباً نامعلوم نوجوان پر یہ الزام لگانے سے وہ کیوں چوکے! کسانوں پر تو یہ الزام ثابت کرنا تھوڑا کٹھن ہوگا، شرجیل کا نام ہی الزام کے درست مان لیے جانے کے لیے کافی ہے۔
اتنا کہ خود ان لوگوں نے، جن پر یہ سرکار حملہ کر رہی ہے، خود کو شرجیل سے دور دکھلانے کی کوشش کی۔ شرجیل امام ایک پریشان کن نام یا واقعہ ہے، جمہوری حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے فیاض لوگوں کے لیے بھی۔
یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس وقت ہندوستان کی ‘مین اسٹریم ’کے بیچ سب سے بدنام زمانہ ہے۔ کچھ ویسا ہی جیسا 5 سال پہلے عمر خالد کا نام تھا۔
اس جنوری کے پہلے شرجیل کو پڑھنے لکھنے والوں کے علاوہ شاید ہی کوئی جانتا تھا، لیکن اب وہ ہندوستان کے سب سے بدنام لوگوں میں ایک ہیں۔ لوگ، بالخصوص ہندو یہی مانتے ہیں کہ ملک کے ٹکڑے کرنے والوں میں شرجیل ایک نام ہے۔
شرجیل سے پریشانی اس لیے ہے کہ ان کی زبان وہ نہیں ہے جو مقبول عام سیکولر محاورے سے بنی ہوئی ہو۔ شرجیل کا زور اپنی مسلم شناخت کی ترجیحات پر ہے۔ وہ ہندوستان سے الگ ہونے کی مانگ نہیں کر رہے، مسلمانوں کا الگ ملک بنانے کی بات نہیں کر رہے، لیکن پہلے ہندوستانی، بعد میں مسلمان جیسی مانگ شرجیل جیسے نوجوان کو بے تکی معلوم پڑتی ہے۔
دوسرے یہ کہ ہندوستانی سیکولر مسلمان پہچان کے سوال کو ہمیشہ کنارے کرتی آئی ہے اور اسے ہندوؤں کو بڑا بھائی مان کر ان کی ہدایت کے مطابق خود کو ڈھالنے کو اشارہ کرتی رہی ہے، اس بات سے بھی شرجیل کو اعتراض ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کی تشکیل کے لمحہ کو ایک مستحکم تناظر بناکر مسلمانوں کے ہندوستان سے رشتے اور اس میں ان کی حالت کے تعین کے بھی وہ خلاف ہیں۔ مسلمانیت کو ہندوستانیت میں دوئم یا بعد کی چیز کیوں مانا جائے؟ ہندوستانیت کی تعریف کرنے میں وہ لازمی ہو، یہ بھی شرجیل اور ان جیسے مسلمانوں کی دلیل ہے۔
شرجیل کی زبان ترش ہو سکتی ہے لیکن کیا ہندوستان سے ان کی شکایت میں کوئی دم نہیں؟ آزادی کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف جتنے تشدد ہوئے ہیں، کیا ایک میں بھی انصاف کیا جا سکا ہے؟ وہ شری کرشن کمیشن کی رپورٹ ہو یا لبراہن کمیشن کی رپورٹ، سب کو ٹھنڈے بستے میں ڈالنے دیا گیا۔
کیا یہ سچ نہیں کہ ہندوستان کی نوکر شاہی اور پولیس اپنی بناوٹ میں مسلمان مخالف ہیں؟ کیا یہ سچ نہیں کہ اس جمہوریت میں مسلمان تو غیر مسلموں کو اپنا نمائندہ اور رہنما چنتا رہا ہے، لیکن ہندو کبھی بھی مسلمان کو نہ تو اپنا نمائندہ اور نہ ہی ملک کا رہنما مان سکے ہیں؟
ایسی صورت میں گنگا جمنی تہذیب کا مفہوم صرف یہی ہے کہ جمنا گنگا میں مل کر اپنا وجود ختم کر دے۔ گنگا پوتر کرنے کی حیثیت رکھتی ہے،باقی کو خود کو پاک کرنا ہے۔شرجیل اس ثقافتی اورسیاسی ماتحتی کو ماننے کو تیار نہیں۔ کیوں ہندوستان کے مسلمان کو دوسری شرطوں پر ہندوستانی بننا چاہیے؟ شرجیل جیسے مسلمان اب ‘بھلا’بننے کے دباؤ سے انکار کر رہے ہیں۔
کسانوں کے مظاہرہ کے دوران لفظ کیرتن اور ‘واہے گروجی کا خالصہ، واہے گروجی کی فتح’ سنتے ہوئے سب نہال ہو رہے تھے، لیکن سی اے اے کے خلاف مظاہرہ میں‘اللہ اکبر’ کی پکار سے سیکولر کان بھی کھڑے ہو گئے۔
فوراً نصیحت دی گئی کہ یہ مظاہرہ کو کمزور کرےگا۔ ایک کی مذہبی حیثیت روحانیت کی توسیع ہے تو دوسرے کی مذہبی تنگ ذہنی اورمتعصب ہے! اس تضاد کی طرف شرجیل جیسے اذہان اب توجہ مبذول کرا رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ شرجیل امام کے بارے میں بولتے وقت اکثرصفائی دی جاتی ہے کہ ان کی سیاست سے اتفاق نہیں ہے۔سوال یہ نہیں ہے۔ شرجیل کو صرف سر اٹھانے کی سزا دی جا رہی ہے، یہ کہنا ضروری ہے۔ شرجیل کو کسی پرتشدد کام کے لیے نہیں، ہندوستان کی پریشان کن سچائی کا سامنا کرانے کی حماقت کے لیے پابند کیا جا رہا ہے۔ یہ مسلمان کو ڈسپلن میں رہنے کے لیے وارننگ ہے۔
شرجیل امام کی رہائی، فوراً رہائی… ہندوستان میں مسلمانوں کے یقین کے لیے ضروری ہے۔ یعنی ہندوستان کے بنے رہنے کے لیے۔
(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر