تاریخ شاہد ہے کہ ناانصافی کے خلاف کسانوں نےہمیشہ مزاحمت کی ہے اور باربار کی ہے۔ کسانوں کا موجودہ مظاہرہ بھی اسی شاندار روایت پر عمل پیرا ہے۔
گٹھ جوڑ (اتحاد)کی کہانی دو حصوں میں ہے۔ پہلا حصہ کافی پہلے لکھا جا چکا تھا جب انڈمان میں کئی سالوں کی قید کے بعد ونایک دامودر ساورکر کو رہا کر دیا گیا۔
قید کے پہلے وہ انقلابی ہوا کرتے تھے۔ رہائی کے بعد وہ برٹش حکومت کے معاون بن گئے جیسا کہ انہوں نے برٹش حکام سے رحم کی بھیک مانگتی ہوئی اپنی کئی ساری عرضیوں میں وعدہ کیا تھا جو انہوں نے جیل سے لکھی تھی۔
جیل سے باہر آنے پر ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے وہی عادت اپنا لی، جسے ماہر نفسیات‘ٹرانسفرڈ اینگزائٹی’ کہتے ہیں۔ قید کے پہلے جو نفرت وہ برٹش حکومت کے خلاف انڈیلا کرتے تھے، اس کا نشانہ اب وہ اپنے ہم وطن مسلمانوں کو بنانے لگے۔
اس کے بعد اس ایجنڈہ کو آگے بڑھایا گرو گولوالکر اورآر ایس ایس کے ان کے دوسرے پیروکاروں نے۔ وہ سب اس آزادی کی لڑائی سے الگ ہی رہے جو اس وقت برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے خلاف چل رہی تھی۔
وہ نہ تو اس لڑائی کی سمجھوتہ پرست عدم تشدد کے دھارے میں شامل ہوئے جو گاندھی کی قیادت میں چل رہی تھی اور نہ انقلابی دھارے میں جس کی قیادت بھگت سنگھ یا سبھاش چندر بوس جیسے لوگ کر رہے تھے جو اس لڑائی میں شہید ہو گئے۔
کیا غضب کی یکسانیت رہی کہ کبھی انقلابی رہ چکے ساورکر بھی برٹش حکومت کے معاون بن گئے اور کبھی پکے سیکولر نیشنلسٹ کانگریسی رہنما رہے محمد علی جناح بھی ہندو فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف مسلم اقلیتوں کی حفاظت کے لیے برٹش حکومت کے محتاج بنتے گئے، جبکہ وہ خلافت تحریک کےوقت بھی اپنی سیکولرازم سے نہیں ہٹےتھے اور اس میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ اس کی نوعیت مذہبی تھی۔
ساورکر اور جناح دونوں نے اپنی سیاسی زندگی کی شروعات کی تھی سیکولرازم کے ساتھ۔ لیکن آخر میں وہ ایسےرہنما بن کر رہ گئے جن کی سیاست اس فرقے کی فرقہ واریت سے واضح ہوتی تھی جس کی رہنمائی وہ کر رہے تھے۔
کہانی کا دوسرا حصہ شروع ہوا ایک اور قسم کے گٹھ جوڑ سے۔ اسے شروع ہوئے کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزار ہے۔ جملوں سے آگے جاکر دیکھیں، تو ‘معاشی ترقی کا گجرات ماڈل’ ہمیشہ ہی ایسا ماڈل تھا جو بڑے کاروبار پرمنحصر تھا۔
گاندھی نے بڑے کاروبار کو قومی اثاثہ کا ‘ٹرسٹی’ مانا تھا اور خودکفیل دیہی معاشرے کی مثالی تصویر کوشرمندہ تعبیر کرنا چاہا تھا جس میں کسی بھی قسم کا طبقاتی ، نسلی، اور مذہبی تعصب نہیں ہوگا۔
یہ خودکفیل معاشرہ بڑے سرمایہ داروں کے ساتھ ہم آہنگی قائم رکھےگا جو اس کے ٹرسٹی ہوں گے۔ اس تصور میں موجود تضاد پر سبھاش چندر بوس، نہرو اور لوہیا جیسے کانگریسی سماجوادیوں نے سوال اٹھائے۔ پھر بھی یہ تضاد آزادی کے بعد بھی کانگریس کی سوچ میں بنی رہی۔
یہ‘سوشلسٹ قسم’ کا سماج بنانے کے اعلان میں بھی جھلکتی رہی۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح مذہب کو لےکر کانگریس کی سوچ میں تضادنظر آتا رہا۔بہرحال معاشی سوچ میں یہ تضاد1991 کے بعد سے ختم ہونے لگا جب اقتصادی لبرلائزیشن زور پکڑنے لگا۔
مذہب کے لیے کانگریس کا نرم نظریہ یا اس کا سوشلزم بنیادی طور پر اس کے قومی چھتری نماجیسےکردار کی وجہ سے تھا۔ نوآبادیاتی مخالف جدوجہد میں اس نے تمام دھارے کو ضم کرنا چاہا تھا۔
اس کی یہ فطرت نوے کے دہائی کے بعد بھی کبھی کبھار نظر آتی رہی جبکہ اس دہائی کے شروع میں اس نے نیو لبرلائزیشن سوچ کو اپنا لیا تھا۔ مثلاً منریگا جیسی اسکیموں کے ذریعے اس نے غریبوں کو کچھ اقتصادی تحفظ دینے کی کوشش کی۔
لیکن آر ایس ایس سے چلنے والی بی جے پی نے کبھی بھی آزادی کی لڑائی میں حصہ نہیں لیا تھا۔ اس لیے آزادی کی لڑائی کے آدرشوں اور اس کے نظریات سے زبانی سروکار بھی دکھانے کی اس کی کوئی مجبوری نہیں تھی۔ سو اس کے ایجنڈہ میں تذبذب کی گنجائش بہت کم تھی۔
سماجی طور پر اس کا ایجنڈہ تھا ‘ثقافتی قوم پرستی’اس کے لیے ثقافت کا مطلب تھا ہندوتوا جس کا مقصد تھا مسلمانوں کو برابر کےشہری حقوق سے محروم کرنا۔یہ ہندوتواعام طور پر برہمن وادی قسم کا تھا اور نسلی امتیاز اور عورت مخالف ذہنیت کو بڑھاوا دیتا تھا۔
اقتصادی معاملوں میں یہ اپنی کارروائیوں سے بڑے کاروبار کو بڑھاوا دیتا تھا جبکہ اپنے انتخابی وعدوں میں ظاہر ہے کہ اس کا ذکر بھی نہیں کرتا تھا۔
سال 2014 میں پہلی بار واضح اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی بی جے پی سرکار معاشی اورسماجی دونوں ہی مورچوں پر بڑے سوچے سمجھےاور منصوبہ بند طریقے سے اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے میں لگی ہے۔
الیکٹورل بانڈ کی اسکیم کے ذریعے اس نے شروع میں ہی اپنی منافقانہ منشا ظاہر کر دی تھی کہ وہ رازداری کے پردے میں دراصل پارٹی اور بڑے کاروبار کے بیچ قریبی اتحاد قائم کرنا چاہتی ہے۔
اس نے ریزرو بینک کے اختلافات کو ذرا بھی برداشت نہیں کیا اور سرکاری بینکوں کو بڑے کاروباری اصل میں لوٹتے رہے۔ بھاری بھرکم قرض اس ان کہی سمجھداری کے ساتھ دیے گئے کہ انہیں لوٹانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
‘نان پرفارمنگ ایسٹس’ کے نام پر بقایہ قرض کا انبار لگتا گیا اور سرکار نے ملک کی سب سے اونچی عدالت سے فریاد لگائی کہ بینک قرض کے سب سے بڑے لٹیروں کے نام خفیہ رکھے جائیں۔
‘بند لفافوں’ میں ملک کی سب سے اونچی عدالت میں شواہد پیش کیے جانے کے اس نئے دور کو دیکھ کر فطری طور پر خیال آتا ہے کہ کہیں بینک قرض کے سب سے بڑے لٹیرے وہی تو نہیں، جو الیکٹورل بانڈ کے بھی سب سے بڑے خریدار ہیں۔
ادھر نوٹ بندی کے ذریعے بے شمارلوگوں کے روزگار کو تباہ کر دیا گیا اور بڑی سفاکی کے ساتھ اسے کالے دھن کے خلاف لڑائی کا نام دے دیا گیا۔
سرمایہ دارانہ جمہوری معاشروں میں سرکار اور بڑے کاروبار کے بیچ گٹھ جوڑ رہتا ہی ہے۔ فرق بس اتنا ہوتا ہے کہ یہ گٹھ جوڑ کہاں کس حد تک ہے یا ہوگا۔ تو پھربی جے پی کے ساتھ بڑے کاروبار کے گٹھ جوڑ میں خاص بات کیا ہے؟
بی جے پی کو 2019 کے لوک سبھا انتخاب میں 37 فیصدی ووٹ ملے تھے۔ پھر بھی اس کے بوتے پر حاصل واضح اکثریت کے ذریعے اس نےبقیہ 60 فیصدی ووٹروں کی آواز کوکل ملاکر ان سنا اور بےاثر کر دیا ہے۔
اس کے لیے اس کا بنیادی طریقہ رہا ہے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانا۔شہریت قانون (سی اےاے)کو اس نے ‘اصلی’شہریت کی مردم شماری کے طور پر پیش کیا جس کے ذریعے ہندوستان کے مسلمان شہریوں کو کھلےعام نشانہ بنایا گیا ہے۔
آرٹیکل 370 کو بےاثر کرنے کو ہندوستانی اقتدار کے مضبوط ہونے کے طور پر پیش کیا گیا۔ لیکن اس کا نشانہ بھی مسلمان ہی بنے۔گائے کو مقدس قراردینے کا اثر نہ صرف لوگوں کے کھان پان پر پڑا ہے بلکہ چمڑا کاروبار میں لگے متعدد مسلمانوں اور دلتوں کے روزگار پر بھی۔
الگ الگ مذاہب کے لوگوں کے بیچ ہونے والی شادیوں کو روکنے کے لیے بنے قانون کے پیچھے کی منشا ہے خون یعنی نسل کی ‘طہارت’کوبرقرار رکھنا۔کئی قبیلائی معاشرے اور نازی حکومتوں میں بھی ایسا ہی کیا جاتا تھا تاکہ آبادی کی نسلی طہارت کی سرحدیں بڑی صاف صاف نشان زد رہیں۔ اور اسی نازی نظریے کو آج بی جے پی سرکار کھل کر آگے بڑھا رہی ہے۔
بڑے کاروبار کے پیسوں پر چل رہے بڑے بڑے چینلوں اور اخباروں کے ذریعےحقائق کو سر کے بل الٹ دیا گیا ہے۔اکثر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مسلمان اقلیتوں سے ہندو اکثریت خطرے میں ہیں اور اکثریتی ووٹ بینک کو یقین دلا دیا جاتا ہے کہ ایسااقلیتوں کو ‘خوش کرنے والی سیاست’کی وجہ سے ہوا ہے۔
ہندوستانی جمہوریت کے لیے بڑا المیہ ہے کہ کانگریس جیسی پارٹیاں بھی ووٹ بینک کی سیاست میں ایسےپروپیگنڈے کا کھل کر مقابلہ نہیں کرتیں۔لوہیا اور امبیڈکر کے نظریے سےمتاثرپارٹیاں بھی اس بات کو پراثر ڈھنگ سے نہیں اٹھا پاتیں کہ اگر خوش کرنا ہی مدعا ہے تو سچ تو یہ ہے کہ دلتوں اور اقلیتوں کی قیمت پرخوش کرنے والی سیاست ہو رہی ہے ۔ اور وہ بھی کافی زیادہ۔
خود ہندو سماج کے اندر کی ان گہری نابرابری پر پردہ ڈالنے میں کامیابی ہی بی جے پی کی انتخابی جیت کی بڑی وجہ ہے۔کارپوریٹ کبیروں کے پیسوں اور بھکت میڈیا کے بوتےبی جے پی سرکار کورونا کے دوران مطمئن ہوتی گئی کہ وہ جو چاہے سو کر سکتی ہے۔
چوطرفہ ناکامیوں کے باوجود جملے بازی اور جھانسے بازی کے کھیل میں اس کا حوصلہ بڑھتا گیا۔ بڑھتی بےروزگاری، ناقص بنا دیے گئے بینکنگ سسٹم اورصفر سے بھی کم اقتصادی اضافہ یعنی معاشی گراوٹ کے باوجود اس نے پارلیامنٹ کو لگ بھگ کسی کام کا نہیں رہنے دیا۔
اپوزیشن تو لقوے کی سی حالت میں(مفلوج) ہے ہی۔ اس نے جلدی ہی تمام اہم سرکاری اداروں کو اپنی مٹھی میں کر لیا۔اس کی من مانی کے خلاف مزاحمت کرنے والی کوئی طاقت نہیں بچی۔ سو اسے لگا کہ یہی موقع ہے کھیتی کے کارپوریٹائزیشن کا اور فصلوں کے بازار کی لوٹ کرنے کی آزادی کارپوریٹ کو دینے کا۔
اس لیے نئے قوانین سے بنے سسٹم میں اگر فصلوں کی کارپوریٹ خریداری کو لےکر کوئی تنازعہ ہوتا ہے تو کسانوں سے عدالت جانے کا حق بھی چھین لیا گیا۔سچ تو یہ ہے کہ نئے قوانین کے تحت سرکار کی مدد سے کارپوریشن کو پوری آزادی ہوگی کہ وہ فصلوں کے بازار کو جیسے چاہیں ویسے چلائیں۔
سرکار کسانوں کی طاقت ہی نہیں ان کی سوچ سمجھ کا بھی اندازہ نہیں لگا سکی۔ لیکن زیادہ ترماہرین سے بھی بہتر انہوں نے سرکار کے کھیل کو بخوبی سمجھ لیا اور مزاحمت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ناانصافی کے خلاف کسانوں نے تاریخ میں ہمیشہ مزاحمت کی ہے۔ باربار کی ہے۔ موجودہ مزاحمت بھی اسی شاندار روایت پر عمل پیرا ہے۔ لیکن یہ مزاحمت کئی معنوں میں انوکھا بھی ہے۔
کسان مزاحمت کی اس شاندار کل ہند روایت میں پنجاب کا بھی اپنا شاندار حصہ رہا ہے۔ جیسے 1906-07 کا پگڑی سنبھال جٹا آندولن۔اس کی قیادت بھارت ماتا سوسائٹی اور محبان وطن نے کی تھی، جس کا قیام شہید بھگت سنگھ کے چچا اجیت سنگھ اور والد کشن سنگھ، گھسیٹا رام، لال چند فلک وغیرہ نے کیا تھا۔
اس تحریک نے نوآبادیاتی حکومت کو چیلنج دیا جب اس نے کسانوں پرقرض کا بوجھ بڑھا دیا تھا۔ کسانوں نے جب اپنی محنت مشقت سے زمین کو زرخیز بناکر اپنے کھیت کھیتی کے لیے تیار کر لیے، تو ان کے کھیت ان سے چھین لینے کی دھمکی دی گئی۔
اس پر بانکے دیال نے وہ مشہور گیت پگڑی سنبھال جٹا لکھا جو تحریک کا نام ہی بن گیا۔ موجودہ تحریک میں بھی کسان اجیت سنگھ کی تصویرکے ساتھ پگڑی سنبھال جٹا لکھے پرچم لہرا رہے ہیں اور ہمیں مزاحمت کی اپنی تاریخ کی یاد دلا رہے ہیں۔
اسی طرح 1920 کا اودھ کسان آندولن بھی شمالی ہندوستان کی تاریخ میں ایک شاندار باب ہے۔ آزادی کے ٹھیک پہلے بنگال میں تیبھاگا میں اور تلنگانہ میں اسلحوں کے ساتھ کسانوں کے مظاہرے ہوئے۔اور آزادی کے ٹھیک بعد 1948 میں پیپسو علاقے میں مجارا آندولن ہوا جس کی قیادت لال پارٹی نے کی۔ اس آندولن نے اس جاگیردارانہ زرعی نظام کو ہلا کر رکھ دیا جس کو برٹش حکومت نے کھڑا کیا تھا۔
دہلی کی سرحدوں پر کسانوں کا موجودہ اجتماع ہر لحاظ سے زبردست ہے۔ دو لاکھ سے زیادہ کسان 26 نومبر سے ہی وہاں جٹے ہوئے ہیں۔
اتنی بڑی تعداد میں لوگ جئےپرکاش نارائن یا انا ہزارے کی تحریک میں بھی نہیں جٹے تھے۔ ان دونوں تحریکوں کے پس منظر میں تھی آر ایس ایس کی طاقت۔ اس کا نتیجہ ہوا کہ ان تحریکوں سے آگے چل کررائٹ ونگ طاقتیں مضبوط ہوئیں۔
لیکن موجودہ تحریک اپنی مانگوں کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے کسانوں کا بے ساختہ مظاہرہ ہے۔یہ بھگت سنگھ، نیتاجی سبھاش بوس، امبیڈکر اور پیریار جیسے انقلابی اور سماجی مصلح کےترقی پسند ایجنڈہ کو آگے بڑھا سکتا ہے جو آج تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوا ہے۔
اس لیے کہ کسانوں کی مانگ کھیتی میں کارپوریٹ مفادات پر روک لگانے اور کسانوں کے مختلف طبقوں کے بیچ ایکتا قائم کرنے سے جڑی ہے اور یہ برابری کی اس سوچ سے متاثر ہے جس کی سیکھ سکھ گروؤں نے سکھائی ہے۔
نام نہاد اشرافیہ کے کسانوں اور نچلی ذات کے کھیت مزدوروں کے بیچ دہلی کی سرحد پر اس مظاہرہ کے مرحلےمیں ایکتا قائم ہو گئی ہے۔ ہر ذات اورمذہب کے لوگ ایک ساتھ مل کر پکا اور کھا رہے ہیں۔
پکانے، صفائی اور دیگر کاموں میں عورت مرد کی بنیادپر کام نہیں بٹے ہیں۔ سبھی لوگ سبھی کام کر رہے ہیں۔ دہلی کی سرحدوں پر ہر روز وہ برہمنوادی منوادی سماجی تقسیم کے بیہودہ منصوبوں کو چیلنج دے رہے ہیں۔ اس لیے آر ایس ایس بی جے پی اور ان کے کارپوریٹ اتحادی یاروں کے لیے یہ سب بڑی فکر کی بات ہے۔
کسان سمجھ رہے ہیں کہ ان کارپوریٹ اتحادیوں کو ہی تین کالے زرعی قوانین سے سیدھا فائدہ ہونے والا ہے۔ آزاد ہندوستان میں کسانوں نے اس سے پہلے ان کے ہوش اس طرح کبھی نہیں اڑائے تھے۔
(امت بھادڑی ماہر معاشیات ہیں ہیں اور جے این یو میں اور پروفیسر ایمریٹس رہے ہیں۔ ڈاکٹر چمن لال جے این یو کے ریٹائرڈ پروفیسر ہیں اوراس وقت پنجاب یونیورسٹی، چنڈی گڑھ میں لنگویج فیکلٹی کے ڈین ہیں۔)
Categories: فکر و نظر