خودکشی کے لیے اکسانے کے معاملے میں صحافی ارنب گوسوامی کو ضمانت ملنے کے سلسلے میں اسٹینڈاپ کامیڈین کنال کامرا نے سپریم کورٹ اور ان کے ججوں کے خلاف کئی ٹوئٹ کیے تھے۔ اپنے دفاع میں انہوں نے کہا ہے کہ یہ مان لینا کہ صرف ان کے ٹوئٹ سے دنیا کی سب سے طاقتورعدالت کی بنیاد ہل سکتی ہے، ان کی صلاحیت کو بڑھا چڑھا کر سمجھنا ہے۔
نئی دہلی: ججوں اور عدلیہ کو لےکر ٹوئٹ کے لیے عدالت کی ہتک کی کارروائی کا سامنا کر رہے اسٹینڈاپ کامیڈین کنال کامرا نے جمعہ کو سپریم کورٹ کو بتایا کہ انہوں نے ٹوئٹ عدلیہ میں لوگوں کے بھروسےکو کمتر کرنے کی منشا سے نہیں کیےتھے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، انہوں نے کہا کہ یہ مان لینا کہ صرف ان کے ٹوئٹ سے دنیا کی سب سے طاقتور عدالت کی بنیاد ہل سکتی ہے۔ ایسا ماننا ان کی صلاحیت کو بڑھا چڑھا کر سمجھنا ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سےجاری کیے گئے نوٹس کے جواب میں دائر کیے گئے حلف نامے میں کامرا نے کہا، ‘جس طرح سے سپریم کورٹ عوام کے اس میں بھروسے کواہمیت دیتی ہے، ٹھیک اسی طرح اسے عوام پر یہ بھی بھروسہ کرنا چاہیے کہ عوام ٹوئٹر پر صرف کچھ لطیفوں کی بنیاد پر عدالت کے بارے میں اپنی رائے نہیں بنائےگی۔’
انہوں نے کہا کہ عدلیہ میں لوگوں کا بھروسہ اس کی تنقیدیا کسی تبصرے پر نہیں، بلکہ خود ادارے کے اپنےکاموں پر مبنی ہوتاہے۔کامرا نے کہا، ‘ملک میں بڑھ رہی عدم رواداری کے کلچر، جہاں کسی بات پر ناراض ہونے کو بنیادی حق سمجھا جاتا ہے اور اسے بہت زیادہ پسند کیے جانے والے کسی قومی انڈور کھیل کا درجہ دے دیا گیا ہے۔’
کامرا نے اسٹینڈاپ کامیڈین منور فاروقی کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ‘ہم اظہاررائے کی آزادی پر حملے کے گواہ بن رہے ہیں۔ منور فاروقی جیسے کامیڈین کو ان چٹکلوں کے لیے جیل بھیجا گیا ہے، جو انہوں نے نہیں سنائے ہیں اور اسکولی طلبا سے سیڈیشن کے معاملے میں پوچھ تاچھ کی جا رہی ہے۔’
انہوں نے آگے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ یہ عدلیہ دکھائے گی کہ اظہار رائے کی آزادی کا حق بنیادی آئینی قدر ہے اور اس بات کو منظوری دےگی کہ اس حق کا استعمال کرتے ہوئے بے عزت ہونے کاخدشہ لازمی ہے۔’
انہوں نے کہا کہ اگرطاقتور لوگ اور ادارے تنقید کوبرداشت کرنے کی معذوری دکھاتے رہیں گے، تو ہم ایک ایسے ملک میں بدل جا ئیں گے، جہاں فن کاروں کو بین کیا جاتا رہےگا اور دوسروں کی کٹھ پتلی بنے لوگوں کو بڑھاوا ملےگا۔
کامرا نے کہا، ‘اگر اس عدالت کو لگتا ہے کہ میں نے کوئی حد پار کی ہے اور اگر وہ میرا انٹرنیٹ غیر معینہ مدت کے لیے بند کرنا چاہتی ہے، تو میں بھی اپنے کشمیری دوستوں کی طرح ہر 15 اگست پر یوم آزادی کی نیک خواہشات کے پوسٹ کارڈ لکھوں گا۔’
حلف نامے میں کے ان کے ٹوئٹ کو بنیادی طور پر مذاق بتایا گیا ہے اور انہوں نے کہا ہے، ‘میرا ماننا ہے کہ مذاق کے لیے دفاع کی ضرورت نہیں۔’کامرا نے کہا کہ کسی مزاحیہ پیش کش کے لیےطنز اور مبالغہ اہم آلہ ہوتے ہیں اورمزاحیہ آرٹسٹ اپنے انوکھے انداز میں عوامی مفاد کے معاملوں سے جڑے سوال کھڑے کرتا ہے۔
اسٹینڈاپ کامیڈین نے کہا، ‘میں کئی معاملوں میں کئی عدالتوں کے کئی فیصلوں سے غیرمتفق ہو سکتا ہوں، لیکن میں اس بنچ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں ہر فیصلے کا مسکراتے ہوئے استقبال کروں گا۔ میں اس معاملے میں عدلیہ یا اس بنچ کی مذمت نہیں کروں گا، کیونکہ یہ عدلیہ کی توہین ہوگی۔’
کامرا نے کہا، ‘میں جس زبان یا طرز کا استعمال کرتا ہوں، اس کا مقصد کسی کی توہین کرنا نہیں ہوتا، بلکہ ان معاملوں پر دھیان کھینچنا اور مکالمہ شروع کرنا ہوتا ہے، جو مجھے جمہوریت کے لیے اہم لگتے ہیں اور جنہیں سنجیدہ اور دانشور مبصروں نے عوامی شعبے میں نہیں اٹھایا ہوتا ہے۔’
انہوں نے کہا کہ وہ نہیں مانتے کہ جج سمیت کوئی بھی اعلیٰ حکام صرف اس لیے کام کرنے میں خود کو نااہل پائےگا، کیونکہ اس پر طنز کیے جا رہے ہیں یا اس کولےکر لطیفے سنائے جا رہے ہیں۔کامرا نے اپنے ٹوئٹ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ ٹوئٹ ہماری جمہوریت کی سب سے بڑی عدالت میں لوگوں کا بھروسہ کم کرنے کے ارادے سے نہیں کیے گئے۔
عدالت نے سپریم کورٹ کے خلاف مبینہ توہین آمیز ٹوئٹ کرنے کے معاملے میں کامرا کو 18 دسمبر کووجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا تھا اور انہیں نجی پیشی سے چھوٹ دی تھی۔
بتا دیں کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ دنوں سال 2018 میں خودکشی کے لیے اکسانے کے ایک معاملے میں ری پبلک ٹی وی کے ایڈیٹر ان چیف ارنب گوسوامی کو عبوری ضمانت دے دی تھی۔ شنوائی کے دوران جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بامبے ہائی کورٹ نے گوسوامی کو ضمانت دیتے ہوئے ذاتی آزادی کےمعاملے میں دخل اندازی نہیں کی تھی۔
اس پر ردعمل دیتے ہوئے کامرا نے سلسلےوار کئی ٹوئٹ کرکے کہا تھا کہ اس ملک کا سپریم کورٹ سب سے بڑا مذاق بن گیا ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں