ٹوئٹر نے جن اکاؤنٹ پر روک لگائی ہے ان میں کارواں میگزین، کسان ایکتا مورچہ، سی پی آئی ایم کے محمد سلیم، کارکن ہنس راج مینا، ایکٹر سشانت سنگھ، پرسار بھارتی کے سی ای او سمیت کئی صحافی اور قلمکار بھی شامل ہیں۔
نئی دہلی: کئی افراد،گروپ اور میڈیااداروں سے وابستہ کئی ٹوئٹر اکاؤنٹ پر یکم فروری کو قانونی مطالبےکی بنیاد پر سوشل میڈیا سائٹ نے روک لگا دی۔ان تمام ٹوئٹر اکاؤنٹ کو ایک ہی بات جوڑتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ان تمام اکاؤنٹ سے کسانوں کی تحریک کے سلسلے میں باقاعدگی سے اپ ڈیٹ اورخیالات پوسٹ کیے جا رہے تھے۔
خبررساں ایجنسی اے این آئی نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے کہا کہ ٹوئٹر نے امت شاہ کی قیادت والی وزارت داخلہ کی گزارش پر یہ قدم اٹھایا۔
اس کے ساتھ ہی ذرائع نے مبینہ طور پر اےاین آئی کو بتایا کہ آئی ٹی منسٹری نے ٹوئٹر کو تقریباً250 ٹوئٹس اور ٹوئٹراکاؤنٹ کوبلاک کرنے ہدایت دی جو 30 جنوری کو مودی پلاننگ فارمر جینوسائیڈ کا ہیش ٹیگ چلا رہے تھے اور جو فرضی، دھمکانے اور اکسانے والے ٹوئٹ کر رہے تھے۔
فی الحال یہ پتہ نہیں ہے کہ اے این آئی کے ذرائع کی جانب سے کیا گیا دعویٰ صحیح ہے یا نہیں۔ کیونکہ مذکورہ ہیش ٹیگ چلانے والے کئی اکاؤنٹ ابھی بھی ایکٹو ہیں۔جن اکاؤنٹ پر روک لگائی گئی ہے ان میں سے کئی کے لاکھوں کی تعداد میں فالوور ہیں۔
جن اکاؤنٹ پر روک لگائی گئی ہے ان میں کارواں میگزین کا اکاؤنٹ شامل ہے۔ اس کے ساتھ ہی تین نئے اور متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف جاری تحریک کے لیے آسان ابلاغ کو یقینی بنانے والے ٹریکٹر2ٹوئٹر اور کسان ایکتا مورچہ کے اکاؤنٹ پر بھی روک لگا دی گئی ہے۔
بتا دیں کہ دسمبر، 2020 میں فیس بک تب تنازعہ میں آ گیا تھا جب اس نے اچانک کسان ایکتا مورچہ کے اکاؤنٹ کو بلاک کر دیا تھا۔ حالانکہ، کچھ گھنٹے بعد ہی فیس بک نے اسے دوبارہ شروع کر دیا تھا۔کارواں کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر میگزین کے کانٹری بیوٹر مندیپ پونیا کو حراست میں لیے جانے اور 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیجے جانے کے ایک دن بعد روک لگائی گئی ہے۔
صحافی پر نو دکشت نے ذرائع کے حوالے سے کہا کہ ٹوئٹر نے میگزین کو کارروائی کے بارے میں مطلع نہیں کیا۔ بعد میں میگزین کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ونود کے جوس نے اس کی تصدیق کی۔میگزین کے مدیر ان لوگوں میں سے ہیں جن کے خلاف ٹریکٹر ریلی کے دوران 26 جنوری کو ایک کسان کی موت کے کوریج کے لیے چار بی جے پی مقتدرہ ریاستوں میں سیڈیشن کے الزام میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
جن دیگر لوگوں کے اکاؤنٹ پر روک لگائی گئی ہے ان میں سی پی آئی ایم کے محمد سلیم، کارکن ہنس راج مینا، عآپ رہنما جرنیل سنگھ اور آرتی، صحافی سندیپ چودھری، رائٹر سنیوکتا باسو، محمد آصف خان اور ایکٹر سشانت سنگھ شامل ہیں۔
ایک معروف پیروڈی اکاؤنٹ @EpicRoflDon پر بھی روک لگائی گئی ہے۔
So @thecaravanindia's twitter account is withheld in India. pic.twitter.com/VaGun4GBg4
— Mohammed Zubair (@zoo_bear) February 1, 2021
آلٹ نیوز کے بانی محمد زبیر نے ایک ٹوئٹر پوسٹ میں روک لگائے گئے کئی ٹوئٹر اکاؤنٹ کی فہرست بنائی ہے۔
پرسار بھارتی کے سی ای او کا معاملہ
دیگر اکاؤنٹ کے ساتھ ٹوئٹر نے پرسار بھارتی کے سی ای او کے اکاؤنٹ پر بھی روک لگا دی ہے۔ اپنے سرکاری اکاؤنٹ کے توسط سے پرسار بھارتی نے ششی ایس ویمپتی کے اکاؤنٹ پر روک لگانے کی وجہ پوچھی ہے۔
خبررساں ایجنسی اےاین آئی نے رپورٹ کیا ہے کہ اپنی اس کارروائی پر ٹوئٹر نے یہ ردعمل دیا ‘ہماری خدمات کو ہر جگہ لوگوں کو دستیاب کرانے کی کوشش میں،اگرہمیں کسی اتھارٹی سے مناسب طریقے سے درخواست حاصل ہوتی ہے، تواس ملک میں کچھ مواد تک رسائی کو روکنا ضروری ہو سکتا ہے۔’
سوشل میڈیا سائٹ نے یہ بھی کہا کہ ایسے حالات میں صارف کوفوراً جانکاری دی جاتی ہے۔
Transparency is vital to protecting freedom of expression, so we've a notice policy for withheld content. Upon receipt of requests to withhold content, we'll promptly notify affected account holders:Twitter Spokesperson on withholding prominent accounts incl Prasar Bharti chief's
— ANI (@ANI) February 1, 2021
حالانکہ، اے این آئی نے ڈیٹا پروٹیکشن بل پر بنی پارلیامنٹ کی جوائنٹ کمیٹی کی چیئرپرسن میناکشی لیکھی کے ردعمل کو بھی ٹوئٹ کیا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ پرسار بھارتی کے سی ای او تھے جنہوں نے ٹوئٹر سے دیگر اکاؤنٹ پر روک لگانے کے لیے کہا تھا جبکہ انجانے میں ان کے اکاؤنٹ پر ہی روک لگ گئی۔
When real intelligence is missing, this is what happens. It strengthens case for Artificial Intelligence mechanisms to be fair. By blocking the handle you're victimising person who told you to take right step:M Lekhi,Chairperson, Jt Committee of Parliament on Data Protection Bill https://t.co/M352wr9Lqt pic.twitter.com/IO9K2quEll
— ANI (@ANI) February 1, 2021
ٹوئٹر نےاپنی پالیسیوں میں ذکر کیا ہے،‘اگر آپ مذکورہ پیغام دیکھ رہے ہیں اس کا مطلب ہے کہ ٹوئٹر ایک جائزقانونی مانگ کے جواب میں مذکورہ مکمل اکاؤنٹ کو واپس لینے کے لیے مجبور کیا گیا تھا، جیسے کہ عدالت کا آرڈر۔’ٹوئٹر نے کہا، ‘اکاؤنٹ پر روک لگانے کی گزارش کرنے والے دیگر لوگوں میں ایک قانون نافذ کرنے والےایجنٹ، سرکاری افسریا دیگر تیسرافریق جنہیں کوئی قانونی درخواست دکھانا ہوگا، شامل ہو سکتے ہیں۔’
یہ ابھی تک معلوم نہیں ہے کہ ٹوئٹر پر اکاؤنٹ کو کیوں اور کس قانونی مانگ کی بنیادپر روک لگایا گیا ہے اور تمام متعلقہ اکاؤنٹ پر کارروائی ایک درخواست پر ہوئی ہے یا ایک سے زیادہ پر ہوئی ہے۔اس فیصلے پر دی وائر نے ٹوئٹر سے ردعمل مانگا تھا لیکن اے این آئی کو ملے ردعمل کی طرح ہی جواب ملا اور اس میں کوئی اور بات نہیں جوڑی گئی۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: خبریں