خبریں

دہلی پولیس نے سنگھو بارڈر سے صحافی کو کیا گرفتار، ایک دیگر صحافی کو رہا کیا

آزادصحافی اور کارواں میگزین کے لیے لکھنے والے مندیپ پنیا اور ایک دیگرصحافی دھرمیندر سنگھ کو سنیچر کو حراست میں لیا گیا تھا۔ دھرمیندر سنگھ کو اتوار کوصبح رہا کر دیا گیا۔ وہیں بتایا جا رہا ہے کہ پنیا کو عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا ہے۔

صحافی مندیپ پنیا۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

صحافی مندیپ پنیا۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی:  دہلی پولیس نے سنگھو بارڈر پر چل رہے کسانوں کے مظاہرے کو کور کر رہے دو صحافیوں کو سنیچر کو حراست میں لیا۔ ان میں سے ایک آزادصحافی مندیپ پنیا ہیں، جو کارواں میگزین کے لیے لکھتے ہیں، جبکہ دوسرے صحافی دھرمیندر سنگھ ہیں، جو ‘آن لائن نیوز انڈیا’ ویب سائٹ سے وابستہ ہیں۔

کارواں میگزین کے مدیران کے مطابق، پنیا دو دن پہلے سنگھو بارڈر پر ہوئے مظاہرہ کے دوران ہوئےتشددکو لےکر جانکاری  اکٹھا کرنے وہاں گئے تھے۔دراصل 29جنوری کو خود کو مقامی  بتانے والے لگ بھگ 150 لوگوں کا ایک گروپ تین سطحی سکیورٹی بیریکیڈنگ کو پار کر کےسنگھو بارڈر پر ہو رہے مظاہرے تک پہنچ گیا تھا۔

اس دوران ان لوگوں نے کہا کہ کسانوں کے مظاہرے سے ان کا روزگار متاثرہوا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ان لوگوں اور کسانوں کے بیچ جھڑپ ہو گئی۔ یہ سب پولیس کے سامنے ہوا۔ ایسے کئی ویڈیو سامنے آئے، جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جب ان لوگوں نے کسانوں پر پتھراؤکیا تو پولیس خاموش تماشائی  بنی رہی ۔

کسان یونینوں کے رہنماؤں نے دعویٰ کیا تھا کہ اس بھیڑ کو بی جے پی اور آر ایس ایس کی حمایت حاصل تھی۔پنیا کوحراست میں لیے جانے کی خبریں آنے کے بعد ان کا ایک ویڈیو وائرل ہوا، جن میں انہیں بیریکیڈ کے پاس پولیس کے ذریعےگھسیٹتے دیکھا جا سکتا ہے۔

کارواں میگزین کے پالیٹکل ایڈیٹر ہرتوش سنگھ بل نے ٹوئٹ کرکے کہا تھا کہ پنیا نے مظاہرہ  کے پیچھےکی صداقت  کی تصدیق کرنے کی کوشش میں پورا دن بتا دیا تھا۔

بل نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘ہمیں پتہ چلا کہ مندیپ صبح سے ہی یہ پتہ لگانے کی کوشش کر رہے تھے کہ سنگھو پر خود کو مقامی لوگ بتانے والوں کی بھیڑ بی جے پی اور آر ایس ایس سے وابستہ تھی یا نہیں۔’

انہوں نے یہ بھی کہا کہ میگزین کو ایڈیشنل ڈی ایس پی جے مینا کی جانب سےبتایا گیا کہ علی پور پولیس تھانے میں ایک ایف آئی آر درج کی گئی ہے اور آئی پی سی کی دفعہ186،332 اور 353 کے تحت پنیا پر معاملہ درج کیا گیا ہے۔ یہ تینوں دفعات سرکاری ملازم کے کام میں خلل ڈالنے سے متعلق ہیں اورضمانتی جرم  ہیں۔

معلوم ہو کہ سنیچر کو دیر رات تک کوئی وضاحت  نہیں تھی کہ مندیپ پنیااور دھرمیندر سنگھ کو گرفتار کیا گیا ہے یا صرف حراست میں لےکر جانے دیا گیا۔بل نے دیر رات ٹوئٹ کرکے کہا، ‘میگزین  پنیا کے بارے میں صحیح جانکاری  کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اتوار صبح میگزین کو بتایا گیا کہ پنیا کو گرفتار کیا گیا ہے اور مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائےگا۔’

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، صحافی دھرمیندر سنگھ کواتوار کو پانچ بجے صبح رہا کر دیا گیا۔نیوزلانڈری کے ایک رپورٹر کا کہنا ہے کہ سنگھ کو ایک انڈرٹیکنگ(سمجھوتہ نامہ)پردستخط کرنے کے بعد رہا کیا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ مستقبل میں ایسا کچھ نہیں کریں گے۔

جانکاری کے مطابق، دہلی کے پٹیل نگر واقع پولیس ہیڈکوارٹر پر اس کو لےکر ایک مظاہرہ  کامنصوبہ بنایاجا رہا ہے۔کانگریس رہنما پرینکا گاندھی واڈرا نے کہا کہ بی جے پی  کسانوں کے مظاہرہ  کو کچلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے صحافیوں کے خلاف معاملے درج کیے جانے کی مذمت بھی کی ہے۔

انہوں نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘کسانوں کے مظاہرہ کوکور کر رہے صحافیوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے، ان پرمقدمے کیےجا رہے ہیں۔ کئی جگہوں پر انٹرنیٹ بند کر دیا ہے۔ بی جے پی سرکار کسانوں کی آواز کو کچلنا چاہتی ہے، لیکن وہ  بھول گئے ہیں کہ جتنا دباؤگے، اس سے زیادہ آوازیں آپ کے ظلم  کے خلاف اٹھیں گی۔’

اتوار دوپہرکو ملی جانکاری کے مطابق، پنیا کو ان کے وکیل کی موجودگی کے بناعدالتی  حراست میں بھیج دیا گیا ہے۔ وکیل کے مطابق انہیں بتایا گیا تھا کہ دو بجے پیش کیا جائےگا، لیکن اس سے پہلے ہی پیش کر دیا گیا۔گزشتہ کچھ دنوں میں 26 جنوری کو کسانوں کی ٹریکٹر ریلی کے دوران غیرمصدقہ خبریں شیئر کرنے کے الزام  میں کئی صحافیوں پرسیڈیشن  کے مقدمے درج کیے گئے ہیں۔

یہ ایف آئی آر 26 جنوری کو دہلی میں ہوئے کسانوں کے ٹریکٹر ریلی کی رپورٹنگ کے سلسلےمیں دائر کی گئی ہیں، جن میں شروعاتی کچھ رپورٹوں میں کہا گیا تھا کہ دہلی کے آئی ٹی او پر ایک نوجوان  نوریت سنگھ کی گولی لگنے سے موت ہوئی، لیکن بعد میں دعویٰ کیا گیا کہ ٹریکٹر پلٹنے سے اس کی موت ہوئی۔

یہ ایف آئی آر کانگریس رہنماششی تھرور، انڈیا ٹو ڈے کے صحافی راجدیپ سردیسائی، نیشنل ہیرالڈ کے سینئر کنسلٹنگ ایڈیٹر مرنال پانڈے، قومی آواز کےایڈیٹر ظفر آغا، کارواں میگزین کے مدیر اور بانی پریش ناتھ، اس کے مدیراننت ناتھ اور ایگزیکٹو ایڈیٹرونود کے جوس اور ایک نامعلوم  شخص کے خلاف دہلی اور بی جے پی مقتدرہ  کچھ ریاستوں میں درج کی گئی ہے۔

اتوار کو اتر پردیش پولیس نے دی  وائر کےبانی مدیر سدھارتھ وردراجن کے خلاف بھی الگ سے ایف آئی آر درج کی۔اتر پردیش کی رام پور پولیس نے سدھارتھ وردراجن کے خلاف ایک ٹوئٹ کو لےکر ایف آئی آر درج کی ہے۔ اس ٹوئٹ میں انہوں نے نوجوان کی موت کو لےکر ان کے اہل خانہ  کے دعوے سے متعلق  خبر کو ٹوئٹ کیا تھا۔

کئی میڈیاتنظیموں نے صحافیوں کے خلاف معاملے درج کیے جانے کی مذمت  کی ہے اور اس صورت حال  کو غیر اعلانیہ ایمرجنسی بتایا ہے۔ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا کی صدرسیما مصطفی کا کہنا ہے، ‘یہ الزام صرف صحافیوں کو ڈرانے یا ہراساں کرنے کے لیے نہیں ہیں، بلکہ پیشہ وروں کو خوف زدہ  کرنے کے لیے بھی ہیں، تاکہ وہ  اپنا کام کرنے سے ڈریں۔’

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)