خبریں

سال 2016-2019 کے دوران یو اے پی اے کے تحت 5922 لوگوں کو گرفتار کیا گیا: سرکار

راجیہ سبھا میں مرکزی وزیر مملکت برائے امور داخلہ جی کشن ریڈی نے بتایا کہ نیشنل کرائم  ریکارڈ بیورو کے تازہ ترین  اعدادوشمارکےمطابق سال2019 میں  یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیے گئےافراد کی کل  تعداد 1948  ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 2016 سے 2019 کے دوران قصوروار ثابت ہوئے افراد کی تعداد132 ہے۔

(علامتی تصویر، فوٹو:رائٹرس)

(علامتی تصویر، فوٹو:رائٹرس)

نئی دہلی:مرکزی حکومت نے بدھ کو بتایا کہ سال2016 سے 2019 کے بیچ ملک  کے مختلف  حصوں میں یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیے گئے لوگوں کی کل تعداد 5922 ہے۔راجیہ سبھا میں ایک سوال کے تحریری  جواب میں مرکزی وزیر مملکت برائے امور داخلہ جی کشن ریڈی نے بتایا کہ نیشنل کرائم  ریکارڈ بیورو(این سی آربی)کےتازہ ترین  اعدادوشمار کے مطابق سال2019 میں یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیے گئے افراد کی کل  تعداد1948 ہے۔

انہوں نے کہا کہ یو اے پی اے کے تحت 2016 سے 2019 کے دوران گرفتار کیے گئے افراد کی کل تعداد 5922 ہے، جبکہ قصوروار ثابت ہوئے افراد کی تعداد132 ہے۔

راجیہ سبھا ممبرسید ناصر حسین کی جانب  سے یہ سوال پوچھا گیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی پوچھا تھا کہ یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیے گئے لوگوں میں سے اقلیت، ایس سی ، ایس ٹی  اوراوبی سی کمیونٹی کے کتنے افراد ہیں؟

اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ این سی آربی مذہب، نسل، کاسٹ، اور صنف کی بنیاد پر اعدادوشمار نہیں رکھتا۔

اس سے پہلے پچھلے سال ستمبر میں سرکار نے پارلیامنٹ میں جانکاری دی تھی کہ سال 2016، 2017 اور 2018 کے دوران یو اے پی اے کے تحت بالترتیب کل 922،901 اور 1182 معاملے (کل 3005 معاملے)درج کیے گئے تھے اور ان سالوں میں کل 999، 1554 اور 1421 افراد(کل 3980 لوگ گرفتار)کو گرفتار کیا گیا تھا۔’

اس کے علاوہ ریڈی نے بتایا تھا کہ این سی آربی سے موصولہ جانکاری کے مطابق سال 2016، 2017 اور 2018 کے دوران ملک میں یو اے پی اے کے تحت درج معاملوں میں سے بالترتیب232،272 اور 317 معاملوں (کل 821 معاملے) میں سکیورٹی  ایجنسیوں کے ذریعےچارج شیٹ داخل کیے گئے ہیں۔

یعنی کل 3005 معاملوں میں سے صرف 821 میں ہی چارج شیٹ داخل ہوئی تھی۔

معلوم ہو کہ یہ اعداد وشماراس لیےاہم  ہیں کیونکہ یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیے گئےافراد کو ضمانت حاصل  کرنے میں بہت ہی مشکل ہوتی ہے اور جب تک جانچ ایجنسیاں چارج شیٹ دائر نہیں کر دیتی ہیں، تب تک ملزم  کو ضمانت مل پانا لگ بھگ ناممکن رہا ہے۔

 (خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)