ابھی حا ل ہی میں پارلیامنٹ کے اجلاس کے دوران مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے جب واضح کر دیا کہ اگر کسی دلت یعنی نچلی ذات کے ہندو شخص نے اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام یا مسیحی مذہب اختیار کیا ہو تو الیکشن میں یا نوکریوں میں وہ دلتوں کے لیےمخصوص ریزورویشن کی سہولیت سے محرو م ہوجائےگا تووہ پٹیل کی ہی روح بول رہی تھی۔
معروف اردو شاعر جوش ملیح آبادی نے 1948 میں دہلی میں جب وزرات اطلاعات و نشریات کے جریدہ آ ج کل کی ادارت سنبھالی تو اپنے دیرینہ رفیق وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی ایما ء پر وہ نائب وزیر اعظم اور اپنے محکمہ کے وزیر سردار ولبھ بائی پٹیل سے ملنے چلے گئے۔ اپنی خود نوشت سوانح حیات ‘یادو کی بارات’ میں اس ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے، جوش صاحب لکھتے ہیں کہ پٹیل نے ان کو کمرے میں لےجا کر بٹھاتے ہی انگریزی میں کہا کہ؛
آپ نے سنا ہو گاکہ میں مسلمانوں کا دشمن ہوں۔میں آپ جیسے ان تمام مسلمانوں کی بڑی عزت کرتا ہوں، جن کے خاندان باہر سے آکر یہاں آباد ہوگئے ہیں۔ لیکن میں ان مسلمانوں کو پسند نہیں کرتا، جن کا تعلق ہندو قوم شودر اور نیچی ذاتوں سے ہے اور مسلمانوں کی حکومتوں کے اثر میں آکر انہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔
یعنی ان کا کہنا تھا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد نیچی ذات کے ہندوؤں کو مغالطہ ہوجاتا ہے کہ وہ اب اونچی ذات کے ہندوؤں یعنی برہمن، چھتری اور ویشیا یعنی بنیا طبقے کے برابر ہوگئے ہیں، جس پر ان کو اعتراض تھا۔
ابھی حا ل ہی میں پارلیامنٹ کے اجلاس کے دوران مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے جب واضح کر دیا کہ اگر کسی دلت یعنی نچلی ذات کے ہندو شخص نے اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام یا مسیحی مذہب اختیار کیا ہو تو الیکشن میں یا نوکریوں میں وہ دلتوں کے لیےمخصوص ریزورویشن کی سہولیت سے محرو م ہوجائےگا تووہ پٹیل کی ہی روح بول رہی تھی۔
ان کا یہ بیان خود ہندوستانی آئین کی روح یعنی مذہبی آزادی کی ضمانت کی ہی توہین تھی، جب وہ مزید وضاحت کرکے بتا رہے تھے کہ سکھ یا بودھ مذہب اختیار کرنے والے دلت ہندوؤں کے لیےیہ سہولیات برقرار رہےگی۔ فی الوقت لوک سبھا میں 84نشستیں دلت امیدواروں کے لیےمختص ہیں۔ یعنی ان سیٹوں پر سیاسی پارٹیاں صرف دلت امیدواروں کو ہی ٹکٹ دے سکتی ہیں۔
ہندوستانی آئین میں نچلی ذات یا دلت کی تشریح اس طرح کی گئی ہے کہ جو شخص کمتر خدمات انجام دینے سے روزی روٹی کماتا ہو۔یعنی جھاڑو دینا، کھیل تماشہ دکھانا، بہشتی، جانوروں کی کھال نکالنا، چمار، موچی، دھوبی، نٹ، جولاہا، مداری، بھانٹ، جوگی منگتا (فقیر)ڈفالی،ڈوم،بھنگی، منہار، وغیرہ غرض اس طرح کی تقریباً سو کے قریب پیشہ وروں کو اس زمرے میں رکھا گیا ہے، جو ریزور سیٹوں پر الیکشن لڑنے کے حقدار ہوں گے، نیز نوکریوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مجموعی طور پر 17فیصد نشستوں کے حقدار ہوں گے۔
گو کہ ہندوستانی آئین کا مقدمہ جو اس کی روح مانی جاتی ہے، اور جس میں ترمیم بھی نہیں کی جاسکتی ہے، مذہبی آزادی اور کوئی بھی مذہب اختیار کرنے کی ضمانت دیتا ہے، مگر اسی آئین کی دفعہ 341 میں یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ اگر دلت عیسائیت یا اسلام قبول کرتا ہے تو انہیں ریزرویشن کی مراعات نہیں ملے گی گو کہ وہ اپنے پرانے پیشہ سے ہی روزگار کماتا ہو۔
یعنی اگر موچی ہندو ہوتو سماج میں اس کا رتبہ بلند کرنے اور اس کے بچوں کو نوکریوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیےاعلیٰ ذاتوں کے ہندوؤں کے ساتھ مسابقت نہیں کرنی پڑتی ہے، کیونکہ ان کے لیےریزرویشن کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ مگر اگر موچی مسلمان یا عیسائی ہو، تو اس کو جنرل کیٹیگری میں مسابقت کرنی پڑتی ہے، یعنی اسی پیشہ سے وابستہ ہونے کے باوجود اس کو ریزرویشن کی سہولیت سے صرف اپنے مذہب کی وجہ سے محروم کردیا گیا ہے۔
بقول سابق ممبر پارلیامنٹ ڈاکٹر اعجاز علی، جو پچھلی کئی دہائیوں سے پسماندہ مسلمانوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں، آئین کی اس شق نے دلتوں پر اسلام کے دروازے بند کر دیے ہیں، دوسری طرف اسلا م یا مسیحت قبول کرنے والے نچلی ذات کے ہندوؤں اورپسماندہ مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن کر دی ہے۔ یہ معاملہ کئی دہائیوں سے سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کے سامنے زیر التوا ہے۔
مجال ہے کہ بابری مسجد کے قضیہ کی طرح سپریم کورٹ اس کی کارروائی میں کسی طرح کی عجلت دکھائے۔ اعجازعلی کا کہنا ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں نے دفعہ370کے مندرجات کو کاالعدم کرنے کا ایک جواز یہ بھی دیا تھاکہ ریاست جموں و کشمیر میں اس کی وجہ سے پسماندہ طبقات خصوصاً دلتوں کے ایک گروپ والمیکیوں کو ریزرویشن سے محروم کیا جاتا تھا کیونکہ اس ریاست میں مسلمانوں کی آبادی بہت زیادہ ہے۔
ان طاقتوں کو پھر دفعہ 341پر لگی مذہبی قید کیوں نظر نہیں آتی ہے جس نے ہندوستانی مسلمانوں کی بڑی آبادی کو دلتوں سے بھی پیچھے کرنے کا کام کیاہے؟
ہندوستانی دستور کی بنیادی دفعات یعنی 12سے لے کر 35تک میں شخصی اور مذہبی آزادی کی باتیں لکھی گئی ہیں اور تنبیہ کر دی گئی ہے کہ کوئی بھی قانون ان دفعات کے تقاضوں کے مطابق ہی ہونا چاہیے، ورنہ کاالعدم سمجھا جائے گا۔
لیکن اس آئینی وارننگ کے باوجود 10اگست 1950کو نہرو کی ایما پر صدرڈاکٹر راجندر پرساد کے ذریعے ایک صدارتی حکم نامہ جاری کروا یا گیا کہ محض انہیں کو ریزرویشن اور دوسری مراعات حاصل ہوں گی جو ہندو مذہب (سناتن دھرم)کو ماننے والا ہوگا اس کے علاوہ غیر ہندو دلتوں کو ریزرویشن سے محروم کر دیا گیا۔
یاد رہے کہ آئین کی دفعہ 35A جو جموں و کشمیر کے باشندوں کی انفرایت اور الگ شہریت کو تسلیم کرتا تھا، وہ بھی صدارتی حکم سے ہی آئین میں شامل کردی گئی تھی۔ فرقہ پرستوں کو اعتراض تھا کہ اس دفعہ کو پارلیامنٹ کی منظوری حاصل نہیں تھی۔ مگر 341پر صدارتی حکم نامہ ان کو منظور ہے۔
برطانوی حکومت نے اس سے قبل استحصال زدہ طبقات(ڈپریشڈ کلاس) کے لیے مراعات کا اہتمام کیا تھا۔ جس میں پیشے کی بنیاد پر فہرست بنائی گئی تھی۔ اعجاز علی کے مطابق شروع میں اس ریزرویشن کا دائرہ بہت وسیع تھا اور اس پر کسی طرح کی مذہبی قید نہیں تھی۔ چونکہ مسلمانوں کی زیادہ ترآبادی پیشہ ور ہے اس لیے 1936کے آرڈ ر کے مطابق تیار کردہ لسٹ میں مسلمانوں کی بڑی آبادی شامل تھی اور مہاراشٹر میں مسلمان اس کا فائدہ بھی اٹھارہے تھے۔
مگر اس پر مذہبی قید لگانے سےمسلمانوں کے ساتھ سکھ، بودھ،عیسائی بھی اس زمرے سے باہر ہوگئے۔ لیکن بعد میں سکھوں اوربودھوں کو دوبارہ شامل کر لیا گیا لیکن مسلمانوں کی آبادی آج بھی اس زمرے سے باہر ہے۔بلکہ پسماندہ اور ان پیشوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے لیے لالچ کا بھی سامان مہیا کیا گیا ہے کہ مراعات حاصل کرنے کے لیے دوبارہ ہندو مت قبل کرلو۔
فرقہ پرستوں کے علاوہ اس میں سب سے بڑا رول سیکولرزم کی پجاری کہنے والی ملک کی سب سے قدیم سیاسی پارٹی کانگریس کا تھا، جس نے نہ صرف ملک کے اقلیتوں کو ریزر ویشن سے محروم کیا بلکہ آئین کی روح کی بھی خلاف ورزی کی۔ ظلم و زیادتی کی علامت سمجھی جانے والی بر طانوی حکومت نے ملک کے اقلیتوں کو جو مراعات دی تھیں، آزادی کے بعد ان کو چھین لیا گیا۔
سال1920کی دہائی میں جب صدیوں سے دبے کچلے دلتوں نے اپنے حقوق مانگنے شروع کیے اور ذات پات کے نظام کے خلاف تبدیلی مذہب کی دھمکیاں دیں تو ستمبر 1930کو مہاراشٹر کے شہر پونا میں دلت لیڈر بھیم راؤ امبیڈکر اور مہاتما گاندھی کے درمیان ایک معاہدہ طے ہوا کہ دلتوں کو قانون ساز اداروں میں 18فیصد ریزرویشن دی جائیں گی۔
اس سے قبل امبیڈکر نے اعلان کیا تھا کہ بڑی تعداد میں دلت اسلام یا مسیحت قبول کریں گے، جہاں ذات پات کا نظام موجود نہیں ہے۔ مگر ان کو بتایا گیا کہ اس سے ملک بھر میں دلتوں کا قتل عام شروع ہوجائےگا اور ان کی زندگی مزید اجیر ن ہوجائےگی۔ پونا پیکٹ کے نام سے موسوم اس معاہدہ پر اعلیٰ ذاتوں کی طرف سے مدن موہن مالویہ نے دستخط کیے۔
سال2005میں جسٹس راجندر سچرکمیٹی اور بعد میں جسٹس رنگناتھ مشراکمیشن نے آئین میں مناسب ترمیم کی سفار ش کرتے ہوئے مسلم اورعیسائی دلتوں کو بھی شیڈول کاسٹس یعنی دلت ریزرویشن کے زمرے میں رکھنے کی سفارش کی تھی۔
سچر کمیٹی نے تو یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ دلتوں کے لیے لوک سبھا کی 84 محفوظ نشستوں میں اکثریت ان سیٹوں کی ہے، جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد رہتی ہے۔ چونکہ ان سیٹوں سے کسی مسلم امیدوار کی جیت متوقع ہوتی ہے اسی لیے ان کو دلتوں کے لیےمخصوص کرکے کسی مسلمان امیدوار کے لیے نامزگی کے ہی دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔
جسٹس سچر نے کہا تھا کہ بجائے مسلم اکثریتی سیٹوں کو محفوظ کرنے کے دلت اکثریتی علاقوں کی نشستوں کو محفوظ کیا جائے جو کہ ایک معقول سفارش تھی کہ اگر آپ مسلمانوں کو ریزرویشن نہیں دے سکتے ہیں تو کم از کم مسلم اکثریتی علاقوں سے ا ن کو انتخاب لڑنے سے روکنے کے سامان تو مہیامت کراؤ۔ مگر جب پچھلی کانگریس حکومت نے ہی ان سفارشات کو نافذ کرنے میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا، تو موجودہ ہندو قوم پرست حکومت سے گلہ ہی کیا ہے۔
رنگناتھ مشرا رپورٹ نے من موہن سنگھ حکومت پر زور دیا تھا کہ عیسائی اور مسلم دلتوں کے لیےبھی ہر سطح پر ویسے ہی دلت کوٹا ہو جیسے کہ ہندو دلتوں کو میسر ہے۔ کیونکہ وہ دلت جو مذہب تبدیل کرنا چاہتے ہیں ان کو یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ وہ اگر مسلمان یا عیسائی مذہب اختیار کرتے ہیں تو وہ دلت کوٹا سے محروم ہوجائیں گے۔
اس سفارش کو لاگو کرنے سے دلتوں کا مسلم یا عیسائی عقیدہ اختیار کرنے کا راستہ کھل جاتا۔ اگر اس ر پورٹ کا اطلاق ہوجاتا تو چند دہائیوں میں ہی ہندوستان کا سیاسی،سماجی، مذہبی،تعلیمی اور معاشی نقشہ تبدیل ہوجاتا۔
بقول معروف صحافی ظفر آغا، رنگناتھ مشرا رپورٹ مسلم تاریخ میں1857کے بعد کا ایک اہم سنگ میل تھی ۔ 1857وہ سال تھا جب مسلمان کے ہاتھوں سے اس ملک کا اقتدار چلا گیا اوراس کے بعد یہ بھی طے ہوگیا کہ آزاد ی کے بعد جو اقتدار ملے گا وہ شاہی نہیں بلکہ جمہوری نظام کی شکل میں ہوگا، جس میں عددی قوت ایک اہم جز ہوگی۔
مگر 1857کے بعد مسلمانوں نے باحیثیت مسلمان، نظام میں اپنے حصے کی جو مانگ کی تھی، رنگناتھ مشرا رپورٹ نے کسی حد تک اس مانگ پر اپنی مہر ثبت کردی تھی۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہندوستا ن میں فرقہ پرستی اور فاشزم کو اگرلگام دینی ہے تو مسلمانوں اور دلتوں کے درمیان کسی تال میل کی گنجائش نکالنی ہوگی کیونکہ دونوں سسٹم کے ستائے ہوئے ہیں۔
مگر اس کے لیے ابھی کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ فرقہ پرست طاقتیں مسلم ووٹ کی طرح دلت ووٹوں کی بھی بے اثر کرنے کی سعی کریں گے تاکہ تعداد کے باوجود وہ ان کے لیے خطرہ ثابت نہ ہونے پائیں۔ لہذا جہاں گودی میڈیا کے ذریعے مسلم آواز کو دبانے کے لیے پاکستانی، سکھ آواز کو کچلنے کے لیےخالصتانی لیبل لگائی جاتی ہے، وہیں دلت آوازوں کو خاموش کرنے لئے نکسل وادی کی اصطلاح مرتب کی گئی ہے۔ وقت مگر آگیا ہے کہ سردار پٹیل کے فرقہ پرست پیروکاروں سے نمٹنے کے لیےیہ سبھی آوازیں اکٹھا ہوں۔
Categories: فکر و نظر