خبریں

آسام اسمبلی انتخابات میں سی اے اے کوئی مدعا نہیں بنے گا: سربانند سونو وال

آسام اسمبلی انتخابات سے پہلے ریاست میں مقتدرہ بی جے پی  پر شہریت قانون پر بولنے سے بچنے کا الزام لگ رہا ہے، جبکہ سی اے اے مخالف تحریکوں  سے نکلی سیاسی پارٹیوں  کے ساتھ اپوزیشن   پارٹیاں اس کو بڑا مدعا بنانے میں لگی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر سی اے اے نافذ نہیں ہونے دیں گی۔

آسام کے وزیراعلیٰ سربانند سونووال(فوٹو بشکریہ:فیس بک)

آسام کے وزیراعلیٰ سربانند سونووال(فوٹو بہ شکریہ:فیس بک)

نئی دہلی: آسام میں این آرسی کی حتمی فہرست کو ناقص قرار دیتے ہوئے اس کونافذ کرنے سے انکار کر چکے وزیر اعلیٰ سربانند سونووال نے آئندہ  اسمبلی انتخابات سے پہلے کہا ہے کہ اس انتخاب میں شہریت  قانون (سی اے اے)کوئی مدعا نہیں بنےگا۔

بتا دیں کہ آسام کی 126رکنی اسمبلی سیٹوں کے لیے تین مرحلوں  میں میں 27 مارچ، ایک اپریل اور چھ اپریل کو ووٹنگ  ہوگی۔

انڈین ایکسپریس کو دیے ایک انٹرویو میں سی اے اے مخالف تحریکوں سے نکلی دو سیاسی پارٹیوں کے بی جے پی کو نقصان پہنچانے کے امکانات کے بارے میں پوچھے جانے پر سونووال نے کہا، ‘یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے آسام کے لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ کیسے انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ (سی اے اے کی وجہ سے)ڈیڑھ سے دو کروڑ لوگ (بنگلہ دیش سے)آسام میں آ جا ئیں گے؟’

انہوں نے آگے کہا،‘آسام کے لوگ سیاسی  طور پر بیدارہیں۔ انہیں پتہ چل گیا ہے کہ ان رہنماؤں نے اپنے مفاد کے لیے جھوٹ کہا تھا۔ انہوں نے غلط جانکاری  اور غلط تصور پھیلایا اور لوگوں کے جذبات کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔’

سونووال نے کہا، ‘وہ لوگوں کے دماغ میں جھوٹ بھرنا چاہتے تھے، لیکن بعد میں جب ہم نے اپنا رخ صاف کیا کہ ہم یہاں آسام کے لوگوں کےمفادات کے تحفظ  کے لیے ہیں تب لوگوں نے ان کی باتوں کو ان سنا کر دیا اور ہماری باتیں مان لیں۔’

انہوں نے کہا، ‘سی اے اے اس انتخاب میں کوئی مدعا نہیں ہوگا۔ آسام کے لوگ ہمیں مانتے ہیں، نہ کہ ان لوگوں کو۔ میں آسام کے لوگوں کو اپنا ماں باپ مانتا ہوں، ہم نے انہیں کبھی گمراہ نہیں کیا۔’دراصل،سی اے اے مخالف تحریکوں  سے نکلیں دو پارٹیاں رایجور دل (آرڈی)اور آسام جاتیہ پریشد(اے جی پی) ہیں، جواتحاد میں اسمبلی انتخابات لڑ رہی ہیں۔

رایجور دل کی قیادت کسان مکتی سنگرام سمیتی(کے ایم ایس ایس)کے رہنما اکھل گگوئی کر رہے ہیں، جنہیں پچھلے سال احتجاج  کے دوران گرفتار کر لیا گیا تھا۔این آئی اےنے ان پر سیڈیشن  کا الزام  لگایا ہے۔غورطلب ہے کہ سی اے اے کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آئے ایسے ہندو، سکھ، جین، بودھ، پارسی اور عیسائی کمیونٹی  کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینا ہے، جو ان ممالک  میں مذہبی طور پر ہراسانی کی وجہ سے31 دسمبر 2014 تک ہندوستان  آ گئے تھے۔

معلوم ہو کہ گزشتہ سال 11 دسمبر کو پارلیامنٹ  سے شہریت قانون پاس ہونے کے بعد سے ملک بھر میں احتجاج  ہوئے تھے۔ گزشتہ 12 دسمبر کو صدر کی منظوری ملنے کے ساتھ ہی یہ ایکٹ  اب قانون بن گیا ہے۔اس کے بعد آسام کے ساتھ ہی ملک بھر میں شدید احتجاج  ہوا تھا اور اسی سلسلے میں دہلی میں دنگے بھی بھڑک گئے تھے۔

آسام میں احتجاج  کرنے والوں میں طلبا، کسانوں،شہری سماج سمیت مختلف  طبقے کی تنظیمیں  شامل رہے ہیں اور یہ احتجاج اتنا تیز تھا کہ لوگ راتوں کو مشعلیں لےکر نکلتے تھے اور اس دوران پولیس کی  کارروائی میں کم سے کم پانچ لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔

مغربی  بنگال میں سی اے اے نافذ کرنے کی بات کرنے والی بی جے پی آسام میں اس سے پر کچھ بھی بولنے سے بچ رہی ہے، جبکہ اپوزیشن  پارٹیاں اسے بڑا مدعا بنا رہی ہیں اور اقتدارمیں آنے پر سی اے اے نافذ نہیں کرنے کی بات کہہ رہی ہیں۔

گزشتہ دو مارچ کو آسام کے تیج پور میں کانگریس جنرل سکریٹری  پرینکا گاندھی وادرا نے دعویٰ کیا کہ بی جے پی رہنما ملک  بھر میں گھوم گھوم کر سی اے اے نافذ کرنے کی باتیں کر رہے ہیں، لیکن آسام میں آتے ہی وہ  اس پرخاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔

وہیں، گزشتہ14 فروری کو آسام کے شیوساگر کی ریلی میں کانگریس رہنما راہل گاندھی نے وعدہ کیا تھا کہ پارٹی آسام سمجھوتے کا احترام کرےگی اور مارچ اپریل میں ہونے والے (اسمبلی)انتخاب  جیتنے پر سی اے اے نافذنہیں کرےگی۔

راہل گاندھی کی اپیل کے بعد کانگریس نے سی اے اے مخالف پیغام  لکھے ‘گاموشا’(آسام میں عزت افزائی  کے طورپر دیا جانے والا بنا ہوا روایتی سفید اورلال کپڑا) جمع  کرنے کے لیے مہم  شروع کی ہے۔

کانگریس نے کہا ہے کہ اگر وہ ریاست میں اقتدار میں آتی ہے تو وہ سی اے اے مخالف مظاہروں  میں جان گنوانے والے لوگوں کے احترام میں‘شہید میموریل’بنائےگی، جس پر یہ گاموشے کی نمائش کی جائیں گی۔