اتر پردیش کی سیاست کو لےکربی جے پی کے باربار ‘سب کچھ ٹھیک ہے’کہنے کے باوجود کچھ بھی ٹھیک نہ ہونے کے اندیشےختم ہوتے نظر نہیں آ رہے۔
ملک کے سب سے بڑے صوبے اتر پردیش میں لگتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی قواعدسے اب تک لست پست دکھ رہے اپنے اپوزیشن کو خود اپنی کمزوریوں کا پتہ دے دیا ہے۔
حالاں کہ ابھی کچھ مہینوں پہلے تک کوئی کہتا کہ یہ صوبہ اپنے اسمبلی انتخاب والےسال میں ملک ہی نہیں، دنیا کی سب سے بڑی پارٹی بی جے پی اور اس کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے گلے کی پھانس بن جائےگا،صوبے میں ان کی اکثریت والی سرکار ہونے کے باوجود تو کوئی ماننے کو تیار نہ ہوتا۔
بھلے ہی وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ میں جس پھوٹ کا چرچہ ان دنوں عام ہے، اس کے بیج گزشتہ جنوری میں ہی پڑ گئے تھے، جب مودی نے اپنے سب سے قابل اعتماد نوکرشاہوں میں سے ایک ارویند کمار شرما کو رضاکارانہ ریٹائرمنٹ دلوا کر لکھنؤ بھیجا اور کونسل کا ممبرمنتخب کروایا، لیکن یوگی نے انہیں وزارتی عہدہ دلوانے کی ان کی کوششوں کو نہ صرف انگوٹھا دکھا دیا بلکہ ان سے ملنا بھی گوارہ نہیں کیا۔
پھر بھی بی جے پی کے امکانات کو لےکر جیسےشکوک و شبہات کے اظہاراب اس کے خیرخواہوں تک کی جانب سےکیے جا رہے ہیں، تب ان کے ذریعےان شبہات کا اظہار نہیں کیا گیا تھا، جو اسے پھوٹی آنکھوں بھی دیکھنا پسند نہیں کرتے۔
اس لیے کورونا کی دوسری لہر سے نمٹنے میں مودی و یوگی دونوں سرکاروں کی مکمل ناکامی کے بعد کے پس منظر میں اگلے سال ہونے والے اتر پردیش اسمبلی انتخابات کی تیاریوں کے نام پر بی جے پی و سنگھ میں چل رہی قواعد داغ دہلوی کی ایک بےحدمعروف غزل کے دو شعرکی یادتازہ کر رہی ہے؛
عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں
باعث ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
ان کے اس طرح نہ صاف چھپنے، نہ ہی سامنے آنے کا ہی نتیجہ ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہوا جا رہا ہے اور انہیں روکنے کی ساری کوششیں ناکام ہوئی جا رہی ہیں۔
یہ قیاس آرائیاں کبھی پھیل کرقیادت کی تبدیلی یعنی یوگی کو وزیر اعلیٰ اور سوتنتر دیو سنگھ کو پارٹی کے ریاستی صدرکےعہدوں سے ہٹانے تک پہنچ جاتی ہیں اور کبھی یوگی کابینہ کی توسیعات کےامکانات تک محدود ہو جاتی ہیں، جس میں کچھ ‘نالائق’ وزراء کو ہٹانا اور ارویند کمار شرما کو شامل کیا جانا ہے اور یوگی یہ نہیں چاہتے۔
غورطلب ہے کہ یہ قیاس آرائیاں پچھلے دنوں تب زورو شور سے شروع ہوئیں جب گزشتہ مئی میں آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری دتاترییہ ہوسبلے لکھنؤ آئے اور ان کے ساتھ یوگی کا برتاؤ اچھا نہیں رہا۔ پھر بی جے پی کے ریاستی انچارج رادھاموہن سنگھ قومی جنرل سکریٹری بی ایل سنتوش کے ساتھ صوبے میں پارٹی اور سرکار کی نبض ٹٹولنے آئے۔
وزیروں اور کارکنوں کے ساتھ گپ چپ یعنی بند کمروں تک کی بیٹھکوں کے بعد وہ دہلی لوٹ گئے اور وہاں پارٹی کے قومی صدر وجنرل سکریٹریوں کی بیٹھک اور سنگھ کےغورخوض کے بعد ‘خاموشی’ یا کہ ‘جنگ بندی’کا پیغام دیا گیا تو قیاس آرائیاں تھوڑی تھم ضرورگئیں، لیکن 6 جون کو جیسے ہی رادھاموہن سنگھ نے گورنر آنندی بین پٹیل اور اسمبلی اسپیکر ہردیہ ناراین دکشت سے ملاقات کی اور کہتے ہیں کہ گورنر کو کوئی بند لفافہ دیا، اور زور پکڑ گئیں۔
کہتے ہیں کہ ان لفافے میں یوگی سے ناخوش بی جے پی کے کوئی ڈھائی سو ایم ایل اے کے دستخط ہیں، جو اس پیش بندی میں دیے گئے ہیں کہ مرکزی قیادت کی کسی کارروائی سے ناخوش یوگی اچانک اسمبلی تحلیل کروانے جیسی کوئی چال چلنا چاہیں تو اسےناکام کیا جا سکے۔
صاف ہے کہ یہ، تو ڈال ڈال تو میں پات پات کا کھیل ہے۔ البتہ اب بات چیت کی نوعیت قدرے بدل گئی ہے کیونکہ قیاس ں لگانے والوں کو یوگی کو ہٹائے جانے کاکوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ صاف کہیں تو انہیں نہیں لگتا کہ بی جے پی اس کی ہمت کر پائےگی۔ اس کی تین بڑی وجوہات ہیں۔
پہلا،یہ کہ پارٹی کو لگتا ہے کہ اسمبلی انتخاب میں اب اتنا کم وقت بچا ہے کہ قیادت کی تبدیلی کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا الٹے نقصان ہو سکتا ہے۔ کیونکہ وزیروں ،ایم ایل اےاور کارکنوں میں شدید بے اطمینانی اورذات پات کو بڑھاوا دینےا ور نظم ونسق درست نہ رکھ پانے کے متعدد الزامات کے باوجود یوگی باہمی رضامندی سے ہٹنے والے نہیں ہیں اور جبراً ہٹائے جانے پر چپ نہیں بیٹھنے والے۔
دوسرا، حالات ‘ادھر کنوا ں تو ادھر کھائی’ والے موڑ تک جا پہنچے ہیں، جن کے مد نظرقیادت کی تبدیلی کرنے سے بھی پارٹی کا نقصان ہی ہونا ہے اور نہ کرنے سے بھی۔ اس لیے اس میں ایک خیال یہ بھی ہے کہ جب نئی قیادت کوانتخاب تک اپنی نئی امیج گڑھنے بھر کو موقع نہیں ملنے والا تو پرانے کو ہٹاکر اس کی ناراضگی کا جوکھم ہی کیوں اٹھایا جائے؟
وزیر اعظم نے جنوری میں ارویند کمار شرما کو لکھنؤ بھیجا تو تبدیلی کی قواعدکے مد نظر وقت تھوڑا مناسب ضرور تھا، لیکن اب اسے گنوایا جا چکا ہے۔
تیسرا اور سب سےاہم، جو یوگی حامیوں کی جانب سے آگے کیا جا رہا ہے، یہ ہے کہ کورونا سے نمٹنے میں ناکامی کے نام پر اتر پردیش میں قیادت کی تبدیلی کی جائے تو مرکزمیں کیوں نہ کی جائے؟ مرکزی حکومت نے ہی کورونا کو کون بڑی کامیابی سے نمٹایا ہے؟ پھر یوگی نے بطور وزیر اعلیٰ خود کو ویسے ہی تو بنایا ہےجیسےوزیر اعظم کے طور پر نریندر مودی ہیں۔ وزیروں اورایم ایل اے کی حیثیت ان کے یہاں بھی ویسی ہی ہے جیسی مودی کے یہاں۔ نوکرشاہوں کے ذریعے یہاں بھی سرکار چل رہی ہے،مرکز میں بھی۔
ان باتوں کی وجہ سے بھی کئی سطحوں پر ‘سامنے آتے نہیں’ کی پالیسی اپنائی جا رہی ہے۔ کیونکہ مانا جا رہا ہے کہ پارٹی کی اندرونی لڑائی باہر آئی تو دوسری پارٹیوں سےاتحاد کی قواعد میں بھی مشکلات آئیں گی، پارٹی کے ذریعے اندرخانے جن کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر مایاوتی کا رخ کتنا بھی موافق کیوں نہ ہو، وہ ایسی پارٹی کا ساتھ کیوں دینا چاہیں گی، جس میں لکھنؤ سے دہلی تک جوتم پیزار مچی ہوئی ہو؟
پھر بھی اس کی بدقسمتی سے اتنی بدمزگی باہر آ چکی ہیں کہ ان سطروں کے چھپتے چھپتے یوگی کے کابینہ کی توسیع کی تاریخ طے ہو جائے یا وہ انجام پذیرہو جائے تو بھی وہ شاید ہی ایک ٹیم کے طور پرتنظیم سے ہم آہنگی برت کر کام کر پائے۔
رادھاموہن سنگھ کے ذریعےیوگی کے کام کاج کی کھلی تعریف کے باوجود یہ پوچھا جانا نہیں ہی رکا ہے کہ اس کے پیچھے کیا ہے؟ پارٹی کے باربار ‘سب کچھ ٹھیک ہے’ کہنے کے باوجود کچھ بھی ٹھیک نہ ہونے کے خدشات ختم ہونے کو نہیں آ رہے۔
یہ کہنے والے بھی کم نہیں ہیں کہ نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ کی تنظیم میں ریاستی صدر کے عہدے پر واپسی بھرپور چرچاؤں کے باوجود اس لیے ممکن نہیں ہو پائی، کیونکہ وزیر اعلیٰ ان کے جیسے قدآور کو اس عہدےپر نہیں دیکھنا چاہتے تھے، بھلے ہی غیر یادو پچھڑوں سے دھوکے کا الزام پارٹی پر اور چسپاں ہو جائے۔
نتیجہ صاف ہے: صوبے کا گرماگرم سیاسی ماحول کابینہ کی توسیع اورتنظیم میں پھیر بدل کے راستے تھم بھی جائے تو بھی اس کی خاموشی کی مدت کو لےکرخدشات بنے رہیں گے، کیونکہ پارٹی فی الحال، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے دلوں کے بیچ کی گانٹھیں کھولنے میں ناکام رہی ہیں۔
مجبوری میں وہ جس لیپا پوتی میں لگی ہے، اس سے لگتا ہے کہ ہاتھی کے باہر نکل آئے دانتوں کو اندر کرنے کی ناممکن کوشش کر رہی ہے۔ اسی لیے نہ پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں میں یکجہتی کا یقین پیدا کر پا رہی ہے، نہ ہی عام لوگوں میں۔
جہاں تک آر ایس ایس کی بات ہے، یہ ماننے کی بھی ایک نہیں کئی وجہیں ہیں کہ اسے یوگی اور مودی دونوں سے زیادہ اپنے ہندوتوا کے ایجنڈہ کی فکر ہے۔ اس لحاظ سے اتر پردیش میں یوگی، ان کی سرکار اور ساتھ ہی مودی سے ان کے رشتوں کے مستقبل کو لےکر’دروڑ پرانایام'(سیدھی طرح ہونے والی بات کو گھماپھرا کر کرنا) کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اس کو ان کی عظمت پر بھروسہ نہیں رہ گیا ہے۔
ہاں، اس بھروسے کے نہ رہ جانے کی ایک وجہ مغربی بنگال اسمبلی نتخابات کے نتائج بھی ہیں، کرناٹک سمیت کئی اور صوبوں میں وزرائے اعلیٰ اوروزیروں کے مرکزی قیادت کے خلاف سر اٹھانے سے پیدا ہوئی پریشانیاں بھی۔
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر