اسمبلی انتخابات سے کچھ مہینے پہلے اتر پردیش بی جے پی میں‘سیاسی عدم استحکام’کا انفیکشن شروع ہو گیا، جس کے مرکزمیں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ہیں۔ بی جے پی-آر ایس ایس کے رہنماؤں کے غوروخوض کے بیچ سوال اٹھتا ہے کہ حالیہ دنوں میں ایسا کیا ہوا کہ انہیں یوپی کا میدان فتح کرنااتنا آسان نہیں دکھ رہا، جتنا سمجھا جا رہا تھا۔
اسمبلی انتخابات کے ٹھیک نو مہینے پہلے کووڈ کی دوسری لہر کے اترتے اترتے اتر پردیش بی جے پی میں‘سیاسی عدم استحکام’کا انفیکشن شروع ہو گیا، جس کے مرکز میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ہیں۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی قائدانہ صلاحیت ، انتظامی صلاحیت پر سوال اٹھنے لگے اور کہا جانے لگا کہ ان کی قیادت میں بی جے پی یوپی کا انتخاب نہیں جیت پائےگی۔
اتر پردیش میں قیادت کی تبدیلی کی چرچہ تیز ہو گئی۔ لکھنؤ اور دہلی میں بی جے پی- آر ایس ایس کے اعلیٰ رہنماؤں کے ملن ہوئے، بیٹھکیں ہوئیں اور آخرکار یوگی کو بھی دو روزہ دورے پر دہلی جاکر وزیر اعظم،وزیر داخلہ اور بی جے پی کے قومی صدر سے ‘ملاقات’ کرنی پڑی اور ‘رہنمائی حاصل’کرنی پڑی۔
یوگی آدتیہ ناتھ کے دہلی جانے کے ایک دن پہلے کانگریس کے سینئررہنما اور سابق مرکزی وزیر جتن پرساد بی جے پی میں شامل ہوئے۔ بی جے پی میں شامل ہوتے ہی انہیں بڑے براہمن رہنما کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔
دہلی اور لکھنؤ میں ہوئی بیٹھکوں اور ملاقاتوں کا نچوڑ یہ نکل کر آیا ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی اعلیٰ قیادت اس بات کو لےکرفکرمند ہیں کہ یوگی آدتیہ ناتھ بی جے پی ایم ایل اے،ایم پی اور وزیر وں کو ساتھ لےکر نہیں چل رہے ہیں۔ وہ اتحادی پارٹیوں کو بھی نظر انداز کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم کے نزدیکی آئی اے ایس افسر اےکے شرما، جنہیں دو سال پہلے ریٹائر کر یوپی میں ایم ایل سی بنا کر بھیجا گیا، انہیں یوپی کابینہ میں وزیر نہیں بنایا گیا اور ان سے وزیر اعلیٰ نے ملنا تک پسند نہیں کیا۔صوبے میں نوکر شاہی بری طرح حاوی ہے اور عوامی نمائندے حاشیے پر چلے گئے ہیں۔
کووڈ کی دوسری لہر کو تھامنے میں وزیر اعلیٰ بری طرح ناکام رہے اور شمشان میں جلتی چتائیں، گنگا ندی میں بہتی لاشیں اور ندی کنارے دفن لاشوں کی تصویریں عالمی میڈیا کی سرخیاں بنیں۔ ایم ایل اے، ایم پی اوروزیر خط لکھتے رہے کہ آکسیجن، اسپتال بیڈ کی کمی سے لوگ مر رہے ہیں اور وہ کچھ نہیں کر پا رہے ہیں۔
کووڈ کی دوسری لہر کے بیچ میں ہوئے پنچایت انتخاب میں بی جے پی کی کراری ہار ہوئی اور بنا کسی تیاری کے انتخاب لڑی سماجوادی پارٹی کو غیر متوقع طور پر بڑی کامیابی ملی۔ لکھنؤ، ایودھیا، وارانسی جیسی جگہوں پر بھی ضلع پنچایت ممبر کے انتخاب میں بی جے پی کو بری ہار کا سامنا کرنا پڑا۔
میڈیا اور اپنی پارٹی کےاندر سے آ رہی تنقید سے یوگی آدتیہ ناتھ بےپرواہ بنے رہے۔ انہوں نے ریاست کا دورہ شروع کر دیا اور یہ کہا جانے لگا کہ ان کی فعالیت اورپالیسیوں نے کووڈ کی دوسری لہر کو قابو کر لیا۔
میڈیا میں اشتہارات، انٹرویو اور ‘اسپانسرڈ خبروں’کے ذریعے یہ بتایا گیا کہ ‘یوپی میں سب ٹھیک ہے اور یوگی کی قیادت میں بی جے پی سرکار نے غیرمعمولی حصولیابی’ حاصل کی ہیں، لیکن اس کے باوجود صوبے میں بی جے پی پارٹی اور سرکار میں بڑی تبدیلی کی چرچہ تھمی نہیں بلکہ تیز ہوتی گئی۔
بی جے پی -آر ایس ایس کے بیچ اس غوروخوض سے یہ سوال کھڑا ہوا کہ آخر حالیہ دنوں میں ایسا کیا ہوا کہ انہوں نے یہ پایا کہ یوپی کامیدان فتح کرنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا سمجھا جا رہا ہے؟
بنگال کے انتخابی نتائج آنے تک یوگی آدتیہ ناتھ بی جے پی کے سب سے چہیتے اسٹار پرچارکوں میں تھے اور انہیں تریپورہ، کیرل، تلنگانہ جیسےجنوب کے صوبوں میں بھی اجلاس لیے بھیجا جاتا تھا جہاں وہ ہندی میں تقریر کرتے تھے۔
یہ مشتہر کیا جاتا تھا کہ یوپی کے باہر بھی وہ بےحد مقبول ہیں اور ان کے اجلاس کا اثر ہوتا ہے۔ بنگال انتخاب میں بھی انہوں نے ریلیاں کیں لیکن بنگال انتخاب کا نتیجہ اور کووڈ کی دوسری لہر نے سب کچھ جیسے بدل کر رکھ دیا۔ وزیر اعظم کے عہدہ کے مستقبل کے دعویداروں میں گنے جانے والے یوگی آدتیہ ناتھ کے بارے میں یہ چرچہ شروع ہو گئی کہ مارچ 2022 میں ہونے والے انتخاب میں اپنا گڑھ بھی بچا پائیں گے یا نہیں؟
دراصل بنگال کی ہار نے بی جے پی کو کرارا جھٹکا دیا ہے۔ اس سے اس کا بھروسہ ہل گیا ہے۔ اس لیے یوپی میں وہ کسی طرح کی چوک نہیں کرنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کووڈ انفیکشن سے جوجھ رہی عوام کو راحت پہنچانے میں طاقت لگانے کے بجائے اس نے انتخابی تیاری شروع کر دی ہے۔
بی جے پی کو پتہ ہے کہ صوبوں کے انتخاب میں اکثر اسے کڑی ٹکر کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جھارکھنڈ میں اسے اقتدار گنوانا پڑا۔ بہار میں اسے کسی طرح مشکل لڑائی میں کامیابی ملی اور سرکار بن گئی لیکن وہاں کمزور کامیابی کی وجہ سےہی بی جے پی اور جے ڈی یو میں تضاد بڑھتا جا رہا ہے۔ ہریانہ میں بھی اسے گٹھ بندھن سرکار بنانی پڑی ہے۔ آسام میں بی جے پی ضرور واپسی کرنے میں کامیاب ہوئی۔
کووڈ کی دوسری لہر کو تھامنے میں یوگی سرکار کی ناکامی
یوپی سرکار کووڈ کی دوسری لہر کو تھامنے میں بری طرح ناکام رہی ہے بھلے ہی وہ اسے قابو کرنے میں اپنی کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے۔ یوگی سرکار کو کووڈ کی دوسری لہر کے آنے اور اس کا سامنا کرنے کی کوئی تیاری نہیں تھی۔
یہاں تک کہ کووڈ کی پہلی لہر کے دوران بنے کووڈ اسپتال بند کر دیےگئے تھے۔ اسپتال بیڈ، آکسیجن، وینٹی لیٹر اورڈاکٹر و پیرامیڈیکل اسٹاف اور دوائیوں کا پہلے سے کوئی انتظام نہیں تھا۔ اس لیے جب کووڈ کی دوسری لہر آئی تو پورا سسٹم بے یارو مددگار بن گیا۔
گاؤں سے لےکر شہر تک کوئی جگہ کووڈ کی تباہ کن مار سے نہیں بچی۔ کووڈ کے علاج کا ذمہ نجی اسپتالوں کو سونپ دیا گیا، جہاں لوگوں کو ڈھنگ کا علاج بھی نہیں ملا اور وہ استحصال کے شکار بھی ہوئے۔
ریاستی سرکار مؤثر قدم اٹھانے کے بجائے اپریل ماہ میں پنچایت انتخاب کرانے میں جٹی رہی۔ پنچایت انتخاب کووڈ انفیکشن کے لیے سپر اسپریڈر ثابت ہوا۔ تین ہزار سے زیادہ انتخابی اہلکاروں کی کووڈ انفیکشن سے موت ہو گئی۔
سرکار کی پوری طاقت کووڈ سے ہوئی اموات کو چھپانے میں لگی رہی۔ شمشان میں جلتی چتاؤں کی تصویر لینے کو جرم قراردیا گیا تو گنگا کے کناروں پر دفن ہزاروں لاشوں کو ‘پہلےسے چلی آ رہی روایت’ بتایا گیا۔
پنچایت انتخاب میں ہار کی ٹیس
پنچایت انتخاب میں ہار کو بی جے پی پچا نہیں پا رہی ہے۔ بہار انتخاب ختم ہوتے ہی سابق وزیر زراعت رادھاموہن سنگھ کو یوپی کا انچارج بنا دیا گیا اور ان کی قیادت میں پنچایت انتخاب میں کامیابی کی حکمت عملی بننے لگی۔ ہر ضلع میں بی جے پی نے جیت کی حکمت عملی بنائی تھی لیکن اس میں ایک چوک ہو گئی۔
بی جے پی نے طے کیا کہ ضلع پنچایت ممبر کےانتخاب میں وہ اس بار ایم پی ،ایم ایل اے، وزیروں کے نزدیکیوں اور رشتہ داروں کو انتخاب میں نہیں اتارےگی۔ وہ کارکنوں کو امیدوار بنائےگی۔ پارٹی کے لحاظ سے یہ ٹھیک فیصلہ تھا لیکن اس کا دوسرانتیجہ یہ ہوا کہ ضلعوں کے ایم پی ، ایم ایل اے، وزیروں اور بااثررہنماؤں نے ضلع پنچایت انتخاب میں دلچسپی نہیں لی اور امیدواروں کو ان کے بھروسے چھوڑ دیا۔
یہی وجہ ہے کہ کئی ایسے ضلع ہیں جہاں وزیروں کے حلقہ میں ایک بھی سیٹ بی جے پی نہیں جیت پائی ہے۔ اس کی وجہ سے ضلع پنچایت صدر سیٹ پر قبضہ کرنے کےمنصوبے پر بھی پانی پھرتا نظر آ رہا ہے۔
پچھڑی اور دلت کمیونٹی میں کمزور ہوتی پکڑ
اندرسے چھن کر آ رہی خبروں کے مطابق، بی جے پی اور آر ایس ایس کا اندازہ ہے کہ صرف ہندوتوا کے ایجنڈہ سے یوپی کا بیڑا پار نہیں ہوگا۔ پچھڑی اور دلت کمیونٹی کو بھی اسی طرح اپنے ساتھ رکھنا ہوگا جیسےاسمبلی انتخابات 2017 اور لوک سبھا انتخاب 2019 میں کیا گیا تھا۔
یوگی کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد وہ پچھڑی کمیونٹی اور دلت کمیونٹی خود کو نظرانداز محسوس کرنے لگیں جنہوں نے انتخاب میں بی جے پی کا ساتھ دیا لیکن انہیں سرکار اورپارٹی میں مناسب جگہ نہیں ملی۔ اوم پرکاش راج بھر کی سہیلدیو بھارتیہ سماج پارٹی جلد ہی سرکار سے الگ ہو گئی۔
اپنا دل کی انوپریا پٹیل کو مرکز میں وزیر نہیں بنایا گیا اور صوبے میں بھی ان کی پارٹی کو نظرانداز کیا گیا۔سال 2019 کے لوک سبھا انتخاب میں ساتھ آئی نشاد پارٹی بھی عوامی طور پر بیان دینے لگی کہ اسے سرکار میں نمائندگی نہیں دی جا رہی ہے۔ بی جے پی نشادوں سے کیا گیا وعدہ پورا نہیں کر رہی ہے۔ ان میں سے کئی پارٹیوں کی سماجوادی پارٹی سے بڑھتی نزدیکیاں سیاسی گلیارے میں چرچہ کا موضوع بنی ہوئی ہیں۔
ان چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ رشتہ ٹھیک کرنے کی پہل بی جے پی نے شروع بھی کر دی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کے آنے کے پہلے نشاد پارٹی کے صدر ڈاکٹر سنجے نشاد اور ان کے رکن پارلیامان بیٹےسے وزیر داخلہ امت شاہ نے ملاقات کی۔ اپنا دل کی صدر انوپریا پٹیل سے بھی شاہ کی ملاقات ہوئی۔
دراصل وزیر اعلیٰ یوگی ان سیاسی طاقتوں کو بہت توجہ نہیں دے رہے تھے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ ان کی کٹر ہندوتوارہنما کی امیج یوپی میں آرام سے بی جے پی کو پھر سے اقتداردلا دےگی۔ اس لیے وہ سیاست کے مرکزمیں آ رہی دلت و پچھڑی کمیونٹی کی تنظیموں اور ان کے رہنماؤں کو بہت اہمیت نہیں دیتے رہے ہیں۔
یاد کریے جب بی ایس پی سے نکلے بابو سنگھ کشواہا کو بی جے پی میں شامل کیا گیا تھا تو اس کی سب سے سے زیادہ مخالفت یوگی آدتیہ ناتھ نے ہی کی تھی۔ اسی طرح ان کے ہی علاقے میں تیزی سے ابھر رہی نشاد پارٹی کو وہ ساتھ لانے کے بجائے اس سے ٹکراؤ ہی مول لے لیا جس کا نتیجہ رہا کہ گورکھپور کی لوک سبھا سیٹ پر 2018 میں ہوئے ضمنی انتخاب میں بی جے پی کی ہار ہوئی۔ ایک سال بعد بی جے پی قیادت نے نشاد پارٹی کی اہمیت کوسمجھا اور اسے اپنے ساتھ لے آئی۔
بی جے پی کے ممبران اسمبلی کا عدم اطمینان اور افسر شاہی کا دبدبہ
یوگی آدتیہ ناتھ پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ ان کی سرکار میں نوکر شاہی کا دبدبہ ہے اور اس کی وجہ سے ہی سرکار اور پارٹی میں دوری بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اسی وجہ سےبی جے پی کے ممبران اسمبلی میں عدم اطمینان بڑھتا جا رہا ہے جس کا دھماکہ نومبر 2019 میں اسمبلی کے اندر دیکھنے کو ملا جب 200 سے زیادہ ممبران دھرنے پر بیٹھ گئے تھے۔
لکھنؤ میں مارچ 2021 کے دوسرے ہفتہ عشرےمیں ریاستی ورکنگ کمیٹی کی بیٹھک میں وزیر دفاع راجناتھ سنگھ اور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی موجودگی میں بلیا ضلع کے سابق ایم ایل اے رام اقبال سنگھ نے کسانوں کے سوال پر بولتے ہوئے اپنی سرکار کو سوالوں کے گھیرے میں لا دیا۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ تھانے اور تحصیل بدعنوانی کے اڈے بن گئے ہیں۔ انہیں بولنے سے روکنے کی کوشش ہوئی لیکن وہ نہیں رکے۔ ان کی تقریرکی ہال میں موجود ممبروں ، بی جے پی رہنماؤں نے تالی بجاکر بھرپور حمایت دی۔
نوکر شاہی کے دبدبہ کا عالم یہ ہے کہ افسر ایم ایل اے اور ایم پی کے فون تک نہیں اٹھاتے ہیں، ان کی بات سننا دور ہے۔ نجی بات چیت میں بی جے پی ایم ایل اے اپنی اس بات کا اکثر رونا روتے ہیں۔
سیتاپور کے بی جے پی ایم ایل اے راکیش راٹھور نے وائرل آڈیو- ویڈیو میں اپنا جو درد بیان کیا ہے وہ بی جے پی کے اکثر ممبران اسمبلی کی تکلیف ہے۔
کسانوں کی تحریک سے پیدا ہوا خوف
بی جے پی آر ایس ایس کی تشویش کسانوں کی تحریک کے اتر پردیش میں پڑنے والے اثرات کو لےکر بھی ہے۔ راکیش ٹکیت کو یوپی سرکار نے جس طرح سے گرفتار کرنے کی کوشش کی اس سے کسان آندولن میں نئی جان و طاقت آ گئی۔ راکیش ٹکیت پورے ملک کے کسان رہنما بن گئے۔ اس واقعہ نے مغربی اتر پردیش میں نئی ہلچل پیدا کر دی۔
مظفرنگر فرقہ وارانہ تشدد نے جاٹ اور مسلمانوں میں جو دوری پیدا کی تھی، وہ مٹ گئی اور وہ ایک منچ پر آ گئے۔ راشٹریہ لوک دل کو بھی کسان آندولن سے نئی طاقت ملی اور اس نے اپنی کھوئی طاقت حاصل کرنے کی کوششیں شروع کر دی۔
مغربی اتر پردیش میں ہوئی بڑی بڑی پنچایتوں، بی جے پی رہنماؤں کی مخالفت اورضلع پنچایت انتخاب کے نتائج نے تصدیق کی ہے کہ بی جے پی کو یہاں 2014، 2017 اور 2019 کی کامیابی کو پھر سے دہرا پانا لوہا چبانے جیسا ثابت ہوگا۔
کووڈ کی دوسری لہر کے پہلے تک مشرقی اتر پردیش میں بھی کسان آندولن کی توسیع ہونے لگی تھی۔ بارہ بنکی اور بستی ضلع کے منڈیروا میں نریش ٹکیت اور بلیا ضلع کے منیر میں راکیش ٹکیت کے اجلاس میں اچھی تعداد میں کسان جمع ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: اتر پردیش میں بی جے پی کی حالت سانپ-چھچھوندر والی ہو گئی ہے
ان اجلاس نے مشرقی اتر پردیش میں مختلف کسان تنظیموں کو متحرک کر دیا اور وہ آپس میں تال میل بناکر آگے بڑھنے لگے۔ کووڈ کی دوسری لہر نے اس کوشش کو روک دیا لیکن حالات کے نارمل ہوتے ہی کسان آندولن کے تیز ہونے کا امکان ہے۔
نوجوانوں ، اساتذہ اور ملازمین میں بڑھتا ہوا عدم اطمینان
کسانوں کے علاوہ بےروزگاری کے سوال کو لےکر نوجوانوں اور مختلف مانگوں کو لےکر اساتذہ اورملازمین میں کافی غصہ ہے۔ یہ غصہ کئی طرح کی تحریکوں میں ظاہرہوتا رہا ہے۔
الہ آباد میں بھرتی امتحانات میں گڑبڑی، بھرتی امتحانات کے رکے ہوئے نتیجے،ریزرویشن گھوٹالے کو لےکر لگاتار آندولن ہوتے رہے ہیں۔ بےروزگاری کو لےکر چلنے والے آندولن کا مرکز الہ آباد رہا ہے اور نوجوانوں نے اسے اپنے دم پر یوپی کا اہم سوال بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
حال کے دنوں میں کئی ادارے بےروزگاری او رنوجوانوں کے مدعے پر سوشل میڈیا میں متحرک رہے ہیں اور انہیں اچھی حمایت ملی ہے۔ وزیر اعلیٰ کے یوم پیدائش کو بے روزگاری کے دن کے طور پر منانے کا آندولن بھی سوشل میڈیا میں ٹاپ ٹرینڈ کرتا رہا۔
پنچایت انتخاب میں کووڈ انفیکشن سے بڑی تعدادمیں اساتذہ ، ملازمین کی موت نے بھی ان طبقوں میں سرکار کے خلاف غصے کوتیز کر دیا ہے۔
اساتذہ اور اسٹاف یونین پہلے سے ہی نئی پنشن سسٹم کے خلاف تحریک کرتے رہے ہیں۔ حال میں‘اترپردیش ایجوکیشن سروس ٹریبونل بل’کو پاس کرنے اور اس کونافذ کرنے کی کوششوں نے ان کا غصہ اور بڑھا دیا ہے۔ٹیچرس یونین نے وارننگ دی ہے کہ اس بل کے خلاف وہ کسان آندولن کی طرح آندولن کھڑا کریں گے۔
یونین جانتی ہے کہ یوگی سرکار نے چار سالوں تک ان کی مانگوں پر کارروائی کرنے کی بات تو دور اسے سنا تک نہیں ہے۔ ان کی آواز دبانے کے لیے لگاتار تین بار سے ضروری خدمات کی بحالی سے متعلق ایکٹ لاگو کیا جاتا رہا ہے۔ اس لیے اس بار وہ آر پار کی لڑائی کے موڈ میں ہیں۔
کانٹریکٹ ورکرز- شکشا متر، آشا، اے این ایم، آنگن باڑی انسٹرکٹرز، مدرسہ ٹیچر بھی اپنی مانگیں کو لےکر سرکار پر دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ اب جبکہ انتخاب میں نو مہینے بچے ہیں، ان کی مانگوں کو پورا کرنا سرکار کے لیے مشکل ہوگا جس کا خمیازہ اسے انتخاب میں بھگتنا پڑ سکتا ہے۔
یوگی چہرہ ہوں گے لیکن باگ ڈور دلی کے ہاتھ میں ہوگی
ان تمام حالات کاتجزیہ بی جے پی آرایس ایس نے کیا ہے اور اس کی کاٹ بھی ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حالیہ سیاسی ہلچل اسی تشویش اور غوروخوض کا نتیجہ ہے۔
بی جے پی- آر ایس ایس کی اعلیٰ قیادت فی الحال یوپی میں قیادت کی تبدیلی کا خطرہ نہیں اٹھانا چاہتی کیونکہ اس کے پاس کوئی بہتر متبادل نہیں ہے اور یہ وقت بھی اب بڑی تبدیلی کے لیے مناسب نہیں ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ، ترویندر سنگھ راوت یا سروانند سونیوال نہیں ہیں۔ انہیں ہٹائے جانے سے بڑا نقصان ہو سکتا ہے، بھلے ہی وہ بغاوت کی سطح پر نہ جائیں جیسا کہ وہ ماضی میں کرتے آئے ہیں۔ اس لیے لگتا ہے کہ فی الحال غیرمطمئن بی جے پی رہنماؤں اور اتحادی پارٹیوں کو مرکز اور ریاستی سرکار میں جگہ دےکر انہیں خوش کیا جائےگا۔
جتن پرساد جیسےرہنماؤں کو بی جے پی میں لاکر اورممکنہ طور پروزیر کا عہدہ دےکر یہ پیغام دیا جائےگا کہ بی جے پی براہمنوں کی بڑی خیرخواہ ہے۔ ساتھ ہی یہ طے ہو گیا ہے کہ یوپی انتخاب میں یوگی آدتیہ ناتھ چہرہ ضرور ہوں گے لیکن انہیں کھلی چھوٹ بھی نہیں ہوگی۔ انتخاب کی پوری باگ ڈور امت شاہ ہی سنبھالیں گے۔
ہندو یووا واہنی کی معدومیت اور یوگی کابی جے پی پر انحصار
یوگی آدتیہ ناتھ کی سیاسی زندگی23 سال کی ہے۔ وہ سب سے پہلے 1998 میں ایم پی بنے۔ وہ لگاتار پانچ بار ایم پی چنے گئے۔ اس دوران مرکز اور یوپی میں بی جے پی کی سرکار رہی لیکن یوگی کو سرکار میں جگہ نہیں ملی۔ پارٹی میں بھی ان کو کوئی عہدہ نہیں ملا۔
یوگی نے سال2000 میں ہندو یووا واہنی بنائی اور اس کے ذریعے سیاسی قد آگے بڑھاتے گئے۔ جب بی جے پی نے ان کی بات نہیں مانی تو ہندو یووا واہنی سے امیدوار اتار دیا۔ قریب دس سال ٹکراؤ کے بعد آخرکار بی جے پی نے مان لیا کہ گورکھپور اور اس کے آس پاس کے ضلعوں میں یوگی آدتیہ ناتھ کے پسند کے مطابق ٹکٹ دیے جانے لگے۔
جب بی جے پی میں یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنی مقبولیت بڑھا لی، توسال2017 کے انتخاب میں انہوں نے ہندو یووا واہنی کو اپنی خواہشات کی بلی چڑھا دی۔ نتیجہ ہوا کہ ہندو یووا واہنی کے بڑے رہنما بغاوت کر باہر چلے گئے۔
یوگی کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد اب اس تنظیم کی حالت یہ ہے کہ اس کے تمام رہنمایا تو بی جے پی میں شامل ہو گئے ہیں یا انہوں نے اپنی دوسری راہ ڈھونڈ لی ہے۔غیرفعال ہو جانے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔
یوگی کو بطور وزیر اعلیٰ لمبی مدت کار ملی۔ اس کے پہلے بی جے پی سرکار میں کسی وزیر اعلیٰ کو اتنی بڑی مدت نہیں ملی تھی۔ یہ ان کے لیے ایسا موقع تھا جس میں وہ بی جے پی میں اپنی مقبولیت اور پکڑ بڑھا سکتے تھے۔مشرقی اتر پردیش کے علاوہ مغربی اتر پردیش، بندیل کھنڈ جیسے علاقوں میں بھی اپنے کو قائم کر سکتے تھے لیکن وہ ایسا نہیں کر سکے۔
شعوری طور پربی جے پی کی اعلیٰ قیادت نے انہیں تنظیمی کاموں سے دور رکھا اور خود یوگی نے بھی تنظیم میں اپنی پکڑ مضبوط کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے پوری توجہ مشرقی اتر پردیش وہ بھی گورکھپور پر لگائے رکھی۔ لگ بھگ ہرہفتہ عشرے وہ گورکھپور میں نظر آتے رہے۔
یوگی اپنی مدت کارمیں چند نوکرشاہوں پر پوری طرح منحصر رہے۔ نوکرشاہوں نے میڈیا مینجمنٹ کر انہیں میڈیا میں سرخیاں تو دیں لیکن انہیں بی جے پی رہنماؤں، کارکنوں ، ایم ایل اے،ایم پی ا ور اپنے لوگوں سے دور کر دیا۔ نوکر شاہی نے اپنے فائدے کے لیے انہیں زمین کی سچائی سے دور رکھا۔
اپنی ہر تنقید کو، چاہے وہ باہر سے آ رہی ہو یا اندر سے، یوگی آدتیہ ناتھ نے اس کا استحصال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں ان کی ساکھ تو گری ہی ہے، پارٹی اور سرکار میں بھی ان کے حمایتی کم ہوتے گئے۔ ہندو یووا واہنی کی‘معدومیت’نے انہیں بی جے پی پر ‘منحصر’بنا دیا۔
ظاہر ہے کہ انتخاب کےبعد نتیجہ چاہے بی جے پی کے حق میں آئے یا خلاف، دونوں حالات میں یوگی کے سیاسی جیون کو ایک نیا موڑ ملےگا، یہ یقینی ہے۔
یوگی کے سیاسی عزائم سے مودی شاہ بھی بخوبی واقف ہیں۔ اس لیے یوپی انتخاب کی تیاریوں کے بہانے شعوری طور پر یوپی میں قیادت تبدیلی کی چرچہ کو ہوا دی گئی۔
اس واقعہ سے یوگی کی‘نہ جھکنے والی باغیانہ امیج’ کو زبردست دھکا لگا بلکہ یوں کہیں کہ پہنچایا گیا۔ ‘دہلی’ نے انہیں احساس دلا دیا کہ ‘دہلی’ ابھی ان کے لیے کافی دور ہے اور ‘لکھنؤ’ میں ہی وہ محفوظ نہیں ہیں۔
(منوج سنگھ گورکھپور نیوزلائن ویب سائٹ کے مدیرہیں۔)
Categories: فکر و نظر