گزشتہ جمعرات کو وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی میں ہوئے کل جماعتی اجلاس میں شامل رہیں سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ جموں وکشمیر میں زمینی حالات ویسے نہیں ہیں جیسےدنیا کے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں۔ کسی کے خلاف شکایت ہےتو اسے احتیاطی حراست میں ڈال دیا جاتا ہے، ٹوئٹر پرحقیقی جذبات لکھنے پر جیل ہو جاتی ہے۔ کیا اسے ہی جمہوریت کہا جاتا ہے۔
نئی دہلی: پیپلس ڈیموکریٹک پارٹی(پی ڈی پی)کی صدرمحبوبہ مفتی نے جمعہ کو دہرایا کہ وہ خود تب تک کوئی انتخاب نہیں لڑیں گی جب تک کہ جموں وکشمیر کا خصوصی درجہ بحال نہیں ہو جاتا۔انہوں نے ساتھ ہی کہا کہ مرکزی قیادت کو یہ یقینی بنانے پر توجہ دینی چاہیے کہ سابقہ ریاست کے لوگوں کے ساتھ دل کی دوری ختم ہو۔
سابق وزیر اعلیٰ نے جموں کشمیر کا خصوصی درجہ رد کرنے کے لیے5 اگست، 2019 کو پاس کیے گئے احکامات کو ہٹانے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا، ‘جبراور استحصال کےدور کو ختم کرنا ہوگا۔’مرکز نے 5 اگست، 2019 کو خصوصی درجہ ختم کرنے کے بعد اس وقت کے جموں وکشمیر صوبے کو دویونین ٹریٹری جموں وکشمیر اور لداخ میں منقسم کر دیا گیا تھا۔
محبوبہ نے کہا،‘میں نے کئی بار واضح کیا ہے کہ میں یونین ٹریٹری میں کوئی انتخاب نہیں لڑوں گی، لیکن ساتھ ہی میری پارٹی اس بات سے بھی واقف ہے کہ ہم کسی کو سیاسی جگہ نہیں لینے دیں گے۔ ہم نے پچھلے سال ضلع ترقیاتی کونسل کا انتخاب لڑا تھا۔’
معلوم ہو کہ محبوبہ مفتی نےپچھلے سال حراست سے چھوٹنے کے بعد کہا تھا کہ جب تک پانچ اگست 2019 کو آئین میں کی گئی تبدیلیوں کو واپس نہیں لے لیا جاتا، تب تک انہیں انتخاب لڑنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔پی ڈی پی صدر نے کہا، ‘اسی طرح اگر اسمبلی انتخاب کا اعلان ہوتا ہے تو پارٹی بیٹھ کر چرچہ کرےگی۔’
جموں وکشمیر کے لیے آگے کی راہ پر چرچہ کرنے کے لیے جمعرات کو وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کرنے والے 14رکنی وفد میں شامل رہیں محبوبہ نے اس بات پر زور دیا کہ اعتماد کی بحالی کے کئی تدبیر کرنے کی ضرورت ہے۔
اس بیٹھک میں وزیر اعظم نے یقین دلایا تھا کہ ‘مکمل ریاست کے درجے کو صحیح وقت آنے پر بحال کیا جائےگا، ساتھ ہی انتخاب کروانے کے لیےحدبندی کی اہمیت پر بھی زور دیا تھا۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اس سابقہ صوبے سے ‘دہلی کی دوری’ کے ساتھ ہی ‘دلوں کی دوریوں’ کو مٹانا چاہتے ہیں۔
این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے محبوبہ نے اس پر کہا، ‘انتخاب سے پہلے لوگوں میں بھروسہ قائم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کا یقین ڈگمگا گیا ہے۔ وہ ٹوٹ گئے ہیں۔ مایوس ہیں… تو سب سے پہلے آپ کو لوگوں کے پاس جانا ہوگا۔ انتخاب بعد میں ہو سکتے ہیں۔’
انہوں نے آگے کہا، ‘ہمیں لگا تھا کہ ہم اعتماد کو بڑھانے کے کچھ طریقے نکالنے میں اہل ہو ں گے، شاید اس سے لوگوں کو کچھ راحت ملے۔ اسی لیے ہمیں لگا کی وہاں (بیٹھک میں)جانااہم ہے۔’انہوں نے کہا کہ دوبارہ بھروسہ قائم کرنے کے لیے ان میں جموں، کشمیر اور لداخ خطے کے سیاحتی اور کاروباری کمیونٹی کو راحت فراہم کرنا شامل ہے۔
پی ڈی پی رہنما نے کہا،‘جموں وکشمیر کے لوگوں کے ساتھ دل کی دوری کو کم کرنا ہوگا اور اس کے لیے پاس تمام سخت احکامات پر عمل کو روکنا ہوگا۔ آج کل جموں کشمیر میں جبرواستحصال کا دور ہے۔’
انہوں نے سوال کیا،‘جس کسی کو بھی کسی افسر کے خلاف شکایت ہوتی ہے، اسے احتیاطی حراست میں ڈال دیا جاتا ہے، ٹوئٹر پر حقیقی جذبات کو اجاگر کرنے سے آپ کو جیل ہو جاتی ہے۔ کیا اسے ہی جمہوریت کہا جاتا ہے۔’
محبوبہ نے کہا کہ اس طرح کی کاروائیوں پر فوراً روک لگانے اور لوگوں کو کھل کر سانس لینے دینے کی فوراً ضرورت ہے۔انہوں نے کہا، ‘جموں وکشمیر میں زمینی حالات ویسے نہیں ہیں جیسے وہ دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ لوگ ناخوش ہیں اور گھٹن محسوس کر رہے ہیں۔’
محبوبہ نے کہا، انہوں نے (مرکزی حکومت)محسوس کیا ہے کہ ان کے منصوبے کے مطابق چیزیں نہیں ہوئی ہیں، اور شاید تھوڑی ہمدردی کی وجہ سے جو وہ چھوڑ گئے تھے، انہوں نے ہم سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ ہم وزیر اعظم کے دفتر کے احترام کے لیے وہاں گئے تھے۔
گزشتہ24 جون کو 14رکنی وفد نے نہ صرف وزیر اعظم بلکہ وزیر داخلہ امت شاہ اور سینئر نوکرشاہوں سے بھی ملاقات کی۔ وفد کے دیگر ممبروں میں سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ، غلام نبی آزاد اور عمر عبداللہ وغیرہ شامل تھے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ کل جماعتی اجلاس میں شامل اکثر سیاسی پارٹیوں نے جموں وکشمیر کےمکمل ریاست کا درجہ بحال کرنے اور جلد سے جلد اسمبلی انتخاب کروانے کی مانگ اٹھائی۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں