کل جماعتی اجلاس کوسمجھنے کے لیے جموں وکشمیر کا ماہر ہونے کی ضرورت نہیں،معمولی سیاسی اور اخلاقی فہم کافی ہے۔حکومت ہند نے کیوں انہی رہنماؤں کو بلایا، جنہیں وہ خودغیرضروری مانتی رہی ہے؟ وجہ صاف ہے۔ وہ ایسی بیٹھکوں کے ذریعے5 اگست 2019 کو اٹھائے غیرآئینی قدم کو عوامی طور پرایک طرح کی قانونی حیثیت دلانا چاہتی ہے۔
آپ نے میری پیٹھ میں خنجر پیوست کر میرے منھ پر پٹی باندھ دی۔ اب جب آپ نے پٹی ہٹائی ہے تو مجھے کیا کہنا چاہیے؟ یہی کہ آپ کا خنجر میری پیٹھ میں پیوست ہے۔
جموں اور کشمیر کے سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کے ساتھ حکومت ہند نے جو بیٹھک کی، کیا اس پر ہم کبھی ایمانداری سے بات کر پائیں گے؟کیا ہم یہ سیدھے سیدھے کہہ پائیں گے کہ ہندوستان کی عوام اور جموں وکشمیر کے لوگوں کے ساتھ جو لمبے وقت سے دھوکہ دھڑی کی جا رہی ہے، یہ بیٹھک اس سیریل کی ایک اور قسط ہے؟
ایک ایسا ڈراما جو بھارتیہ جنتا پارٹی کی یہ سرکار اپنے نام نہاد ہندی بولنے والوں خطوں کے رائے دہندگان ناظرین میں پھر سے اپنی ڈھٹائی اور چالاکی کے کھلے مظاہرے سے تالیاں بٹورنے کے لیے کر رہی ہے؟
اس بیٹھک کو سمجھنے کے لیے آپ کو ہندوستان اور جموں وکشمیر کا ماہر ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ کے پاس معمولی سیاسی اور اخلاقی فہم کا ہونا ہی کافی ہے۔
جموں وکشمیر کا آر ایس ایس اور اس کی سیاسی ونگ بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاست میں سیاسی اہمیت ہے۔ آزادی کے بعد یہ واحد صوبہ تھا جس کی سیاسی قیادت مسلمانوں کے پاس ہی رہی۔ دوسرے،اس صوبے کا خصوصی درجہ بھی تھا۔ آرٹیکل 370، کتنا ہی گھس کیوں نہ گیا ہو، جموں وکشمیر کو خودمختاریت کا احساس دیتا تھا۔ اس کا ایک جھنڈا تھا۔
ان سب وجہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی اپنےرائے دہندگان کو یہ کہتی رہی تھی کہ یہ ایک ایسا علاقہ ہے، جس پر پورا قبضہ نہیں کیا جا سکا ہے۔ وہ قبضہ کرنا اور جموں و کشمیر کو پوری طرح ہندوستانی بنانا اس قومی سیاست کا ایساخواب تھا جو اس کے حامیوں کی توسیع پسندی کی خواہش کو سہلاتا اورمطمئن بھی کرتا تھا۔
مسلمان اکثریتی یونین ٹریٹری لکش دیپ کے ساتھ ابھی جو کیا جا رہا ہے، اسے دیکھنے پر یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آ جاتی ہے۔ مسلمان بی جے پی کی شرطوں پر ہی اپنی زندگی جی سکتے ہے، یہی پیغام لکش دیپ کے ایڈمنسٹریٹر کا ہے۔
بی جے پی کےنیشنل ازم کی نرم طریقے سے اس طرح توضیح کی جا سکتی ہے؛ہندوستان ایسا ملک ہوگا، جس میں مسلمان اور عیسائیوں کو کچھ شرطوں کے ساتھ جینے کی اجازت ہوگی، اپنے رسم و رواج محدود دائرے میں جاری رکھنے کی بھی، لیکن انہیں ہندوستان میں کبھی بھی کسی طرح کی سیاسی اہمیت کےرول کی امیدپوری طرح سے چھوڑ دینی ہوگی۔
اس کے علاوہ ہندوستان کے کسی بھی حصہ پر غیر ہندو رنگ حاوی نہیں دکھنا چاہیے۔ ہندوستان کے لگ بھگ تمام صوبے اس شرط کو پورا کرتے تھے سوائے جموں وکشمیر کے۔ اس لیے اسے توڑنا بی جے پی کی سیاست کے جواز کے لیے ضروری تھا۔
قوم پرستی میں جو توسیع پسندی کی خواہش ہوتی ہے،اسے 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کو ختم کرکے، اس کاخصوصی درجہ چھین کر پورا کیا گیا۔
یہ کافی ہوتا یہ ثابت کرنے کے لیے کہ جموں وکشمیر کو ہندوستان میں پوری طرح ملا لیا گیا ہے۔ لیکن کئی قدم اور آگے جاکر اور اپنے حامیوں کو بھی اپنی حماقت سے حیرت میں ڈالتے ہوئے بی جے پی کی سرکار نے اس سے صوبے کا درجہ بھی چھین کر اسے یونین ٹریٹری بنا دیا۔
اتنا ہی نہیں اسے ٹکڑوں میں بھی بانٹ دیا۔ یہ کشمیر کی عوام، جو اکثر مسلمان ہیں، کو ذلیل کرنے کے علاوہ کچھ اور نہ تھا، یہ مرکزی حکومت اور باقی سب لوگ جانتے تھے۔
اس وقت مرکزی حکومت نے اپنے اس قدم کےحق میں جو دلیل دی، وہ بودے اور بیکار تھے…کہ یہ قدم جموں وکشمیر کے ہندوستان کے ساتھ تال میل کے لیے ضروری تھا،کہ یہ صوبےکی ترقی کے لیےلازمی ہو گیا تھا،کہ اس سے اس علاقے میں دہشت گردی پر قابو پایا جا سکےگا۔ یہ سارے دلائل دھوکے کے علاوہ کچھ نہ تھے۔
اس قدم کے ایک دن پہلے ہی صوبے کےتمام سیاسی رہنماؤں کو غیر قانونی طریقے سے گرفتار کر لیا گیا۔ سپریم کورٹ نے اس کی طرف سے آنکھ موندکر مرکزی حکومت کو شہ دی۔
صوبے میں جبر و استحصال کا زور بڑھا۔فوج اور نیم فوجی دستوں کی تعداد میں ہزاروں کا اضافہ ہوا۔ انٹرنیٹ بند ہو گیا، میڈیا پر سختی بڑھا دی گئی، گرفتاریاں بڑے پیمانے پر ہوئیں۔ مقامی ملازمین، پولیس کو بھی ذلیل کرنے کے طریقے تلاش کیے گئے۔
یہ کہنا ہوگا کہ بی جے پی سرکار نے جسے دھیان میں رکھ کر یہ کیا تھا، اس کی اس عوام میں اسے لےکر ایک شیطانی خوشی تھی۔ ان کی طرف سے ایک علاقے کو فتح کیا گیا تھا، کشمیریوں کا سر نیچا کر دیا گیا تھا۔
دوسرا پیغام ہندوستان کےخصوصی علاقوں کےمسلمانوں کے لیے تھا کہ دہائیوں پرانا وعدہ کھلے عام توڑا جا سکتا ہے،ہندوستان اور اس کی آبادیوں کے بیچ کے توازن کو خراب کیا جا سکتا ہے۔
پچھلے دو سالوں میں اس علاقے کی آبائی پہچان کو بدل دینے کے لیے بھی نئےضابطے لاگو کیے گئے۔ زمین کے استعمال، جنگلات کی زمین کے استعمال میں تبدیلی،یہ سب کچھ کشمیر کو پوری طرح توڑ دینے کے لیے کیا جا رہا تھا۔
ان دو سالوں میں ہندوستان حامی سیاسی رہنماؤں کو غیرفعال، بلکہ یوں کہیں کہ بے عزت کرکے صوبے کی عوام کے سامنے ان کی غیر متعلقیت ثابت کی گئی۔ اس کے ساتھ ہندوستانی صوبے کی جانچ ایجنسیوں کا استعمال بھی ان رہنماؤں کے خلاف کیا گیا۔
مرکزکی ساری طاقت کا استعمال کرکے پالتو رہنما بھی کھڑے کیے گئے۔ ان سب کے بعد جب مقامی اکائیوں کے انتخاب کرائے گئے تو بی جے پی اور مرکزی حکومت کو زمینی حقیقت نے پھر جھٹکا دیا۔
تو دو سالوں میں کیا حاصل ہوا؟جموں وکشمیر کو اور غیر مستحکم اورنفسیاتی طور پر تباہ کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی تو نہیں۔ لیکن یہ کہنا غلط ہے۔
بی جے پی نے اپنے رائے دہندگان میں اپنے نمبرضرور بڑھوا لیے۔ ان میں سے ہر کسی کو معلوم تھا کہ یہ اس علاقے کی عوام کے بھلے کے لیے نہیں بلکہ انہیں بے عزت کرنے کے لیے کیا جا رہا تھا۔ ویسے ہی جیسے اس عوام کو یہ پتہ تھا کہ 6 دسمبر 1992 کو ایودھیا میں کوئی کارسیوا نہیں ہونے والی تھی، مسجد کو منہدم کرنے کی ہی یہ مہم تھی۔
پھر ابھی حکومت ہند نے کیوں انہی رہنماؤں کو بلایا، جن کو وہ خود غیر متعلق کہتی رہی ہے؟ اس کی وجہ صاف ہے۔ وہ ایسی بیٹھکوں کے ذریعے 5 اگست 2019 کو اس نے جو غیر آئینی قدم اٹھایا تھا اسے عوامی طور پرایک طرح کی قانونی حیثیت دلانا چاہتی ہے۔
اس بیٹھک میں آرٹیکل 370 کا مسئلہ اٹھایا ہی نہیں جا سکا۔عمر عبداللہ اتنے حقیقت پسند ہو چکے ہیں کہ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ سرکار کسی بھی صورت میں اسے بحال نہیں کرےگی، اس کا ذکر ہی بےمعنی ہے۔ یہ بڑی عجیب دلیل ہے۔
کیاہندوستان نے آزادی کی بات تب تک نہیں اٹھائی جب تک انگلینڈ اس کے لیے تیار نہیں ہو گیا؟ کیا ذات پات کےخاتمے کی بات تبھی اٹھائی جائےگی جب ‘اشرافیہ’اس کے لیے راضی ہو جائے؟ کیا گھریلوتشددکے خلاف قانون تبھی بنے جب شوہر اسے قبول کریں؟
جو خیال صحیح ہے، اسے لوگوں کے تصور میں زندہ رکھنا ضروری ہوتا ہے بھلے ہی وہ فوراً شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے۔ جموں وکشمیر کے رہنماؤں نے اس مورچے پر کمزوری دکھلائی۔
دوسرے،مرکزی حکومت نے ارادہ ظاہر کیا کہ وہ جموں اور کشمیر کے اسمبلی اور لوک سبھا حلقوں کی حدبندی کروانا چاہتی ہے، پھر اس بنیادپر انتخاب کروانا اس کی ترجیح ہے۔
حدبندی کاخدشہ پہلے دن سے سب کو تھا۔ ایسا کرکے سرکار نمائندگی کے توازن کوبدل دینا چاہتی ہے، مقصد یہ ہے۔ جموں اور کشمیر کے بیچ کا فارمولہ بھی بدل دیا جائے۔ مسلمان نمائندےکے انتخاب میں فیصلہ کن نہ رہ پائیں، مقصد یہ ہے۔
جموں وکشمیر کو صوبے کا درجہ واپس دینے کا ہوائی وعدہ کیا گیا۔ جھوٹ بولنے اور اپنی بات سے پھر جانے والی بی جے پی حکومت کے وعدے کا یقین کوئی بڑا احمق ہی کر سکتا ہے۔جیسا پہلے کہا، یہ بی جے پی کی طویل مدتی سیاسی منصوبے کا حصہ ہے۔ جموں وکشمیر میں ایک ہندو وزیر اعلیٰ کا خواب وہ اپنے رائے دہندگان کو دکھلا رہی ہے۔
بیٹھک کے بعد سارے رہنماؤں نے وزیر اعظم اور مرکزی حکومت کے نمائندوں کے ساتھ جو تصویر کھنچوائی وہ کتنی المناک ہے۔ کپل کاک نے سیما مصطفیٰ کو ٹھیک ہی کہا کہ یہ بیٹھک ذلیل کیے گئے لوگوں کے ساتھ ذلیل کرنے والوں کی بیٹھک تھی۔ اس میں بھی توہین کرنے والے کے بڑے دل کی تعریف کی گئی۔ اسے اس کے مکالمہ پسند ہونے کا ثبوت مانا گیا۔ کسی کی زبان کاٹ کر پھر اس سے بات کیسے کی جاتی ہے، یہ بیٹھک اسی کا نمونہ تھی۔
ضرور ہی اس بیٹھک کے پیچھے کئی وجوہات تھیں۔بین لاقوامی اور قومی۔ چین کی موجودگی لداخ میں جم گئی ہے۔ افغانستان سے امریکہ کے ہٹ جانے کے بعد وہاں ہندوستان کی حالت غیر یقینی ہو گئی ہے۔ پاکستان کے ساتھ بھی رشتہ ٹھیک کرنے کا دباؤ ہندوستان پر بڑھ رہا ہے۔
اپنےرائے دہندگان کو یہ حکومت جتنا جوش دلائے، امریکہ میں نئی قیادت اب اس پر اپنا دباؤ بڑھا رہی ہے۔ اس کے علاوہ کشمیر میں تشدد کم نہیں ہوا ہے۔ہندوستان کے خلاف نفرت اب کشمیر میں جڑ جما گئی ہے۔ ان سب کی وجہ سے سرکار کو یہ احساس دلانا ضروری ہو گیا تھا کہ وہ صرف حملہ آور نہیں ہے۔
ان سب کے علاوہ، ہماری سمجھ میں اس بیٹھک کاسیاسی مقصد تھا۔بی جے پی کو اپنے حامیوں کو بیچ بیچ میں قومی اشتعال کا ڈوز دیتے رہنا ضروری ہے۔اس بیٹھک کے ذریعے یہ انہیں بتلا رہی ہے کہ وہ کشمیر کو اور بھی توڑنے کی سمت میں آگے بڑھ رہی ہے اور اس میں وہ چالاکی سے کشمیر کی سیاسی پارٹیوں کو بھی شامل کر رہی ہے۔
موقع پرستی بی جے پی کی سیاست کا مزاج ہے۔ محبوبہ مفتی کے ساتھ سرکار بنانا، اس سے الگ ہونا اور پھر اسے عہدے سے برطرف کرنا؛ان میں سے کسی بھی قدم سے بی جے پی کے حامی کو الجھن نہیں ہوئی۔ کسی میں کوئی اخلاقی مجبوری نہیں۔
اسی لیے اس بیٹھک کے بارے میں ناقدین جب یہ کہتے ہیں کہ یہ اس سرکار کی ناکامی ہے کہ وہ جس راستے آگے بڑھی تھی، اسی پر پیچھے لوٹ رہی ہے تو اسے یہ نہیں معلوم کہ بی جے پی کا ووٹراسے ایک دوسری چالاکی مان رہا ہے، ایسی چالاکی جو ابھی ضروری ہو گئی ہے تاکہ کشمیر کو اور مسخ کیا جا سکے اور دنیا کا منھ یہ دکھلاکر بند کیا جائے کہ ہم نے یہ خود ان کی مرضی سے کیا ہے۔
(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر