پالیسی سےمتعلق فیصلوں میں اعدادوشمار کااہم رول ہے۔اگر حکومت عوام کی زندگی ،بالخصوص صحت ،تعلیم اور روزگار میں بہتری لانا چاہتی ہے، تو ضروری ہے کہ ان کے پاس ان کا درست تخمینہ لگانے کی صلاحیت ،درست اعداد وشمار اور جانکاری ہوں۔موجودہ حکومت جس طرح سے مختلف ڈیٹا اور ریکارڈ نہ ہونے کی بات کہہ رہی ہے، وہ ملک کو اس ‘ڈیٹا بلیک ہول’کی جانب لے جا رہے ہیں، جس کے اندھیرے میں بہتری کی راہ گم ہو گئی ہے۔
اگست میں راجیہ سبھا میں مرکزی حکومت نے بتایا کہ آکسیجن کی کمی سے کسی صوبے نے موت کی جانکاری نہیں دی ہے۔ایک اندازے کے مطابق 6 اپریل سے 21 جولائی تک 682 موتیں آکسیجن کی کمی سے ہوئی ہیں۔
جولائی میں ایک مرکزی وزیر نے جواب دیا کہ ‘غلاظت اٹھانے کے دوران ملک میں گزشتہ پانچ سالوں میں کسی کی موت کا ریکارڈ نہیں ہے۔حالانکہ اس سے پہلے فروری میں لوک سبھا میں ایک تحریری جواب میں بتایا گیا تھا کہ پچھلے 5 مہینوں میں سیور صفائی کے دوران 340 موتیں ہوئیں۔
وزیر مملکت برائے داخلہ اور وزیر زراعت نے کہا کہ جب سے کسانوں کااحتجاجی مظاہرہ شروع ہوا ہے، تب سے اس میں کتنی موتیں ہوئی ہیں،اس کا ریکارڈ نہیں ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ کےمطابق، تحریک میں 400 سے زیادہ لوگ جان گنوا چکے ہیں۔
گزشتہ سال تالابندی میں پھنسے مزدوروں کے لیے شرمک ٹرین چلائی گئیں۔ستمبر 2020 میں پارلیامنٹ میں وزیر محنت نے کہا کہ شرمک ٹرین میں ہونے والی موتوں کی جانکاری جمع نہیں کی جا رہی ہے۔ رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت پایا گیا کہ جانکاری دستیاب ہے اور سرکار نے 80 ایسی موتیں درج کی ہیں۔
سرکار کارول
اخبار سے جمع کی گئی جانکاری کےمطابق، 2020 کے لاک ڈاؤن کے دوران 989 لوگوں کی جان لاک ڈاؤن کی وجہ سے گئی۔ (ایمبولینس نہیں ملا، بھوک–پیاس وغیرہ سے)۔
سال2017-2018 میں جب پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم میں آدھار کو لازمی کیا گیا، تب لگ بھگ تیس لوگوں کی جان گئی تھی۔ نوٹ بندی کے دوران لوگ قطار میں مر گئے۔ (ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ 100)
مرنا سب کا طے ہے، تو پھر آکسیجن کی کمی، کووڈ، سیور صفائی، نوٹ بندی کی لائن، شرمک ٹرین میں یا پھر لنچنگ سے موت ہونے پر ہنگامہ کیوں؟
اس لیے کہ یہ معاملے حکومت کی پالیسیوں اور فیصلوں کی وجہ سے رونما ہوئے۔وقت سے پہلے موت ہونے پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ یہاں مذکورہ تمام موتیں ایسی تھی جہاں کہیں نہ کہیں سرکار کی ذمہ داری اور جوابدہی بنتی ہے۔
صحت کی سہولیات دستیاب کروانا، قانون اور ونظم ونسق قائم رکھنا، روزگار اور غذائی تحفظ کو یقینی بنانا، جان کی حفاظت، یہ سب سرکار کے بنیادی فرائض ہیں۔ ان کی تردید کرنا، یعنی اپنے فرض سے اور جوابدہی سے انکار کرنے کے مترادف ہے۔
ایک دوسری وجہ ہے:موت سے ہوئی پریشانیوں کو قبول کرنا۔ کسی شخص کی موت سے خاندان اور دوستوں کو جوذہنی صدمہ پہنچتا ہے اس سےنکلنے میں موت اور دکھ کو قبول ضروری ہے۔فوجی جنگ میں جان گنواتے ہیں، تو وار میموریل اس وجہ سے بھی بنائے جاتے ہیں۔
معاملہ صرف موت کے اعدادوشمار کا نہیں
معاملہ قابل اعتماد اعدادوشمار کا ہے جن کاپالیسی–فیصلے میں اہم رول ہے۔اگر حکومت عوام کی زندگی ،بالخصوص صحت ، تعلیم اور روزگار میں بہتری لانا چاہتی ہے، تو ضروری ہے کہ ان کے پاس ان کا درست تخمینہ لگانے کی صلاحیت ،درست اعداد وشمار اور جانکاری ہوں۔
کہاں اسکول کی ضرورت ہے، کہاں تعلیم کی، کس روزگار میں کتنی کمائی ہے؟ ان سوالوں کے جواب کے لیے ڈیٹا ضروری ہے۔
پرسنت چندر مہالانوبیس جیسے دور اندیش لوگوں نے ملک میں سرکاری ڈھانچہ بنایا۔مردم شماری، نیشنل سیمپل سروے کانظام دہائیوں سے یہ جانکاری دستیاب کروا رہا ہے۔ لیکن پچھلی دہائی میں یہ نظام کمزور پڑگیا ہے۔ آج نوبت یہ آ گئی ہے کہ بنیادی اقتصادی اعداد وشمار کے لیےماہرین اقتصادیات نجی کمپنی سینٹر فار مانٹرنگ دی انڈین اکانومی(سی ایم آئی ای)کے فون سروے پر منحصر ہیں۔
پچھلے سال میں روزگار ڈیٹا پر جو ہنگامہ ہوا، سی ایم آئی ای کےسروے کی بنیاد پر ہوا۔ دو ماہرین اقتصادیات نے جواب دہندگان کے سماجی–اقتصادی صورتحال کے اوسط کا موازنہ دوسرے سرکاری سروے کےجواب دہندگان سے کیا تو پایا گیا کہ سی ایم آئی ای سروے کا دعویٰ کہ وہ شماریات کےنظریے سےملک کی آبادی کی نمائندگی کرتا ہے، مشکوک ہے۔
مثال کے طور پرانہوں نے پایا کہ 2015 میں اس سروے کے مطابق بالغان کی شرح خواندگی 83فیصدتھی، جو 2019 تک لگ بھگ صدفیصد ہو گئی۔یہ ممکن نہیں لگتا۔ سی ایم آئی ای سروے کے مطابق2015 میں 98فیصد گھروں میں بجلی تھی، حالانکہ این ایف ایچ ایس 4 کےمطابق صرف 88 فیصدمیں ہی۔نتیجہ یہ ہے کہ جس ڈیٹا کی بنیاد پر چرچہ ہو رہی ہے، وہ ماخذ ملک کی اصلیت نہیں بتا رہے۔
ڈیٹاپالیسی –فیصلے میں روشنی ڈالنے کا کام کرتے ہیں، راہ ڈھونڈنے میں مددگار ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں ہم ‘ڈیٹا بلیک ہول’ کی جانب جا رہے ہیں، جس کے اندھیارے میں اقتصادی اصلاحات کی راہ گم ہوگئی ہے۔
(رتیکا کھیڑا آئی آئی ٹی دہلی میں پڑھاتی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر