پیپلزیونین فار سول لبرٹیزکرناٹک، آل انڈیا لائرزایسوسی ایشن فار جسٹس، آل انڈیا پیپلزفورم اور گوری لنکیش نیوز ڈاٹ کام نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس میں انہوں نے فرقہ وارانہ کشیدگی کے 71 معاملوں کی پہچان کی ہے۔ یہ تمام معاملے جنوری 2021 سے اگست تک کے ہیں۔
کرناٹک کےساحلی شہر منگلورو میں اس سال تین جنوری کو پھل اور سبزیاں بیچ رہے مسلمانوں کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک جارحانہ مہم شروع کی گئی۔
مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر یہ پیغام پھیلایا گیا، جس میں ہندوؤں کو سڑک کنارے سبزی اور پھل بیچ رہے مسلمانوں سے سامان نہیں خریدنے کی وارننگ دی گئی۔
سوشل میڈیا کے ذریعےیہ افواہ پھیلائی گئی کہ مسلمان ہندوؤں کو مارنے کے لیے جان بوجھ کر زہر ملا ہوا سامان بیچ رہے ہیں۔
یہ بھی کہا گیا کہ اس پورے پروپیگنڈہ کو چین کی طرف سے مالی اعانت حاصل ہے۔
کچھ دنوں بعد منگلورو میں آر ایس ایس سے وابستہ کچھ لوگ پتر علاقے میں ایک کیفے میں ہو رہی ایک برتھ ڈے پارٹی میں گھسے اور دعویٰ کیا کہ اس پارٹی میں الگ الگ مذاہب کے لڑکے اور لڑکیاں پارٹی کر رہے ہیں۔ پولیس نے دخل اندازی کی اور طلبا کو تھانے لے گئی۔ حالانکہ بعد میں ان کو گھر بھیج دیا گیا۔
اس سال اگست میں ایک اور معاملے میں بجرنگ دل کے کچھ لوگوں نے ایک بس میں ہنگامہ کیا۔ اس بس میں دو لڑکیاں بنگلورو سے پتر جا رہی تھیں۔ بس میں ایک مسلمان ان لڑکیوں کے پیچھے بیٹھا تھا اور بجرنگ دل کے ممبر کے مطابق وہ فون پر لڑکیوں سے بات کر رہا تھا۔ مسلم نوجوان کا فون چھین لیا گیا اور اسے بس سے اترنے سے روکا گیا۔
اس واقعہ کی اطلاع پولیس کو دی گئی لیکن ایک بار پھر مسلم نوجوان کی ہی جانچ کی گئی۔ اس کے فون کی جانچ کی گئی اور جب اس کے فون سے کچھ نہیں ملا تو اسے جانے دیا گیا۔
یہ معاملےاقتصادی بائیکاٹ، سماجی علیحدگی اورفرقہ وارانہ منافرت کی علامت ہیں، جو کرناٹک کے دکشن کنڑ ضلع میں ہو رہےہیں لیکن زیادہ تشویشناک پولیس کی بے حسی اورقصورواروں کو سزا نہیں ہونا ہے۔
پیپلزیونین فار سول لبرٹیزکرناٹک(پی یوسی ایل کے)،آل انڈیا لائرزایسوسی ایشن فار جسٹس (اےآئی ایل اےجے)، آل اڈیا پیپلز فورم(اےآئی پی ایف)اور گوری لنکیش نیوز ڈاٹ کام نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی، جس میں انہوں نے فرقہ وارانہ کشیدگی کے 71 معاملوں کی پہچان کی ہے۔ یہ سبھی معاملے جنوری2021 سے اگست تک کے ہیں۔
ان معاملوں کوحقوق کی تنظیموں نےاکٹھا کرکےان کی تصدیق کی، جس سے علاقے میں بڑھ رہے فرقہ وارانہ عدم برداشت کے ایک پیٹرن کا پتہ چلا۔جانےمانے کارکن شبیر احمد کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں لگ بھگ روزانہ فرقہ وارانہ تشدد او ڈرانے دھمکانے کا ایک معاملہ سامنے آتا ہے۔
بنگلور میں مقیم ایک وکیل اور رپورٹ کی سرکردہ محقق میتری کرشنن نے کہا کہ زیادہ تر معاملات میں پولیس اس وقت تک کارروائی کرنے سے گریز کرتی ہے جب تک کہ شکایت کرنے والا سامنے نہیں آتا۔
اس تحقیق میں کرشنن کے علاوہ پی یو سی ایل کی مانوی اتری، اے آئی پی ایف کی سواتی ششادری، گوری لنکیش نیوز کے ششانک ایس آر اور خواتین کے حقوق کی کارکن مانو چودھری شامل تھیں۔
رپورٹ میں چھ ٹرینڈ کی پہچان کی گئی جو حال ہی میں علاقےمیں ہوئےواقعات سے سامنے آئے۔ ان معاملوں کو سماجی علیحدگی،قربت کا تعین کرنا، اقتصادی بائیکاٹ،گئورکشا کے نام پر حملہ، اقلیتوں کے سماجی، اقتصادی اور ثقافتی حقوق پر حملہ اورمذہبی آزادی اور ہیٹ اسپیچ پر روک لگانےسے متعلق ان زمروں میں درجہ بندی کی گئی ہے۔
کرشنن نے کہا کہ اس رپورٹ میں جن 71 معاملوں کی پہچان کی گئی ہے، وہ میڈیا میں رپورٹ کیے گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا،‘یقینی طورپر اور بھی معاملے ہیں۔ ان میں سے ٹیم نے 12 معاملوں کا تجزیہ کیا ہے۔’
‘فرام کمیونل پولیسنگ ٹو ہیٹ کرائمس دی اٹیک آن امبیڈکر ڈریم آف فریٹرنٹی’کے عنوان سے اس رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ اسٹیٹ مشینری کی مدد سے ہندوتوا تنظیمیں ایک مہم چلا رہی ہیں تاکہ مسلمانوں کو ملک کے باقی سماج سے الگ کیا جا سکے۔
اس سال علاقے میں فرقہ وارانہ تشدد کے لگاتار بڑھ رہے معاملوں کے بعدفیکٹ فائنڈنگ ریسرچ کا فیصلہ لیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ان معاملوں نے ہندو اکثریت پسندی کو نارملائز کیا، جو دراصل مسلمانوں کے اختیار کو کم کرنے اور مساوی شہری کے طور پر ان کے درجے کو کمتر کرنے کے ذریعے سامنے آیا۔ اس رپورٹ کو پولیس کی بھاری موجودگی کے بیچ جاری کیا گیا۔ اس دوران پولیس کی ٹیم موقع پر تعینات رہی۔
سینئر سماجی کارکن ودیا دنکر نے بتایا کہ اس پروگرام کے لیے جگہ ڈھونڈنا آسان نہیں تھا۔
کرناٹک کے وزیر اعلیٰ بسوراج بومئی نے فرقہ وارانہ ہیٹ کرائمس اور سامپردائک پولیسنگ میں بڑھ رہے معاملوں کو سہی ٹھہراتے ہوئے کہا،‘سماج میں کئی طرح کےجذبات ہیں۔ ہمیں اس طرح سےسلوک کرنا چاہیے کہ ہم ان جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائیں۔ جب ان جذبات کو ٹھیس پہنچتا ہے تو اس کے جواب میں ردعمل سامنے آتے ہیں۔نظم ونسق کو بنائے رکھنے کی سرکار کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ ہمیں سماجی یکجہتی کو بھی یقینی کرنا ہوگا۔ اس کے لیے سب کوتعاون کرنا چاہیے۔نوجوانوں کو یہ یقینی کرنا چاہیے کہ جذبات مجروح نہ ہوں۔ یہ سماجی مدعا ہے۔ سماج میں اخلاقیات ہونی چاہیے۔ جب اخلاقیات کو بھلا دیا جاتا ہے تو ردعمل سامنے آتے ہیں۔’
ان معاملوں میں نابالغ لڑکوں کا بھی ایک معاملہ شامل ہے، جنہوں نے اس سال اپریل میں سرتھکل علاقے میں ایک مسجد پر حملہ کیا۔ان لڑکوں کی قابل اعتراض سی سی ٹی وی فوٹیج ملنے پر پولیس نے مسجد پر حملے کی وجہ جاننے کےلیے ان لڑکوں سے پوچھ تاچھ کی۔
اس پر لڑکوں نے مبینہ طور پر کہا کہ یہ مسجد گنپتی مندر سے پچاس میٹر کی دوری پر تھی۔ مندر میں صرف ایک ہی منزل تھی جبکہ مسجد میں دو منزل تھی۔حقیقت یہ ہے کہ مسجد، مندر کےمقابلےاونچی تھی، جس سے لڑکوں کو غصہ آیا اور انہوں نے مسجد پر حملہ کیا۔
ہندوتواتنظیموں کے ذریعےہراسانی کے معاملے بڑھنے پر کچھ معاملوں میں مسلمان نوجوانوں نے پولیس میں شکایت درج کرائی۔ان معاملوں میں پولیس نے بہت ہی الگ طریقے سے کام کیا۔ مثال کے طورپر جب مسلم کمیونٹی کے کچھ لوگوں نے مسلم خاتون سے بات کرنے کے لیے دو ہندو نوجوانوں کو دھمکایا تو معاملے میں شکایت درج کی گئی اور پولیس نے فوراً ملزم مسلم نوجوان کو گرفتار کیا۔
حالانکہ گرفتاری میں اس طرح کی مستعدی ہندو کمیونٹی کےملزمین کو گرفتار کرنے میں نہیں دکھائی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پولیس کی کارروائی میں مذہبی پہچان واحد وجہ بن گئی ہے۔
ساحلی ضلع میں مسلمان واحد نہیں ہیں، جنہیں نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دلتوں کو بھی اکثر فرقہ وارانہ تشدد کا شکار ہونا پڑتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ان میں سے اکثر معاملے گئورکشا کے نام پر ہوتے ہیں۔
ملک بھر میں2014 سے ہی گئورکشا کی آڑ میں ہندوتوا تنظیموں کےذریعےتشدد کے معاملے بڑھے ہیں لیکن کرناٹک میں یہ اس سے بہت پہلے شروع ہو گئے تھے۔
پی یوسی ایل کرناٹک نے 1998سے جولائی 2012 تک مویشیوں کےنقل وحمل اور گائے کا گوشت کھانے سے متعلق معاملوں میں گئورکشکوں کے تشدد کی 44 معاملوں کو ڈاکیومنٹ کیا ہے۔ پچھلی ایک دہائی میں یہ معاملے کئی گنا بڑھے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان معاملوں میں اضافے کے باوجود موڈس اوپرینڈی لگ بھگ لگ بھگ ایک جیسی ہی رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا، ہندوتوا بالادست گروہوں کو مویشیوں کی چوری اور گائے کے ذبیحہ کی جانکاری ملتی ہے یا انہیں شک ہوتا ہے۔اکثر یہ حملہ پولیس کی موجودگی میں ہوتا ہے، جنہیں پہلے ہی ان کمیونٹی کے لوگوں کی جانب سےمطلع کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد پولیس متاثرین کو کرناٹک گائے کے ذبیحہ اور مویشی تحفط ایکٹ 1964 کےاہتماموں کے تحت گرفتار کرتی ہے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر