کاس گنج میں سال 2018 میں مارے گئے چندن گپتا کے والدکہہ رہے ہیں کہ نوجوانوں کو اس راستےپر نہیں جانا چاہیے جس پر ہندوتوایاقوم پرستی کے جوش وجنون میں ان کا بیٹا چل پڑا تھا۔ کیا ان کی ناراضگی کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس موت کے بعد یا اس کے بدلے جو چاہتے تھے، وہ نہیں ملا؟ یا وہ اس کے خطرے کو سمجھ پائے ہیں؟
‘اب نوجوانوں کو میری صلاح ہے کہ وہ قوم پرستی اور ہندوتوا کےنعروں کے جال میں نہ پھنسیں۔’یہ مشورہ لکھنؤ میں ایک پریس کانفرنس میں سشیل گپتا نے ہندوستان کے نوجوانوں کو، ہندو نوجوانوں اور لڑکیوں کو دیا۔ وہ ہندی میں ہی بول رہے تھے لیکن ہندی اخباروں نے ہندی ٹیلی ویژن چینلوں نے ایک والد کی اس صلاح یا نصیحت کو ہندی پڑھنے والے نوجوان طبقے تک پہنچاناضروری نہیں سمجھا۔
لیکن کیا آپ کو سشیل گپتا یاد ہے؟ کاس گنج والےسشیل گپتا ؟ تین سال پہلے کاس گنج خبروں میں تھا۔ اور آج پھر ہے۔دوسری وجہ سے۔
یا شاید تین سال پہلے جو ہوا اور ابھی الطاف کے ساتھ پولیس کی حراست میں جو کیا گیا، اس میں کوئی رشتہ ہے!ہم نے تین سال پہلے کے‘واقعہ’کو بھلا دیا۔ شاید اسی لیےالطاف کی‘موت’ہوئی۔ لیکن ہم سشیل گپتا پر لوٹ آئیں۔
سشیل گپتا اتر پردیش میں کاس گنج کے رہنے والے ہیں۔ وہ اپنے بیٹے کی وجہ سے خبر میں آئے۔ ٹھیک یہ ہوگا کہنا کہ اپنے بیٹے کی موت کی وجہ سے۔ وہ عام موت نہ تھی۔ کسی بندوق، ریوالور کی گولی سے ہوئی موت تھی۔
چندن گپتا ان کا بیٹا تھا۔ وہ 26 جنوری 2018 کو مارا گیا تھا۔ اس کی موت گولی سے ہوئی لیکن وہ شکار ہوا تھا قوم پرستی اور ہندوتوا کا۔ یہی آج تقریباً چار سال گزر جانے کے بعد اس کے والد سشیل گپتا سب کو بتانا چاہتے ہیں۔
تین سال پہلے چندن گپتا خبروں میں تھے۔ ہندی اخبار، چینل اسے شہید کا درجہ دینے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جا رہے تھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی ایک لیڈر اس کی موت کو لالہ لاجپت رائے کی موت کے برابرٹھہرا رہی تھیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر،آر ایس ایس سےوابستہ لوگ اسے قوم پرستی کے نام پر قربان ہو جانےوالا نوجوان بتا رہے تھے۔
وقت گزرتا گیا اور چندن گپتا کا استعمال ممکنہ قوم پرست سیاست کے لیےماند پڑتا چلاگیا۔کیا اسی سے ناراض ہوکر اپنی شکایت لےکر چندن کےوالد اس کی ماں کے ساتھ لکھنؤ پہنچے ہیں؟
ہم یاد کر لیں کہ چندن گپتا کی موت کیوں اور کن حالات میں ہوئی۔ 26 جنوری، 2018 کو کاس گنج میں کچھ نوجوانوں نے ترنگا یاترا نکالی۔تقریباً 100 موٹرسائکلیں کاس گنج کے مسلمان اکثریتی محلے میں پہنچیں اور سوار ضد کرنے لگے کہ انہیں راستہ دیا جائے۔
اس چوک پر، جس کا نام عبدالحمید چوک ہے، محلہ کے لوگ خود ترنگا جھنڈا پھہرانے کی تیاری کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ساری کرسیوں وغیرہ کو ہٹانا ممکن نہیں اور اتنی موٹرسائیکلوں کے لیے راستہ بنانا ممکن نہ ہوگا۔ اس پر موٹر سائیکل سواروں اور محلہ کے لوگوں کے بیچ کہاسنی اور جھڑپ ہوئی۔
ایک رپورٹ کے مطابق، محلہ کے لوگوں نے ان سے کہا کہ وہ ان کی پرچم کشائی کے پروگرام میں شریک ہوں۔ ان کے مطابق وہ کہنے لگے کہ وہ وہاں بھگوا بھی لہرائیں گے۔ اس کے لیےمحلےوالوں کا تیار ہونا ممکن نہ تھا۔ بات بڑھی اور جھڑپ تیز ہوئی۔ ترنگا یاترا کے لوگ اپنی موٹرسائیکلیں لےکر دوسری سمت بھاگے اور کئی نے اپنی موٹرسائیکلیں وہاں چھوڑ دیں۔ بعد میں پولیس نے انہیں ضبط کیا۔
ایک دوسری رپورٹ کے مطابق، ہتھیار لیے ہوئے لوگ مسلمان محلے کی طرف بڑھتے دکھائی دے رہے تھے۔عبدالحمید چوک سے نکل کر ترنگا یاترا میں شامل جوانوں نے جم کر توڑ پھوڑ اورپتھربازی کی۔ اس بیچ گولیاں چلیں اور اس گولی باری میں چندن گپتا مارے گئے۔
جیسا کہ ہم نے پہلے کہا، تقریباً چار سال گزر جانے کے بعد بھی کاس گنج پولیس یہ ٹھیک ٹھیک معلوم نہیں کر پائی کہ چندن کی موت کیسے ہوئی۔ گولی کس بندوق یا ہتھیار کی تھی۔ چونکہ مارے جانے والے کا نام چندن تھا، مارنے والا مسلمان ہوگا، اس اصول پر پولیس نے ایک مسلمان کو گرفتار کر لیا۔ حالانکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ اس نے گولی چلائی تھی۔
کسی کی دلچسپی اس میں نہیں کہ وہ موت کیسے ہوئی۔ ہو سکتا ہے وجہ معلوم ہونے پر اس کی عظمت نہ رہ جائے۔ لیکن ایک سماج کے طور پرتشویش ہونی چاہیے کہ نہ تو ہماری پولیس، نہ ہم تشددکی وجہ تلاش کرنے، اس کے ماخذکی تلاش کرنے میں وقت لگاتے ہیں۔ ہم صرف ایک مفروضہ قائم کرتے ہیں۔
ابھی ہمارا مقصد اس معاملے کی تحقیقات نہیں ہے۔ ہماری دلچسپی چندن گپتا اور اس کے اہل خانہ میں ہے۔ چندن کے دوستوں نے اور اہل خانہ نے بھی بتایا کہ وہ کسی پارٹی کا یا سنگھ کے کسی ادارے کارکن نہ تھا۔ وہ گریجویشن کی پڑھائی کر رہا تھا اور سنکلپ نام کا ادارہ چلاتا تھا۔
ایک سال پہلے بنے اس ادارے کے ایک دوسرے ممبر نے بتلایا کہ اس ترنگا یاترا کے فیصلے کی خبر اسے پچھلی رات کو ملی تھی۔ لیکن اسے پہلے سے تشدد کا خدشہ تھا اور کم از کم پانچ دن پہلے اس نے عوامی طور پر سب کو اس سے واقف کرا دیا تھا۔
چندن میں سماجی رجحان تھا۔ گھر والے بی جے پی کے حمایتی، خود کوقوم پرست ماننے والے تھے، آج تک مانتے ہیں۔ بیٹا اس نظریے سے متاثر ہوا ہوگا اور ترنگا یاترا کوقومی فریضہ مان کر اس میں شریک ہوا ہوگا۔ اسے اس کا اندازہ نہ ہوگا کہ اس کا انجام کیا ہو سکتا ہے۔
اس یاترا میں تشدد کی تیاری تھی، کیا اسے پتہ تھا؟ باپ اور گھروالے کو بھی یہ قوم پرستانہ فعل جان پڑا ہوگا۔ بیٹے کی سماجیات کی تسلی اور اظہار اس راشٹروادی اور ہندوتووادمہم میں ہوئی جس نے اس کی جان لی۔
مسلمان محلے سے ہوکر ہی ترنگا گزرے تو اس کی اہمیت ہوگی، ایسا چندن کو بھی لگا ہوگا۔ اس کے پیچھے شاید یہ پاکیزہ خیال رہا ہو کہ ایسا کرکے وہ ایک کمتر قومی جگہ کوقومی رنگ میں رنگ دےگا۔ یا یہ کہ مسلمان محلہ ایک داخلی دشمن صوبہ ہے، ترنگے کے سہارے جس پر فتح حاصل کرنا ہی فریضہ ہے۔ ابھی چندن نے اپنی سماجی زندگی شروع ہی کی تھی کہ اس کاخاتمہ ہو گیا۔
جیسا پہلے لکھا ہے، بی جے پی اور اس سے وابستہ تنظیموں نے تب چندن کی خوب جئے جئے کار کی۔ چندن کے والد نے اسے شہید کا درجہ دینے کی مانگ کی۔ اس کے اہل خانہ کو معاوضے کے ساتھ شہر کے ایک چوک کا نام چندن کے نام پر کرنے کا اعلان کیا گیا۔
اس وقت کے جوش وجنون کے گزر جانے کے بعد ہم نے چندن کے والد کو کئی بار یہ شکایت کرتے سنا کہ بی جے پی حکومت نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ بیٹے کو شہید کا درجہ نہ ملنے سے بھی وہ خفا تھے۔ ان کو کسی نے قاعدے سے نہیں بتایا کہ شہید سرکاری درجہ نہیں ہوتا۔
اگلے سال یوم جمہوریہ پر گھروالوں نے اپنے خرچ پر شہر میں کئی جگہوں پر وزیر اعظم اوروزیر اعلیٰ کے ساتھ چندن کی تصویروں والے بینر لگوائے۔ اس کا خرچ اور انتظام انہی کو کرنا پڑا۔ خبر چھپی کہ ان کے گھر پر 30 فٹ اونچا جھنڈا لہرایا گیا۔ آخر وہ ایک ہندو شہید کا گھر تھا!پریوار ترنگا یاترا بھی نکالنا چاہتا تھا، پولیس نے اجازت نہ دی۔
یہ خبر بھی ساتھ چھپی کہ عبدالحمید چوک پر مسلمانوں کو بھی ترنگا پھہرانے کی اجازت نہیں ملی۔ ان کا کیا قصور تھا کہ انہیں قومی پرچم پھہرانے سے روک دیا گیا،محلے والوں کے اس سوال کا کوئی جواب انتظامیہ کے پاس نہ تھا۔ انہوں نے تو پچھلے سال تشدد نہیں کیا تھا۔ ان کے چوک پر چندن اور ان کے ساتھی زبردستی کرنے آئے تھے۔
اس بات کوتین سال سے زیادہ گزر چکے ہیں۔ آج چندن کے والد اپنے پریوار کے ساتھ اس سیاست سے ٹھگے ہوئے معلوم ہو رہے ہیں اور وہی وہ دنیا کو بتانا چاہتے ہیں۔ پچھلے سال جامعہ ملیہ اسلامیہ میں مظاہرہ کررہے طلبا پر ان کے مارے گئے بیٹے سے بھی کم عمر کے ایک دوسرے جوان نے گولی چلانے کی کوشش کی اور بعد میں اسے چندن کے نام پر مناسب ٹھہرانے کی کوشش کی گئی۔
اس وقت چندن کے والد نے اس تشدد کی نکتہ چینی کی تھی۔ آج وہ گولی باز ہندوتوا کا ابھرتا ہوا ستارہ ہے۔ اس کے کئی پیروکار بھی بن چکے ہیں۔ اس کا پریوار اس کے بارے میں کیا سوچتا ہے؟ چندن اگر زندہ ہوتا تو ایسا ہی اس کے ساتھ بھی ہو سکتا تھا؟
آج چندن کے والد کہہ رہے ہیں کہ نوجوانوں کو اس راستے پرنہیں جانا چاہیے جس پر ہندوتوایا قوم پرستی کے جوش وجنون میں ان کا بیٹا چل پڑا تھا۔ انہوں نے ایک ساتھ ان دونوں لفظوں کااستعمال کیا ہے۔
کیا ان کی ناراضگی کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس موت کے بعد یا اس کے بدلے جو چاہتے تھے، وہ نہیں ملا؟ یا وہ اس کے خطرے کو سمجھ پائے ہیں؟یہ کسی صحافی نے ان سے پوچھا ہو، یہ رپورٹ سے جان نہیں پڑتا۔ لیکن یہ ایسا سوال ہے جس پر ان سے اور ان کے گھروالوں سے بات چیت بہت ضروری ہے۔
کیا شکایت صرف یہی ہے کہ سیاست داں یا سیاسی جماعتیں چندن جیسے جوانوں کا استعمال کرتے ہیں اور انہیں بھول جاتے ہیں؟یا قوم پرستی اور ہندوتوا اس سیاست میں ہی کوئی برائی ہے؟
جب سشیل گپتا کہتے ہیں کہ وہ اس سیاست کےحمایتی ہیں لیکن نوجوانوں کو اس سیاست کےجال میں پھنسنے دینا نہیں چاہتے تو کیا اپنی بات کاتضاد سمجھ پا رہے ہیں؟ اگر اس سیاست کا انعام ملے تو کیا یہ قابل ستائش ہے؟ کیا اس کے خطرے کی وجہ سے وہ اسے غلط مانتے ہیں؟
چندن جیسے جوانوں کے اس راستے پر جانے کی وجوہات کا مطالعہ نہیں کیا گیا ہے۔ جو اس راستے سے ہٹ جاتے ہیں، ان کا بھی نہیں۔ یہ قوم پرستی اصل میں تشدد کا راستہ ہے۔ مسلمان اور عیسائی مخالف نفرت اس کی بنیاد ہے۔ یہ کب سے اور کیسے انہیں متوجہ کرنے لگتا ہے؟ تعلیم کہاں سے ملتی ہے؟
کیا سشیل گپتا یہ خود سے کبھی پوچھ پائیں گے کہ جس ہندوتو اکی سیاست کے وہ اب تک حمایتی ہیں، وہی تو ان کے بیٹے کو لے گئی۔ اسی کا وہ منطقی انجام ہے؟ اگر اس روز وہ لوٹ آتا تو یقینی طور پروہ اس پرغور نہیں کرتے۔
ان کا بیٹا ہندوتوا کے غلبہ کے لیے ترنگے کے پردے میں نکلا تھا۔ وہ اس میں شہید ہوا، یہ وہ اب تک مانتے ہیں۔ پھر افسوس کیا محض اس بات کا ہے کہ اس کومناسب مقبولیت نہیں ملی؟
سوال صرف ان کا نہیں ہے۔ چندن جیسے بہت سے لڑکےاور نوجوان اس راستے پر دوڑ رہے ہیں۔ابھی لکھتے ہوئے ہی کسی کا بھیجا ویڈیو دیکھا۔ کئی نوجوان بھگوا جھنڈے اور تلواریں لیے اسکوٹر دوڑا رہے ہیں۔ یہ کن پر ہتھیاروں سے چڑھائی کرنے جا رہے ہیں؟ دوڑتے اسکوٹر پر ایک ہاتھ میں تلوار لیے دوسرے ہاتھ سے اپنی تصویر کھینچتا نوجوان جس نرگسیت،خودپسندی اورپرتشدد ہندوتوا کے راستے چل پڑا ہے ، اس کے بارے میں سشیل گپتا کی وارننگ وہ کیسے سنےگا اگر وہ اب تک اس کے حمایتی ہیں؟
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر