کوئی نہیں کہہ سکتا کہ لیڈر کےطور پرمنیش تیواری یا سلمان خورشید کےعزائم نہیں ہیں یا اس کو پورا کرنے کے لیے وہ کتاب لکھنے اور اس کے سوا جو کرتے ہیں، اس کی نکتہ چینی نہیں کی جانی چاہیے ۔ لیکن اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس کےرہنماؤں کےطور پر انہیں اپنےخیالات کوپیش کرنے کی اتنی بھی آزادی نہیں ہے کہ وہ رائٹر کےطورپر پارٹی لائن سے ذرا سا بھی الگ جا سکیں؟
یادش بخیر،گزشتہ فروری میں‘دی اکانومسٹ انٹلی جنس یونٹ’کی‘ڈیموکریسی ان سک نیس اینڈ ان ہیلتھ’ کےعنوان سےایک رپورٹ میں تازہ اشاریوں کی بنیاد پر ہندوستان کی جمہوریت کو معذورقرار دیا گیا تھا تو ملک کتنی تشویش میں مبتلا ہوا تھا۔ اس کے پاس فکر مند ہونے کی وجوہات تھیں۔
اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 2014 میں نریندر مودی کی سربراہی میں بی جے پی اقتدار میں آئی تو ملک کی جمہوریت کی رینکنگ 7.29 پوائنٹس کے ساتھ 27ویں تھی، جو 6.61 پوائنٹس کے ساتھ 53ویں پر لڑھک گئی۔اس کا نتیجہ تھا کہ یہ سرکار جمہوری قدروں سے پیچھے ہٹنے اور شہریوں کی آزادی پر کارروائیوں کے راستے چل کر ہماری آدھی جمہوریت کو کھا گئی ہے،جس کی وجہ سے وہ امریکہ، فرانس، بیلجیم اور برازیل وغیرہ 52 ممالک کی طرح ‘ناقص’، دوسرےلفظوں میں کہیں تو، ‘لنگڑا’ہو گیا ہے۔
پھر جیسےملک کی تشویش کے لیے اتنا ہی کافی نہ ہو،محض ایک ہفتے بعد امریکی حکومت کی مالی امداد سے چلنے والی غیر سرکاری تنظیم’فریڈم ہاؤس’نے اپنی سالانہ گلوبل فریڈم رپورٹ میں’آزاد’سےشہریوں کی آزادی کے حوالے سے ہندوستان کی حیثیت کو تبدیل کرکے’جزوی طور پر آزاد’کر دیا تھا۔
سال2020 کے اعدادوشمارکی بنیاد پر تیار کی گئی اس رپورٹ میں اس سال کے فریڈم اسکور کے لحاظ سے ہندوستان کی رینک 100 میں 67 ہے، جو سال 2020 میں 100 میں71 تھی۔
لیکن دوسرے پہلو پر جائیں اور ملک کی آزادی اور جمہوریت دونوں کے تحفظ میں‘دبلے’ہوئے جا رہے اقتدارحاصل کرنے کی خواہاں سیاسی پارٹیوں کے‘کرتبوں’کے آئینہ میں دیکھیں تو یہ سوچ کرتشویش میں مبتلا ہونے کی ہی نہیں،سر دھننے کا بھی دل کرتا ہے کہ ہماری آزادی اور جمہوریت کےان ‘خیرخواہوں’میں کم از کم اندرونی جمہوریت اور آزادی بھی نہیں بچی ہے۔
بلا شبہ، اس سے یہ سوال اور بڑا ہوتا ہے کہ جو پارٹی اپنے اندر کی آزادی اور جمہوریت کو نہیں بچا پائے ہیں، وہ ملک کی آزادی اور جمہوریت کے تحفظ میں کوئی رول بھلا کیسے نبھائیں گے؟
اس لحاظ سے دیکھیں تو بھلے ہی ملک کی دونوں بڑی پارٹیاں ایک دوجے کی براہ راست یا متبادل ہونے کا دعویٰ کرتی رہتی ہیں، ان میں کوئی بنیادی فرق نہیں دکھائی دیتا۔ دونوں ہی اپنی اندرونی جمہوریت کے لیے اتنا ہی ضروری سمجھتی ہیں کہ الیکشن کمیشن کی کسوٹی کے مطابق جیسے تیسے ان کےعہدیداروں کے ‘انتخاب’ہوتے رہیں۔
اندرونی آزادی کو تو وہاں انفرادی انا پرستی سے بدل دیا گیا ہے کہ کارکن تو پارٹی قیادت کے بندھوا ہوکر رہ ہی گئے ہیں،رہنماؤں کے اختلافات کی تمام آوازیں بھی نقار خانے میں طوطی کی آواز بن کر دم توڑتی رہتی ہیں۔
مشکل یہ ہے کہ دھیرے دھیرےعوام بھی اس صورتحال کے عادی ہوتے جا رہے ہیں اور انہیں اس میں کچھ غیرفطری نہیں محسوس ہوتا۔ کانگریس کے دو بڑے رہنماؤں سلمان خورشید اور منیش تیواری کی حال ہی میں شائع کتابوں پر تنازعہ کو لےکر اس کے اندر اور باہر جیسے ردعمل دیکھنے میں آئےہیں، ان سے اس کو بخوبی سمجھا اور اس کے خطرات کو محسوس کیا جا جا سکتا ہے۔
خورشید کی کتاب‘سن رائز اوور ایودھیانیشن ہڈ ان آور ٹائمز’آئی تو اس میں ہندوتوا کےآئی ایس آئی ایس اور بوکوحرام سے موازنہ کو لےکر اس کے اچھے نتائج کو درکنار کرکے ہندوتوا کے حامیوں نے ہی آسمان سر پر نہیں اٹھایا۔ کانگریس کے اندر سے بھی الزام لگائے گئے کہ سلمان خورشید کانگریس میں رہ کر بی جے پی کا کام کر رہے ہیں۔
یہ بھی کہا گیا کہ جب پارٹی کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا اتر پردیش میں تین دہائیوں کی جلاوطنی کو ختم کرنے کے لیے جی جان لگا رہی ہیں، خورشید کی کتاب ان کے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر سکتی ہے۔
کانگریس کے باہر کے اور خود کوسیاسی طور پر غیرجانبدار بتانے والے کئی حضرات کی رائے بھی کچھ ایسی ہی نظر آئی۔ پارٹی کے ایک ترجمان نے تو اس کو لےکر استعفیٰ تک کا اعلان کر دیا۔
پھر منیش تیواری نے اپنی کتاب ‘ٹین فلیش پوائنٹس، ٹوئنٹی ایئرز’ میں پارٹی کی قیادت میں 2004 سے 2014 تک ملک کی حکومت چلا چکی ڈاکٹر منموہن سنگھ کی متحدہ ترقی پسند اتحادحکومت کی تنقیدکر دی ہے تو خورشید کی ہی طرح انہیں بھی کٹہرے میں کھڑا کیا جا رہا ہے۔ پارٹی کے اندر بھی اور باہر بھی۔
برے دنوں میں پارٹی کو کمزور کرنے کے الزام خورشید کے مقابلے ان پر زیادہ چسپاں ہو رہے ہیں تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ پارٹی ہائی کمان کے خلاف آواز اٹھانے والےجی23 کے ممبر ہیں۔
کتاب میں انہوں نے لکھا ہے کہ ’ایک وقت آتا ہے، جب کارروائی لفظوں سے زیادہ بولتی ہے۔ 26/11 وہ وقت تھا، جب فوری اور کڑی کارروائی کارروائی ہونی چاہیےتھی۔’
انہوں نے 26/11 کا موازنہ امریکہ کے 9/11 سے کیا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی کتاب پچھلی دو دہائیوں میں ہندوستان کےقومی سلامتی کے ہر چیلنج کو معروضی طور پر پیش کرتی ہے۔ لیکن خورشید کی کتاب کی ہی طرح ان کی کتاب کی اشاعت کی ٹائمنگ پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
پوچھا جا رہا ہے کہ جب پانچ صوبوں کےاسمبلی انتخاب سامنے ہیں اور کانگریس ان میں اچھے مظاہرہ کے لیے جوجھ رہی ہےتو وہ اپنی کتاب میں منموہن سرکار کی تنقید کرکےاس کے سامنے ایسی نئی رکاوٹ کیوں کھڑی کر رہے ہیں، جس سے بی جے پی کو اس پر حملہ بولنے کا نیا موقع مل رہا ہے۔
اس سلسلے میں نہ صرف یہ یاد دلایا جا رہا ہے کہ وہ خود منموہن سرکار میں وزیر مملکت ہوا کرتے تھے، بلکہ ‘کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ’جیسےاندیشہ کا اظہاربھی کیا جا رہا ہے۔ کہنے والے یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ ان کے آگے کا راستہ بی جے پی یا ترنمول کانگریس سے ہوکر گزر سکتا ہے۔
ایک اخبار نے تو انہیں کانگریس کے اندر بیٹھے ایسے‘اسنتوشی جیو’یعنی غیر مطمئن مخلوق کانام دینے سے بھی پرہیز نہیں کیا ہے، جس کی سیاست سے اس کی حریف بی جے پی کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
کوئی نہیں کہہ سکتا کہ سیاستداں کے طور پر منیش یا خورشید کے عزائم نہیں ہیں یا انہیں پوری کرنے کے لیے وہ کتابیں لکھنے سمیت جو کچھ کرتے ہیں، اس کو لےکر ان کی تنقید نہیں کی جانی چاہیے۔ لیکن یہاں سوال اس سے کہیں بڑا ہے۔ وہ یہ کہ کیا کانگریس کے رہنماؤں کے طور پر انہیں اپنے خیالات کے اظہار کی اتنی بھی آزادی نہیں ہے کہ وہ رائٹر کے طور پر ان کو تحریرکرتے ہوئے پارٹی لائن کے ذرا سا بھی پار جا سکیں؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کانگریس نریندر مودی، امت شاہ اور جے پی نڈا کی بی جے پی کی مثال نہیں دے سکتی۔بی جے پی جس آر ایس ایس کی سیاسی فرنٹ ہے، اس کے تو ‘دانشوروں’تک میں سوال و جواب کی روایت نہیں ہے۔
اپنے وقت کے سینئرصحافی اور ایڈیٹر پربھاش جوشی کہتے تھے کہ سنگھ میں مانا جاتا ہے کہ جتنا بھی غور وفکرکیا جانا مطلوب تھا، اس کے‘گرو جی’ کر گئے ہیں۔اس لیے اب اس کے یہاں مفکر نہیں، صرف مبلغین ہوا کرتے ہیں۔
لیکن کیا کانگریس بھی ایسی ہی روایت کی وارث ہے؟ نہیں، ایسا ہوتا تو ملک کے پہلےوزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے سب سےقریبی کانگریسیوں میں سے ایک رام دھاری سنگھ‘دنکر’شاعرکےطور پر دہلی کو ‘ویبھو کی دیوانی’ اور ‘کرشکم یدھ کی رانی’ نہیں بتا پاتے۔ لیکن وہ اپنی نظموں کو ‘سنہاسن خالی کرو کہ جنتا آتی ہے’تک کے اعلان تک لے گئے اور قومی شاعر کہلائے۔
اور تو اور، اندرا گاندھی کے دور میں سینئر شاعر شری کانت ورما نے لوک سبھا انتخاب میں پرچار کےلیے کانگریس کےنعرے لکھتے ہوئےحکومتی اداروں کے خلاف ‘مگدھ’ اور ‘کوشل میں وچاروں کی کمی ہے’ جیسی نظمیں تخلیق کیں اور کسی نے ان سے کوئی کیفیت نہیں طلب کی۔
پھر؟ دراصل، آج کانگریس کی مشکل یہ نہیں ہے کہ اس میں خورشید اور منیش جیسے لیڈر ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ مختلف وجوہات سے اب اسے ویسی مرکزیت حاصل نہیں ہے، جس کی وجہ سے کبھی اس کی حریف پارٹیوں تک میں اس کا عکس دکھائی دیتا تھا کیونکہ ان میں سے زیادہ تر اس کو چھوڑ گئے رہنماؤں کے ذریعےبنائے گئے تھے۔
اسے اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ آزادی سے پہلے کانگریس مختلف نظریات کے لیے ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہوا کرتی تھی۔ حکمت عملی میں اختلاف کے باوجود ان کے اعتدال پسند اور انتہا پسند مل کر جدوجہد آزادی لڑتے تھے۔
ایک طرف سوشلسٹ آچاریہ نریندر دیو تھے جو خود کو مارکسسٹ کہتے تھے اور دوسری طرف ہندو مہاسبھا کے مدن موہن مالویہ تھے۔ لیکن آزادی کے بعد بدلے ہوئے حالات نے جلد ہی اس کے اندر موجود سوشلسٹ کو یہ محسوس کرایا کہ ان کے لیے اس میں رہنا ممکن نہیں ہے۔
کانگریس نے ان کے بلگاؤں کووارننگ کے طور پر لیا ہوتا تو آگے چل کر وہ سلسلہ نہ بن جاتا۔ تب آج وہ اس مقام پر نہ کھڑی ہوتی، جہاں مٹتے مٹتے جا پہنچی ہے۔ لیکن جیسے نریندر مودی کی بی جے پی تب تک ایسی کسی بات کی فکر نہیں کرتی، جب تک انتخاب جیتتی رہتی ہے، اس نے بھی نہیں ہی کی۔
لیکن اب سب کچھ گنوا کر ہوش میں آنے کی حالت کے بعد تو اسے سمجھنا ہی چاہیے کہ وہ بی جے پی کی راہ پر چل کر بی جے پی سے نہیں نمٹ سکتی۔ اس کے لیے اسے خود کو پھر سے اس ہندوستانیت کا وارث بنانا ہوگا، جس کے سمندر میں خورشید اور منیش جیسےمتعدد خیالات اپنی جگہ تلاش کرسکتے ہیں اور پارٹی ان سے سوچی سمجھی محفوظ دوری بنائے رکھ سکتی ہے۔
ورنہ سوچیے ذرا، یہ کیسا وقت کا پھیر ہے کہ سابق کانگریسی،‘کجات گاندھی وادی’اور سوشلسٹ مفکر ڈاکٹر رام منوہر لوہیاانتخابی نفع نقصان سے پرے اپنی پارٹی کی سرکار کا استعفیٰ مانگ سکتے تھے، لیکن خورشید اور منیش سے اپنی کتابوں میں بھی پارٹی لائن کی تعمیل کی امید کی جا رہی ہے۔
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر