ایودھیاتنازعہ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدجن کو لگتا تھا کہ اس کے نام پرفرقہ وارانہ تعصب کی بلا اب ان کےسر سے ہمیشہ کے لیے ٹل جائےگی،اور سیاسی طور پراس کا غلط استعمال بند ہو جائےگا، ملک کی سیاسی قیادت ان کی معصوم امیدوں پر پانی پھیرنے کو تیار ہے۔
باقی ملک کے بارے میں تو ٹھیک سے نہیں کہہ سکتے، لیکن ایودھیا کو بخوبی معلوم ہے کہ کوئی تین دہائی پہلے چھ دسمبر، 1992 کو ساڑھے چار سو سال سے زیادہ پرانی بابری مسجد کی زور زبردستی سے کی گئی مسماری اس کے سینے پر مسلط کی گئی اپنی نوعیت کا پہلا انہدام نہیں تھی۔
مسما رکرنےوالوں کی طرف سےرام جنم بھومی/بابری مسجد تنازعہ کو ناسور بناکر اس کی ہم آہنگی اورمفاہمت کی بھرپور روایت کے ساتھ ملک کےآئین اور قانون کی حکمرانی کو ختم کرنے کی یکے بعد دیگرے کوششیں اس انہدام سے کئی دہائیاں پہلے سے ہوتی آ رہی تھیں۔ لیکن آج اس سے کہیں زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ مذکورہ انہدام آخری ثابت بھی نہیں ہو پا رہی۔
اس لیے کہ اس تنازعہ کی بابت دو سال پہلے نو نومبر، 2019 کو آئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سے ہی یہ مسمار کرنے والےایک عجیب و غریب صورتحال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایک طرف تو وہ خود کو فاتح کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور دوسری طرف خود کو بھروسہ نہیں دلا پا رہے کہ سچ مچ جیت گئے ہیں۔
بھروسہ کر پاتے تو کون جانے تھوڑی سی عاجزی کا مظاہرہ کرتے اور انہدام و ہجرت کے ساتھ نقل مکانی کو بھی اس شہرکامقدر بنائے رکھنے میں ہر پل مبتلا رہنا چھوڑ دیتے۔ لیکن وہ مبتلا ہیں، اس لیے ایودھیا جہاں ایک طرف اپنی‘عظمت’کےنام پر سڑکوں کو چوڑی کرنے کےلیے گھروں، دکانوں اوراداروں کے انہدام سےاپنے متعدد گرہستوں و تاجروں کو اجڑتا دیکھ رہی ہے، وہیں دوسری طرف بھگوان رام کی مورتی اور ہوائی اڈے کے قیام کے نام پر اندھادھندزمینوں پر قبضے سے بےگھراوربےدر ہونے والوں کی صفوں کو بڑا ہوتا بھی دیکھ رہی ہے۔
اس پر حکام ہیں کہ بےگھراوربےدر ہونے والوں کی اس فریاد کو بھی ٹھیک سے سننے کو تیار نہیں کہ انہیں بے گھر کرنے سے پہلے ان کے صحیح معاوضے اوران کی باز آبادی کا فرض نبھا دیا جائے۔ ان حکام کو مقامی کامرشیل بورڈکی جانب سےانہدام کے خلاف بازاربندی کا نوٹس لینا بھی گوارہ نہیں ہے۔
کیا تعجب کہ لوگوں کی ان بھولی امیدوں کا حال بھی بہت برا ہو گیا ہے، جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سمجھ بیٹھے تھے کہ اس تنازعہ کے بہانے اکثر ان کا پیچھا کرتی رہنے والی فرقہ وارانہ نفرت کی بلا اب ان کے سر سے ہمیشہ کے لیے ٹل جائےگی۔ ساتھ ہی سیاسی طور پراس کاغلط استعمال بھی بند ہو جائےگا، جس سےمستقبل کےانتخابات نفرت پر مبنی فرقہ وارانہ اور مذہبی پولرائزیشن کے بجائے سماجی و اقتصادی مسائل پر مرکوز ہوا کریں گے، جن کی بنا پر بہتر سرکاریں چن کر آنے لگیں گی۔
غورطلب ہے کہ کانگریس لیڈر سلمان خورشید کی جان بوجھ کر متنازعہ کر دی گئی ‘سن رائز اوور ایودھیا’ نام کی کتاب بھی ایسی ہی امیدوں کی پیروکار ہے اور چاہتی ہے کہ اب نمٹ چکے مندر مسجد تنازعہ سے آگے بڑھ کر نئی شروعات کی جائے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ ایسی کسی شروعات میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ جماعت ہی بنی ہوئی ہے، 22-23 دسمبر، 1949 اور چھ دسمبر، 1992 کے جس کےکارناموں کی بھرپور نکتہ چینی کے باوجود سپریم کورٹ نے جانے کیسی بے بسی میں رام کے نام پر ‘وہیں’ مندر تعمیر کی اس کی مراد پوری کر دی ہے۔
چونکہ جیت کے جنون میں ڈوبی اس جماعت کو اب کوئی راہ راست قبول نہیں، اس لیے لاکھ تنازعہ نمٹ گیا ہو، وہ نہ آگے اس سے فائدہ اٹھاتے رہنے کا منصوبہ چھوڑنے کو تیار ہے، نہ ایودھیا کے سرودھرم سم بھاو کےروایتی لیک سےہٹ کرکےہندوتوا کامرکز بنانے اور اسے ہی ہندو مذہب کا مترادف بتانے سے باز آنے کو۔ اس کے لوگ کاشی اور متھرا میں نئے جال بننے میں لگے ہوئے ہیں، سو الگ۔
اس بات کو کم از کم دو مثالوں سےسمجھا جا سکتا ہے۔ پہلا اتر پردیش کے آئندہ اسمبلی انتخاب کے سلسلے میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے بیانات ہیں، جنہیں وہ بہت سوچ سمجھ کر مندر مسجد تنازعہ پر ہی مرکوز کر رہے ہیں۔
اپنے اجلاس میں وہ باربار پوچھتے ہیں کہ کیا 1990 میں‘بےقصور’کارسیوکوں پر گولیاں چلوانے والے رام مخالف اس وقت اقتدار میں ہوتے تو ‘وہیں’ رام مندر کی تعمیرممکن ہوتی؟
ان کے اس سوال کے پیچھے کی منشا آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے۔ وہ متنازعہ بابری مسجد احاطہ میں صورتحال کو بنائے رکھنے کے سپریم کورٹ کےحکم کی تعمیل کے لیےطاقت کےاستعمال کو ‘رام مخالف’قرار دیتے ہیں اور اس احاطہ پر حملہ آور کارسیوکوں کو ‘بےقصور’بتاتے ہوئے بتانا چاہتے ہیں کہ اب وہاں رام مندر عدالت کے فیصلے سے نہیں، ان کی قربانیوں سے بن رہا ہے۔ اس لیے ووٹروں کو چاہیے کہ وہ ایک بار پھر بی جے پی کی جھولی ووٹوں سے بھر دیں۔
وزیر اعلیٰ کے حامیوں کی سرگوشیوں پر جائیں تو وہ مندر کی تعمیر کا سارا کریڈٹ مذکورہ ‘قربانیوں’کے کھاتے میں ڈالنے کے لیےیہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ کیا بابری مسجدمحفوظ ہوتی تو بھی سپریم کورٹ اس کی جگہ مندر بنانے کا حکم دیتا؟
یہاں سمجھنے کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ سرگوشی مندر مسجد تنازعہ کا فیصلہ آنے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے کی گئی اس اپیل کے بالکل برعکس ہے کہ فیصلے کو کسی فریق کی جیت یا ہار کے طور پر نہ دیکھا جائے، نہ ہی اس کو لےکر جشن یا ماتم منایا جائے۔
لیکن جہاں تک جشن نہ منانے کی بات ہے، بھاجپائیوں نے ایودھیا میں ان کی اپیل کو اسی وقت نہ مانتے ہوئے خوب جشن منایا تھا اور اب وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ فیصلے کو اپنے اوروزیر اعظم کے کارناموں سے جوڑکر‘رام مخالفین’ پر حملے کے لیے استعمال کر رہے ہیں رام مندر بنوا رہے رام جنم بھومی تیرتھ شیتر ٹرسٹ پر زمین کی خریداری میں بدعنوانی کے دستاویزی الزامات کو پورے طور پر درکنار کرکے۔
ادھر جیسےوزیر اعظم نریندر مودی باربار اتر پردیش آ رہے ہیں، یوگی باربار ایودھیا آ رہے ہیں اور جب بھی وہ آتے ہیں، چرچہ چلنے لگ جاتی ہے کہ اسمبلی انتخاب میں ایودھیا سیٹ سے امیدوار بن کر بھی اکثریت کو ‘خاص پیغام’ دینا چاہتے ہیں۔ یعنی ان کا ارادہ سارا تکیہ ہندو فرقہ وارایت پر رکھنے کا ہی ہے۔
دوسرایہ ہے کہ پوری کے شنکراچاریہ سوامی نشچلانند کو وہ مسجد بھی گوارہ نہیں ہو رہی، جو مذکورہ تنازعہ کے فیصلے میں عدالت کے فیصلےکی تعمیل میں اتر پردیش سرکار کی طرف سےدستیاب کرائی گئی پانچ ایکڑ زمین پر بن رہی ہے۔ ان کو اندیشہ ہے کہ جلدی ہی وہ مسجد ‘پاکستانی مرکز’بن جائےگی۔
پوری کہانی سمجھنے کے لیے ان کے اس قول کو آر ایس ایس کےسربراہ موہن بھاگوت کے اس قول سے ملاکر دیکھا جا سکتا ہے کہ بھارت کو بھارت رہنا ہے تو اسے ہندو ہی رہنا پڑےگا۔
بہرحال، بی جے پی کہیں یا سنگھ پریوار کے اندھےفرقہ وارانہ اقدامات کو لےکر بھی دو نظریے سامنے آ رہے ہیں۔پہلا، حالیہ دہائیوں میں، بی جے پی اکثریتی فرقہ پرستی کا پورا فائدہ اٹھاتی رہی ہے۔ اس کی بنیاد پر، اس کے مخالفین کا کہنا ہے کہ چونکہ اس کے منھ خون لگ گیا ہے، اس لیے وہ اس کو کھونا نہیں چاہتی اور اپنے 1980 کے دور میں مشتہر’گاندھی کےسوشلزم’کے گھاٹ پر خودکشی نہیں کرنا چاہتی۔
اسی لیے ہندو فرقہ واریت کے اپنے آزمودہ تیروں کو پھر سے اپنے ترکش سے نکال رہی ہے اور گزشتہ اسمبلی انتخاب کے‘قبرستان و شمشان’کی طرز پر اس کےلیڈر‘جئے شری رام’کے فوراً بعد جناح، ابا جان و چاچاجان جیسی لفظیات کا استعمال کر رہے ہیں۔
اسکے برعکس دوسرا نظریہ یہ ہے کہ 2014 کے بعد کے انتخابات میں نریندر مودی، پھر یوگی آدتیہ ناتھ کے گڑھے ہوئے ہیروورشپ کے بوتے وہ فرقہ واریت اورترقی کا جو انوکھا کاک ٹیل بناتی رہی ہے، یوگی راج میں وکاس کے پگلا جانے کی وجہ سے آگے اس کا بنانا ممکن نہیں رہ گیا ہے۔
یوگی سرکار کا وکاس تو اب اتنا پگلا چکا ہے کہ اس کی حصولیابیوں کے اشتہارات میں کبھی کولکاتہ کا فلائی اوور تو کبھی کسی غیرملکی کمپنی کا دفتر نظر آنے لگ جاتا ہے۔ وزیر اعظم زیور میں ایشیا کے سب سے بڑے انٹرنیشنل ہوائی اڈے کا سنگ بنیادرکھتے ہیں تو بی جے پی لیڈر جوش میں آکر چین کے ہوائی اڈے کی فوٹو ٹوئٹ کرنے لگتے ہیں۔
انہیں لگتا ہے کہ اس کے بغیر وہ اس‘اچیومنٹ آف انفرااسٹرکچر’کو ٹھیک سے دکھاہی نہیں سکتے، جسے وزیر اعظم اپنےبیان میں سیاست کے بجائے قومی پالیسی بتاکر تالیاں بٹورتے ہیں۔
وزیر اعظم کہتے ہیں کہ یوگی راج سے پہلے اتر پردیش میں محرومی تھی ، اندھیرا تھا اور اب یوگی کے راج میں وہ بین الاقوامی چھاپ چھوڑ رہا ہے، جبکہ ان کا ہی بنایا نیتی آیوگ ابھی بھی اس صوبے کو ملک کے سب سے زیادہ غریبی والے پانچ صوبوں میں شمارکرتا ہے۔
یوگی سرکار دعویٰ کرتی ہے کہ صوبےمیں پردھان منتری غریب کلیان یوجنا کے تحت 15کروڑ غریبوں کو ہر مہینے مفت راشن دیا جا رہا ہے، جبکہ نیتی آیوگ کہتا ہے کہ صوبے میں آبادی کے 37.79 فیصد غریب ہیں اور ان کی مجموعی تعداد دس کروڑ سے کم ہی ہے۔ جان کار ہیں کہ اس صوبے کو فی کس آمدنی اور انسانی ترقیاتی اشاریہ کے لحاظ سے کراہتی معیشت والے نائجیریا کے پڑوسی سہیل و مالی جیسےممالک کے کھانچے میں ڈالتے ہیں۔
اور تو اور، پچھلے دنوں سرکاری نیتی آیوگ اور ہارورڈ اسکول آف پبلک ہیلتھ وغیرہ کےذریعےکیا گیا مطالعہ کہتا ہے کہ ایودھیا کے پانچ سال سے چھوٹے بچوں کی آدھی سے زیادہ تعداد بھوکی اور غذائی قلت کا شکارہے۔ اس ایودھیا کے، جہاں دنیا کا سب سے عظیم الشان رام مندر بنایا جا رہا ہے، ورلڈ ریکارڈ بنانے کے لیے لاکھوں لاکھ دیوں کے سرکاری دیپوتسو کی روایت ڈالی جا رہی ہے اور وزیر اعلیٰ آتے ہیں تو عوامی تقریبات میں بچوں کو اسٹیج پر بلاتے ہیں فوٹو اترواتےہیں،تالیاں بٹورتے ہیں اور صوبے بھر میں رام راج لانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
اس نظریے کے پیروکاروں کے مطابق یہی وجہ ہے کہ بی جے پی‘ہارے کو ہر ی نام’کی طرز پر اکثریت کہیں یا ہندوؤں کے جذبات کو بدنیتی میں بدل کر سیاسی فائدہ اٹھانے کے اپنے سب سے محبوب اور پرانے کھیل پر لوٹ گئی ہے۔
اس کو لگتا ہے کہ پچھلے سال بھر سے راجدھانی دہلی کی سرحدوں پر چل رہی کسانوں کی تحریک سے ان کی لگاتار مضبوط ہو رہی طبقاتی موجودگی کو کمزور کرنے کا واحد طریقہ انہیں کمیونٹی اور فرقوں میں تقسیم کرنا ہی ہے۔
اس کےلیے اسے سرودھرم سمبھاو کے پیروکار اور انگریزی راج میں ہندوستان کی پہلی جلاوطن سرکار بنانےوالے جاٹ راجہ مہیندر پرتاپ سنگھ کے نام کےبےجااستعمال سےبھی پرہیز نہیں ہے۔ بے روزگاری سمیت دوسرے تمام سماجی اقتصادی مدعوں کو درکنار کرکےانتخاب جیتنے کا رام بان بھی اسے اسی راستے سے حاصل ہونے کاامکان نظرآتا ہے۔
سوال ہے کہ کیا اس طرح وہ اپنی کاٹھ کی ہانڈی پھر سے چڑھاکر کامیاب ہو جائےگی اور جواب یہ کہ ابھی اس کا جواب دینا جلدبازی ہوگا۔
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر