مدھیہ پردیش کے اندور میں13سالہ ا سکولی طالبہ کو مبینہ طور پر جنسی طور پر ہراساں کرنےاور شناختی دستاویزوں کی جعلسازی کے معاملے میں ساڑھے تین مہینے تک جیل میں رہنے کے بعد ضمانت پر رہا ہوئے چوڑی فروش تسلیم علی نے دعویٰ کیا کہ وہ بےگناہ ہیں اور انہیں چھیڑ چھاڑ کے جھوٹے معاملے میں پھنسایا گیا ہے۔
نئی دہلی: مدھیہ پردیش کے اندور میں13سالہ اسکولی طالبہ کو مبینہ طور پر جنسی طور پر ہراساں کرنےاور شناختی دستاویزوں کی جعلسازی کے معاملے میں ساڑھے تین مہینے تک جیل میں رہنے کے بعد ضمانت پر رہائی کے اگلے دن جمعرات کو اتر پردیش کے چوڑی فروش نے دعویٰ کیا کہ وہ بےگناہ ہے اور اسے چھیڑ چھاڑ کے جھوٹے معاملے میں پھنسایا گیا ہے۔
اسکولی طالبہ کی شکایت پر ہردوئی کے چوڑی فروش تسلیم علی(25 سالہ)کی گرفتاری سے پہلے سماجی اور سیاسی گلیاروں میں اس ویڈیو کو لےکر خوب ہنگامہ ہوا تھا، جس میں اندور کے گووند نگر میں 22 اگست کو جمع بھیڑ میں شامل لوگ چوڑی فروش کو بری طرح پیٹتے دکھائی دے رہے ہیں، جبکہ وہ ان سے چھوڑ دینے کی منتیں کر رہا ہے۔
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ سے منگل(سات دسمبر)کو ضمانت ملنے کے بعد علی کو طے قانونی تقاضےمکمل کیے جانے پر بدھ(آٹھ دسمبر)کی دیر شام کواندور کے سینٹرل جیل سے رہا کیا گیا۔
چوڑی فروش نے جمعرات کو اندور میں صحافیوں سے کہا، ‘میں نے کوئی گناہ یا غلطی نہیں کی تھی۔ اگر میں مجرم ہوتا، تو بھاگ جاتا۔ میں نے بھیڑ میں شامل لوگوں کے ذریعے میری پٹائی اور مجھ سے پیسے چھینے جانے کے خلاف خود تھانے پہنچ کر پولیس کو درخواست دی تھی۔ لیکن الٹا مجھ پر نابالغ لڑکی سے چھیڑ چھاڑ کا جھوٹا معاملہ درج کرا دیا گیا، جبکہ میں نے تو اس لڑکی کا چہرہ تک نہیں دیکھا تھا۔’
علی نے حالانکہ کہا کہ انہیں ملک کے آئین اور عدلیہ پر پورا بھروسہ ہے اور امید ہے کہ انہیں انصاف ملے گا۔ چوڑی فروش نے کہا، ‘میں چاہتا ہوں کہ ملک میں ہندو مسلم اتحاد برقرار رہے۔’
پولیس کے مطابق، نابالغ طالبہ نے اگست کے دوران بان گنگا تھانے میں شکایت درج کرائی تھی کہ علی اپنا نام ‘گولو بن موہن سنگھ’بتاکر چوڑیاں بیچنے اس کے گھر آیا اور اس نے اس کو بے حد خوبصورت بتاتے ہوئے بری نیت سے اس کےبدن کو چھوا۔
پہچان سے جڑی اس مبینہ گڑبڑی کے بارے میں پوچھے جانے پر چوڑی فروش نے کہا، ‘مجھے اپنے گاؤں میں بھورا کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ میں نے اندور میں بھیڑ میں شامل لوگوں کو پہلے یہی نام بتایا تھا۔ پھر انہوں نے مجھ سے میرا اصلی نام پوچھاتو میں نے اپنا نام تسلیم بتایا۔’
علی نے کہا، ‘پھر انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں مسلمان ہوں؟ اس پر میں نے کہا کہ ‘ہوں تو میں مسلمان ہی’۔ اس پر انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میرا نام بھورا کیسے ہےتو میں نے جواب دیا،‘ہمارے یہاں باپ دادہ اپنے بچوں کے ایسے نام رکھ دیتے ہیں۔’
پولیس کا دعویٰ ہے کہ علی کے ذریعے جلدبازی میں چھوڑ دی گئی تھیلی سے دو آدھار کارڈ ملے اور ان میں سے ایک میں اس کے ہولڈر کے نام کےطور پر‘اسلیم ب مورسنگھ’ چھپا ہے، جبکہ دوسرے آدھار کارڈ میں‘تسلیم بن مہر علی’ چھاپا گیا ہے۔
آدھار کارڈ میں پہچان کی جعلسازی کے اس الزام پر چوڑی فروش نے کہا، ‘مودی آواس (پردھان منتری آواس یوجنا)الاٹمنٹ کے سرکاری دستاویزوں میں میرا نام تسلیم کی جگہ اسلیم کر دیا گیا تھا۔ گاؤں کے پردھان نے مجھ سے کہا کہ میں اسلیم نام کا آدھار کارڈ بنواؤں، تبھی مجھے اس یوجنا کے تحت گھر بنانے کا پیسہ ملےگا۔ اس وجہ سے میں نے اسلیم نام کا آدھار کارڈ بنوایا۔’
تین بیٹیوں کےباپ علی نے ایک سوال پر کہا، ‘میں غریب آدمی ہوں۔ میں کچھ پیسہ کمانے کے لیے سال میں ایک بار کبھی راکھی، کبھی دیوالی تو کبھی ہولی پر اندور آتا تھا۔ لیکن میں اندور میں اب چوڑیاں نہیں بیچوں گا۔اب میں کوئی دوسرا کام کروں گا۔ حالانکہ یہ تو اللہ ہی جانتا ہے کہ اب میں کیا کروں گا۔ فی الحال مجھے بس اپنے گھر جانا ہے۔’
غورطلب ہے کہ پھیری لگاکر چوڑیاں بیچنے اندور آئے علی کو چھٹی جماعت میں پڑھنے والی مقامی طالبہ کوجنسی طور پر ہراساں کرنےاور آدھار کارڈ کی جعلسازی کےالزامات میں گرفتاری کے بعد 25 اگست کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں سے انہیں عدالتی حراست کے تحت جیل بھیج دیا گیا تھا۔
پولیس حکام نے بتایا تھا کہ بھیڑ میں شامل چار لوگوں کو علی سے مارپیٹ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں