خبریں

رویش کمار کا بلاگ: پی ایم کی سکیورٹی میں چوک کہیں کوریج کی بھوک مٹانے کی منصوبہ بندی تو نہیں

وزیراعظم کی سکیورٹی میں کوتاہی ہوئی ہے۔اس سوال پر زیادہ بحث کی ضرورت نہیں ہےکہ جلسے میں کتنے لوگ آئے، کتنے نہیں آئے۔ سکیورٹی انتظامات میں پنجاب حکومت کا رول ہوسکتا ہے لیکن یہ ایس پی جی کے ماتحت ہے۔ وزیر اعظم کہاں جائیں گے اور ان کے قریب کون بیٹھے گا یہ سب ایس پی جی طے کرتی ہے۔ اس لیےسب سے پہلے کارروائی مرکزی حکومت کی طرف سے ہونی چاہیے۔

پنجاب کے فیروز پور میں ایک فلائی اوور پر پھنسا وزیر اعظم نریندر مودی کا قافلہ ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

پنجاب کے فیروز پور میں ایک فلائی اوور پر پھنسا وزیر اعظم نریندر مودی کا قافلہ ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

وزیر اعظم کی سیکورٹی میں کوتاہی پر بی جے پی کا ردعمل اور میڈیا کے مباحث دونوں ایک دوسرے کاضمیمہ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سکیورٹی لیپس کا مسئلہ دونوں کے لیے ایونٹ کے لیےاور پھر ایونٹ کے ذریعے ڈبیٹ کے لیے کنٹینٹ (مواد) بن کر آیا ہے۔

وزیر اعظم کے دفتر، قومی سلامتی کے مشیر، ایس پی جی کی طرف سے کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ نے پریس کانفرنس کی ہے لیکن پنجاب کے پولیس چیف نے پریس کانفرنس نہیں کی ہے۔

بھٹنڈہ ایئرپورٹ سے حسینی والا کے قومی شہداء کی یادگار تک کا فاصلہ 111 سے 140 کیلومیٹر بتایا جا رہا ہے۔ اگر سڑک کے راستےسے گئے ہیں تو واپسی کا بھی اندازہ ہو گا کیونکہ موسم  تو دن بھر خراب رہا ہے۔ ہندوستان کے وزیر اعظم نے سڑک سے اتنا لمبا سفر کب کیا ہے، یاد نہیں ہے۔

دو گھنٹے تک کا سفر کرنا اور واپس آنے تک اتنی لمبی ہائی وےکو سکیورٹی سے لیس رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب سب کچھ پہلے سے طے ہو۔ اس دن یا چند گھنٹوں کے وقفےپر صرف ایمرجنسی میں ہی کیا جا سکتا ہے مگر عام طور پر نہیں۔

پنجاب میں موسم خراب تھا، اس کا پتہ دہلی سے بھٹنڈہ کی پرواز سے پہلے ہی ہو گیا ہوگا۔ کیا تبھی دورہ ملتوی نہیں کردینا چاہیے تھا؟

وزیراعظم آفس کوجواب دینا چاہیے کہ یہ کب طے ہوا کہ سڑک کے راستے سےحسینی والا جاناہے؟ کیونکہ پریس انفارمیشن بیورو (پی آئی بی) نے 3 جنوری کو ایک پریس ریلیز جاری کی تھی۔ اس میں وزیراعظم کے بتائے گئے پروگرام میں حسینی والا کا کوئی ذکر نہیں تھا۔

وزیر اعظم نے 5 جنوری کی صبح اسی ریلیز کو ٹوئٹ کیا۔ تب بھی حسینی والا جانے کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ یہ بے حد  اہم سوال ہے کہ پاکستان کی سرحد سے ملحقہ حسینی والا جانے کا پروگرام کب طے ہوا؟

چند ماہ قبل اسی مودی حکومت نے سرحد سے ملحقہ 50 کیلومیٹر کے دائرے کو بی ایس ایف کے حوالے کر دیا تھا۔ ایسا کرتے ہوئے قومی سلامتی کے مسئلے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تھا۔ پنجاب میں سرحد پار سے ڈرون حملوں کی بھی خبریں آتی رہتی ہیں۔ کیا بی ایس ایف کو معلوم تھا کہ وزیر اعظم حسینی والا قومی شہداء کی یادگارآ سکتے ہیں؟ اس مقدس مقام پر ان کے لیے کیا تیاری تھی؟ کیا بی ایس ایف کے سربراہ وہاں موجود تھے؟ اس کا جواب نہیں ہے۔

ہم سب ابھی جان گئے ہیں کہ وزیر اعظم کی حفاظت کی ذمہ داری ایس پی جی کی ہے۔ یہ اس کا واحد کام ہے۔ایس پی جی فیصلہ کیسے لے گی، اس کا فیصلہ وزیراعظم نہیں کرتے، بلکہ یہ بلیو بک ہے، اس کےحساب سے طے ہوتا ہے۔

اس کے لیے ایس پی جی، انٹلی جنس ایجنسیاں اور مقامی پولیس مل کر فیصلہ کرتے ہیں، لیکن حتمی فیصلہ ایس پی جی کا ہوتا ہے۔ جس کا ہدف صفر ایرر ہے۔ تو ایس پی جی کو بتانا چاہیے کہ جب حسینی والا جانے کا ،وہ بھی اتنی لمبی سڑک کے راستے طے کرنے کا فیصلہ کب ہوا؟اگر پنجاب پولیس کے سربراہ سے گرین سگنل لیا گیا تو خفیہ ایجنسی کو کیا اطلاع تھی؟

ہم یہ بھی جان چکے ہیں کہ وزیر اعظم کا جہاں کا بھی پروگرام ہوتا ہے، کئی دن سے پہلے  سیکورٹی ایجنسیاں ضلع کا دورہ کرنے لگتی  ہیں۔ ایس پی جی ایک طرح سے پولیس کو اپنے ماتحت کر لیتی ہے۔ تو سیکورٹی اداروں کے ان پٹ کیا تھے؟ کیا انٹلی جنس اداروں نے پنجاب پولیس کے سربراہ کا گرین سگنل منظور کر لیا تھاکہ راستہ بالکل صاف ہے، کوئی خطرہ نہیں ہے؟

صحافی میتو جین نے اپنے ٹوئٹ میں کئی اہم سوال اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کسان راستہ روکے تھے تو ایس پی جی نے وہاں وزیر اعظم کو بیس منٹ تک انتظار کیوں کرایا؟

جو ویڈیو جاری کیا گیا ہے وہ وزیراعظم کے قافلے کی طرف سےہے۔ میتو جین کا یہ سوال بھی ہے کہ فوٹوگرافر کو قافلے کے سامنے جاکرویڈیو بنانے کی اجازت کیوں دی  اور تصویر میں نظر آرہا  ہے کہ ایس پی جی وزیر اعظم کی گاڑی کے دائیں بائیں کھڑی ہے مگر سامنے نہیں۔ اتنا کھلا کیوں چھوڑا گیاہے؟

ان سوالوں کے ساتھ میتو جین کا کہنا ہے کہ اگر یہ کوتاہی ہوئی ہے تو ایس پی جی کے سربراہ کو برطرف کر دینا چاہیے۔ ابھی تک مرکزی حکومت نے ایسی کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔

پنجاب حکومت کا رول ہوسکتا ہے لیکن وزیراعظم کی سکیورٹی کے معاملے میں اس کا رول ایس پی جی کے ماتحت ہوتاہے۔ وزیر اعظم کہاں جائیں گے اور ان کے قریب کون بیٹھے گایہ سب ایس پی جی طے کرتی ہے۔اس لیے سب سے پہلے کارروائی مرکزی حکومت کی طرف سے ہونی چاہیے۔

اگر پنجاب پولیس نےایس پی جی کو غلط اطلاع دی  کہ راستہ صاف ہے، وزیراعظم 140 کیلومیٹر کا سفر سڑک کے راسے طے کر سکتے ہیں تو پھرپنجاب پولیس کے سربراہ کو استعفیٰ دینا چاہیے لیکن پھر سوال یہ اٹھے گا کہ انٹلی جنس ایجنسیوں نے کیا جانکاری دی تھی، اگر انہوں نے بھی غلط جانکاری دی تو انٹلی جنس ایجنسی کو بھی برخاست کردینا چاہیے۔

کیا تمام ایجنسیوں کو نہیں پتہ تھا کہ وزیراعظم کی پنجاب آمد سے قبل ہی جگہ جگہ کسانوں کے مظاہرے جاری تھے جس کا اعلان انہوں نے 2 جنوری کو کردیا تھا۔ پھر اتنا جوکھم  کیوں لیا گیا؟

کیا یہ پنجاب حکومت کی ذمہ داری ہے یا مرکزی حکومت کی؟ قاعدے سے وزیر داخلہ امت شاہ کو استعفیٰ دینا چاہیے، لیکن یہ سب اب پرانی باتیں ہو چکی ہیں۔

ساری کوشش ڈبیٹ پیدا کرنے کی ہے۔ڈبیٹ کے لیےکنٹینٹ ایونٹ سے آئے گا تو بی جے پی کے لیڈرمہامرتیونجے جاپ کرنے لگے۔آناً فاناً میں  اس طرح سےمہامرتیونجے جاپ تو نہیں ہوتا ہے۔شیوراج سنگھ چوہان نے ٹوئٹ کیا کہ مہامرتیونجے جاپ کرنے جا رہے ہیں اور پجاری کہہ رہے ہیں کہ وہ گنپتی کی پوجا کرکے چلے گئے۔ کیا اس کو ایک نوٹنکی کے خانے میں نہیں رکھا  جانا چاہیے؟

سیکورٹی کے بنیادی سوالوں کو چھوڑ کر پوجا پاٹھ کے پروگرام ہونے لگے تاکہ گودی میڈیا کواگلے دن بحث اور کوریج کے لیے مواد دے سکیں اور صرف مودی مودی  ہوتا رہے۔

وزیراعظم کی سکیورٹی میں کوتاہی ہوئی ہے۔ اس سوال کو ریلی میں کتنے لوگ آئے، کتنے نہیں آئےاسے لے کر زیادہ بحث کی ضرورت نہیں۔ ہر حکومت ریلیوں کا راستہ روکتی ہے۔ بات  ہے کہ سو کیلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ سڑک سےطے کرنے کا فیصلہ کب ہوا؟ کیا اس سے پہلے پی ایم مودی نے سڑک کےسے  اتنا طویل سفر کیا ہے؟

سنیکت کسان مورچہ نے ایک بیان جاری کیا ہے کہ وہاں کے مظاہرین کسانوں کو اس کی پختہ جانکاری نہیں تھی کہ وزیر اعظم کا قافلہ وہاں سے گزرنے والا ہے۔ انہیں تو وزیراعظم کی واپسی  کے بعد میڈیا سے پتہ چلا۔ مورچہ نے یہ بھی کہا کہ قافلے کے قریب مظاہرین نہیں گئے۔ لیکن بی جے پی کے حامی بی جے پی کا جھنڈالے کر کیسے چلے گئے؟

سرکاری طور پر کوئی کچھ نہیں بول رہا۔ وزارت داخلہ کی جانب سے ایک بیان آیا ہے جو پی آئی بی کی جانب سے جاری کیا گیا ہے۔ اس میں حسینی والا جانے کی بات لکھی ہے لیکن یہ نہیں لکھا کہ پروگرام پہلے سے طے تھا۔ وزیراعظم حسینی والا ہیلی کاپٹر سے جا رہے تھے اس کی جانکاری کسے تھی؟

پھر اس کا ذکر وزیراعظم کے پروگرام میں کیوں نہیں تھا جسے خود انہوں نے5 جنوری کو جاری کیا تھا۔ حسینی والا اور جلسہ گاہ میں کوئی 10-12 کیلومیٹر کا فاصلہ ہے تو ایک جگہ کے سفر کو خفیہ رکھنے کی بات بہت جمتی نہیں ہے۔

چلتے چلتےایک بڑا سوال اور ہے۔ خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے حوالے سے ایک خبر آتی ہے کہ ‘اپنے سی ایم کو تھینکس کہنا، میں بھٹنڈہ سے زندہ لوٹ آیا’۔

اے این آئی کے مطابق وزیر اعظم نے یہ بات ہوائی اڈے پر حکام سے کہی۔ کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کن عہدیداروں سے یہ بات کہی اور اے این آئی نے اسے چھاپ دیا اور یہی ہیڈ لائن ہر جگہ بنتی ہے۔

اس لائن سے جذبات میں ابال لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔لیکن یہ واضح نہیں کہ وزیراعظم نے ایئرپورٹ پر کن سے بات کی؟ ان اہلکاروں نے کیا پنجاب کے وزیراعلیٰ کو بتایا کہ وزیراعظم کا ایسا کوئی پیغام ہے؟

اگر اس کاجواب نہیں آتا ہے تویہ  مان لیا جائے کہ اے این آئی کی یہ خبر شک وشبہ سے بالاتر نہیں ہے۔ کیا اس طرح کی سرخی بنےایساکچھ سوچ کر جاری کیا گیا؟ آپ نے کسی کوریج میں دیکھا کہ صحافی ان افسران کو ڈھونڈ رہے ہیں، ان سے بات کر رہے ہیں؟

آپ کی تقدیر کا فیصلہ نوٹنکیوں سے نہیں ہونا چاہیے۔ٹھوس سوالوں اور جوابوں سے ہونا چاہیے۔ وزیراعظم کا ٹریک ریکارڈ رہا ہے کہ وہ خود کو ایشو بناتے ہیں۔ نوٹ بندی کے دوران جب لوگ بھوکے مر رہے تھے تو وزیر اعظم نے پہلے بیرون ملک ان کا مذاق اڑایا لیکن ہندوستان آکر رونے لگے۔ اس طرح کا ریکارڈ رہا ہے۔

اس بار ایسا نہیں ہوا ہے اس لیے سوالوں کا سنجیدگی سے جواب دینا چاہیے۔ سرکاری طور پر دیا جانا چاہیے۔ باقی آپ میم بناتے رہیے۔

(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)