کرناٹک کے کولار ضلع کے ملبگل سومیشور پالیا بالے چنگپا گورنمنٹ کنڑ ماڈل ہائر پرائمری اسکول کا معاملہ۔ 22 جنوری کو ہندو تنظیموں اور گارجین کے ایک طبقے کے ہنگامہ کے بعد اس میں شامل سابق طالبعلموں میں سے ایک نے وزیر اعلیٰ بسواراج بومئی، کولار کے ایم پی اور محکمہ تعلیم سے مداخلت کی مانگ کی ہے۔
نئی دہلی: کرناٹک کے کولار ضلع کے ملبگل قصبے کےایک سرکاری اسکول کی انتظامیہ کو والدین، سابق طالبعلموں اور ہندو تنظیموں کے غم و غصے کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ مبینہ طور پر مسلم طالبعلموں کو اسکول کے احاطے میں جمعہ کی نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی۔
جمعہ کی نماز کی اجازت دینے کی ‘نئی مثال’ قائم کرنے کے لیےہندو تنظیموں نے دیگر طالبعلموں کےوالدین اوراسکول کے سابق طالبعلموں کے ساتھ مل کر’ملبگل سومیشورا پالیا بالے چنگپا گورنمنٹ کنڑ ماڈل ہائر پرائمری اسکول’میں ہنگامہ کیا۔
سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو کے مطابق، مسلم طالبعلموں نےجن میں سے کچھ نے ٹوپی پہنی ہوئی تھی، دوپہر کے وقت ایک کلاس روم کے اندر جمعہ کی نماز ادا کی۔ اس کا ویڈیو 23 جنوری کو سوشل میڈیا پر سامنے آیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ 22 جنوری کوہنگامہ کرنے والے سابق طالبعلموں میں سے ایک نے وزیر اعلیٰ بسواراج بومئی،کولار کے رکن پارلیامنٹ ایس منی سوامی اور محکمہ تعلیم کے افسران سے مداخلت کی مانگ کی ۔
انہوں نے کہا کہ اسکول میں جمعہ کی نماز کی اجازت دینے کی تاریخ کبھی نہیں رہی ہے اور یہ ایک غلط مثال قائم کرے گا۔ ایک اور گارجین نے الزام لگایا کہ یہ اسکول انتظامیہ کی رضامندی سے ہر ہفتے چل رہا تھا۔
After Hijab now Namaz in classroom stirs controversy in K'taka.
Hindu groups protest against a govt school in Kolar for allowing Muslim students to offer Namaz inside a classroom. The DC has also sought a report on the matter from the education dept officials. pic.twitter.com/bAYL68G01M
— Deepak Bopanna (@dpkBopanna) January 24, 2022
دریں اثنا،اسکول کے ایک ٹیچر نے اس الزام کی تردید کی کہ ہر ہفتے نماز ہو رہی تھی ۔ انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ صرف گزشتہ جمعہ (21 جنوری) کو ہوا، جب وہ اور دیگر اساتذہ دوپہر کے کھانے کے دوران اسکول سے باہر تھے۔
انہوں نے کہا، انہیں بلاک ایجوکیشن افسر کا فون آیا کہ اسکول میں جمعہ کی نماز کی اجازت کیوں دی گئی۔ جب وہ اسکول پہنچی تو دیکھا کہ مسلمان لڑکے نماز پڑھ رہے ہیں۔
پولیس ذرائع نے بتایا کہ 22 جنوری کو احتجاجی مظاہرے کی وجہ سے کشیدگی کے بعد پولیس موقع پر پہنچی اور ناراض والدین، سابق طالبعلموں اور ہندو کارکنوں کو سمجھایا۔ ذرائع نے بتایا کہ حالاں کہ پولیس میں کوئی شکایت درج نہیں کرائی گئی ہے۔
دی نیوز منٹ نے کچھ میڈیا رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ بچوں کو کیمپس سے باہر جانے سے روکنے کے لیے ہیڈ ماسٹر اوما دیوی نے طلبہ کو اسکول کے اندر نماز پڑھنے کی اجازت دی تھی، لیکن 21 جنوری کو ہنگامے کے بعد اوما دیوی نے اس واقعے سے لا علمی کا اظہار کیا۔
بلاک ایجوکیشن افسر (بی ای او) گریجشوری دیوی نے تصدیق کی کہ انہیں ابھی تک کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نماز کی ویڈیو دیکھی ہے۔ کچھ ہندو تنظیموں نے مجھے ویڈیو بھیجی تھی۔ میں نے پہلے ہی واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک ٹیم بھیجی تھی اور ایک رپورٹ حاصل کی۔ پرنسپل نے اعتراف کیا کہ انہوں نے اجازت دی تھی۔ اب ضلع کلکٹر بھی ایک ٹیم بھیج رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسکول کا دورہ کرنے والی ٹیم کے مطابق تقریباً 25-30 طالبعلم باقاعدگی سے نماز پڑھ رہے تھے۔
گریجشوری دیوی نے کہا، مسلم کمیونٹی کے تقریباً 165بچے ہیں اور طالبعلموں کی کل تعداد 375 ہے۔ اسکول کے قریب ہی ایک مسجد ہے، ان کے وہاں نماز کے لیے جانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ، ہمیں نماز کی مخالفت کرنےوالے کسی اور طالبعلم کی طرف سے کی کوئی شکایت نہیں ملی ہے۔
اسکول میں کام کرنے والے ایک ذرائع نے بتایا کہ جب وبائی امراض کے بعد اسکول دوبارہ کھلا تو سارا دن طالبعلموں کو کلاسز میں رکھنا مشکل تھا۔ ان میں سے کئی ظہر کی نماز کے لیے نکل جاتے تھے اور پھر دوپہر کی کلاس کے لیے واپس نہیں آتے تھے۔ اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ وہ دوپہر کے کھانے کے وقفے کے دوران اسکول کے اندر نماز پڑھ سکتے ہیں۔
ذرائع نے یہ بھی کہا کہ دوسری کمیونٹی کے کسی طالبعلم نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ ایک ہندو گروپ کے ممبروں کے احتجاج کے بعد ہی یہ تنازعہ پیدا ہوا۔
ہندوگروپ کی جانب سے ہنگامے کی خبر پھیلنے کے بعد ضلع کے ڈپٹی کمشنر امیش کمار نے ڈپٹی ڈائریکٹر پبلک ایجوکیشن سے اس واقعہ کی جانچ کا حکم دیا۔
یہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کرناٹک میں اس طرح کے کئی واقعات منظر عام پر آچکے ہیں،جہاں مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو شدت پسند گروپوں کی جانب سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔
حال ہی میں گڈگ ضلع میں بجرنگ دل کے ایک لیڈر کو ایک مسلم نوجوان کےقتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
ایک اور واقعہ میں اڈوپی کے ویمنس گورنمنٹ پری یونیورسٹی کالج میں آٹھ مسلم طالبات، جو کالج میں حجاب پہننا چاہتی تھیں، کو اے بی وی پی کے احتجاج کے بعد ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کرنے پر کلاس میں جانے سے روک دیا گیا تھا۔
ریاست میں جبراً’تبدیلی مذہب’کے الزامات کو لے کر عیسائی کمیونٹی کے لوگوں کے خلاف کئی حملے ہو چکے ہیں۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں