پچھلے کئی سالوں سے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پاکستان کے لیے پانی ایک اہم ایشو کی صورت اختیار کر گیا ہے، مگر جھیل ولر کی صحت کے حوالے سے کبھی بھی دونوں ممالک نے کوئی سرگرمی نہیں دکھائی ہے۔ ہندوستان کے لیے شاید اس کی اتنی اقتصادی اہمیت نہیں ہے، مگر پاکستانی زراعت اور پن بجلی کے لیے اس کی حیثیت شہ رگ سے بھی زیادہ ہے۔
پچھلے ہفتے شمالی کشمیر کے سوپور ڈویژن کے محکمہ آبپاشی نے کسانوں کو خبردار کیا کہ رواں سال میں دریائے جہلم میں پانی کی سطح کافی حد تک کم ہوسکتی ہے، جس کی وجہ سے کھیتی کے لیے پانی کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
محکمہ نے شہرہ آفاق جھیل ولر کے طاس میں بسنے والے تقریباً سو سے زائد دیہاتوں میں آباد کسانوں کو مطلع کیا ہے کہ وہ اس سال چاول کی کاشت نہ کریں اور اس کے برعکس متبادل فصل کی کاشت کریں، کیونکہ اس صورت میں محکمہ بروقت آبپاشی کے لیے پانی دینے کی حالت میں نہیں ہے۔ اس جھیل میں پانی کی کمی کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی زرعی زمینوں کو بھی اس بار آبپاشی کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
جنوبی کشمیر کے چشمہ ویری ناگ سے نکل کر سرینگر اور اس کے اطراف کو سیراب کرکے دریائے جہلم پوری طرح ولر میں جذب ہو جاتا ہے۔ اور سوپور کے نواح میں ایک بار پھر سے تازہ دم ہو کر بارہمولہ سے ہوتے ہوئے اوڑی کے پاس لائن آف کنٹرول پار کرتا ہے۔ آزاد کشمیر یا پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں موجود منگلا ڈیم ہو یا پاکستانی پنجاب کی زرخیز زمینیں ہوں، ان کی بجلی یا فصلوں کی پیداوار دریائے جہلم کے ذریعے جھیل ولرکے پانیوں کی ہی مرہون منت ہے۔
حیرت ناک پہلو یہ ہے کہ پچھلے 30سالوں سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان وولر بیراج یا ٹولبل آبی پروجیکٹ کے حوالے سے بات چیت کے کئی دور ہوئے ہیں، مگر شاید ہی کبھی اس جھیل کی صحت پر غور و خوض ہوا ہے ۔
سوپور اور بانڈی پورہ کے قصبوں کے درمیان واقع کئی برس قبل تک یہ ایشیا میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل تھی۔ پاکستان اور میدانی علاقو ں کے کسانوں کے لیے یہ ایک طرح کا واٹر بینک ہے۔ ہندوستانی حکومت کی ویٹ لینڈ ڈائریکٹری میں اس جھیل کی پیمائش189 مربع کلومیٹر درج ہےجبکہ سروے آف انڈیا کے نقشے میں اس کا رقبہ58.7 مربع کلومیٹر دکھایا گیا ہے۔ 1911میں جھیل ولرکارقبہ217مربع کلومیٹر تھا۔ کشمیر کے مالی ریکارڈ میں اس کی پیمائش 130مربع کلومیٹر ہے، جس میں 60 مربع کلومیٹر پر اب نرسریاں یازرعی زمین ہے، مگر ایک سابق مرکزی وزیر سیف الدین سوز کے بقول اس کا رقبہ اب صرف 24 مربع کلومیٹر تک محیط رہ گیا ہے۔
سیٹیلائٹ تصاویر سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جھیل بڑی حد تک سکڑ گئی اور ہرگزرتے دن کے ساتھ سکڑتی ہی چلی جاتی ہے۔ویٹ لینڈ انٹرنیشنل ساوتھ ایشیا کے مطابق بھاری انسانی مداخلت اورناجائزقبضہ،گندے پانی کے نکاس اور مٹی اور گارے کے جمع ہونے سے جھیل کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ غیر منصوبہ بند شجرکاری نے جھیل بھی کے رقبہ کوکافی کم کیا ہے اور سرما کے ایام تو یہ اور بھی سکڑ جاتی ہے۔
جھیل ولرایشیا کی سب سے بڑی آبی پناہ گاہ ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ’رام سر‘ سائٹ بھی ہے۔جھیل کی سطح پرروزدریائے جہلم کے علاوہ نالہ ارن،مدھومتی،اوردیگرندی نالوں سے ہزاروں ٹن مٹی اورگاراجمع ہوتا ہے۔جس نے پہلے ہی جھیل کے77فیصد رقبے کوختم کیا ہے۔
جھیل کے25کلومیٹر سے بھی زائد دلدلی رقبے پر حکومت نے سوشل فارسٹری سکیم کے تحت بیدکے درختوں کی ایک نرسری لگائی ہے اورکچھ رقبے کو دھان کے کھیتوں میں تبدیل کیاگیا ہے۔ماہرین کا کہنا تھا کہ ولرآبی پناہ گاہ تیزی سے سکڑرہی ہے اور اگر یہی حال رہا تو آئندہ سات یادس برسوں کے بعداس کا وجودہی ختم ہوجائے گا۔
مگر حکومت کشمیر کے محکمہ آبپاشی کے حالیہ نوٹیفیکیشن کے مطابق جھیل کی آخری رسومات ادا کرنے میں بس اب کچھ ہی دیر ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پاکستان کے لیے پانی ایک اہم ایشو کی صورت اختیار کر گیا ہے، مگر جھیل ولر کی صحت کے حوالے سے کبھی بھی دونوں ممالک نے کوئی سرگرمی نہیں دکھائی ہے۔
ہندوستان کے لیے شاید اس کی اتنی اقتصادی اہمیت نہیں ہے، مگر پاکستانی زراعت اور پن بجلی کے لیے اس کی حثیت شہ رگ سے بھی زیادہ ہے۔
ولر کے علاوہ بھی پاکستان کی طرف بہنے والے دریاؤں کے منبع یعنی کشمیر میں موجود پانی کے ذخائر پچھلے 60 سالوں میں خطرناک حد تک سکڑ چکے ہیں۔ سرینگر کے نواح میں بڑی نمبل، میر گنڈ، شالہ بوگ، ہوکر سر اور شمالی کشمیر میں حئی گام کے پانی کے ذخائر تو خشک ہو چکے ہیں۔ ان کے بیشتر حصوں پر تجاوزات قائم ہیں۔
سوپور میں تحصیل کے پاس مسلم پیربوگ، جو شہر کے اندر پانی کی ایک جھیل تھی، پر اب شان و بان سے ساتھ ایک شاپنگ مال کھڑا ہے۔ کشمیر میں کوئی ایسا ندی نالہ نہیں ہے، جس میں پچھلے 60 سالوں میں پانی کی مقدار کم نہ ہوئی ہو۔ چند سال قبل ایکشن ایڈ کی ایک سروے میں بتایا گیا کہ اکثر میں پانی کی سطح ایک تہائی رہ گئی ہے اور چند میں تو نصف ریکارڈ کی گئی۔ ان ندی، نالوں کا پانی ہی جہلم، سندھ اور چناب کو بہاؤ فراہم کراتا ہے۔
علاوہ ازیں سلسلہ کوہ ہمالیہ میں گلیشئروں کے پگھلنے کی رفتار بھی دنیا کے دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ ہے۔ سرحدی علاقوں میں ان کی موجودگی سے ان پر سرکاری رازداری قانون کا اطلاق ہوتا ہے، جس سے ان پر تحقیق ہی محدود ہو جاتی ہے۔
ہندوستان میں دریائے گنگا اور اس کے گلیشئرز کو بچانے کے لیے ہندوستان کی مرکزی اور ریاستی حکومتیں خاصی پرعزم دکھائی دیتی ہیں۔ دوسری طرف سندھ طاس گلیشئرز کی حفاظت کو نظر انداز کیا جاتا ہے، بلکہ مذہبی یاتراؤں کے نام پر ایک طرح سے ان کی پامالی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
اقتدار میں آنے کے فوراً بعد وزیر اعظم نریندر مودی حکومت نے نہ صرف گنگا کو بچانے اور اس کی دیکھ ریکھ کے لیے ایک علیحدہ وزارت قائم کی، بلکہ اس کام کے لیے اس سال ایک کھرب بیس ارب روپے بھی مختص کیے۔ 2008میں اتراکھنڈ صوبے کی اس وقت کی بی جے پی حکومت نے دریائے گنگا کے منبع ہندوؤں کے مقدس استھان گومکھ گلیشئر کو بچانے کے لیے وہاں جانے پر سخت پابندیاں عائد کر دیں‘ جس کی رو سے اب ہر روز صرف 250 یاتری اور سیاح گومکھ کے درشن کر پاتے ہیں۔
اس کے برعکس ہر سال روزانہ تقریباً 20 ہزار یاتری سندھ طاس ندیوں کے منبع کولاہی اور تھجواسن گلیشئرز کو روندتے ہیں۔اس سال بتایا جاتا ہے کہ ریکارڈ تعداد میں ہندو یاتریوں کو ان گلیشیر کے درشن کے لیے لایا جا رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت زیادہ سے زیادہ سیاحوں اور تیرتھ یاتریوں کی آمد کو حالات کے معمول پر لوٹنے کے ساتھ نتھی کرتی ہے۔ پوری دنیا میں اور ہندوستان میں عوام کو بتانے کے لیے کہ کشمیر میں حالات نارمل ہیں، وہ سیاحوں کی تعداد بتاکر اس کو بطور پروپیگنڈہ استعمال کرتی ہے۔
حال ہی میں حکومت نے ایک اور روایت قائم کرکے پیر پنچال کے پہاڑوں میں واقع کوثر ناگ کی یاترا کی بھی منظوری دی تھی۔ لیکن وادی کشمیر میں سخت عوامی احتجاج کے باعث اسے روکنا پڑا۔ پہاڑوں میں واقع صاف شفا ف اور آلودگی سے پاک پانی کا یہ چشمہ جنوبی کشمیر میں اہربل کی مشہور آبشار، دریائے ویشو اور ٹونگری کو پانی فراہم کرتا ہے۔ بعض ناعاقبت اندیش کشمیری پنڈتوں کو آلہ کار بنا کر ہندو فرقہ پرست قوتوں نیز حکومت نے امرناتھ یاترا کی طرح کوثر ناگ یاترا چلانے کا اعلان کیا۔
چند سال قبل کشمیر میں آئے سیلاب نے جگانے کے لیے خطرے کی گھنٹی بجائی تھی۔
کہاوت ہے کہ پہاڑ کی جوانی اور ندیوں کی روانی وہاں کے مکینوں کے کام نہیں آتی، بلکہ اس کا فائدہ میدانوں میں رہنے والے کسانوں، کارخانوں کو ملتا ہے، اور ان کی ہی بدولت شہر اور بستیاں روشن ہوتی ہیں۔ اس لیے پہاڑوں میں رہنے والے وسائل کے محافظین کو ترقی میں حصہ دلانا لازمی ہے۔
دونوں ممالک سے بھی گزارش ہے کہ سندھ طاس معاہدے سے آگے بڑھ کر ماحولیاتی تبدیلی اور قدرتی وسائل کی حفاظت کے لیے مل کر کوئی مشترکہ لائحہ عمل وضع کریں۔
Categories: فکر و نظر