خبریں

ہندو مہاپنچایت میں ہریانہ حکومت کو ایک مہینے میں گائے کی اسمگلنگ اور گئو کشی ختم کرنے کا الٹی میٹم

ہریانہ کے نوح ضلع میں ‘ہندو مہاپنچایت’ بلائی گئی تھی، جس میں گئو رکشکوں کے خلاف درج ایف آئی آر کو واپس لینے اور انہیں لائسنسی اسلحہ دینے سمیت کئی مطالبات کیے گئے۔ یہ مہاپنچایت نوح میں ان واقعات کے بیچ  بلائی گئی تھی جن میں مبینہ طور پر گئو رکشکوں کے گروپوں نے مسلم نوجوانوں کو پیٹنے کے ساتھ ان اغوا کیا اور ان پرمویشیوں کی اسمگلنگ اور گئو کشی کا الزام لگایا گیا تھا۔

Cow-Vigilante-Nuh-Muslims

نئی دہلی: ہریانہ کے نوح ضلع کے سانگل گاؤں میں 8 مئی کو  ایک ‘ہندو مہاپنچایت’ نے گائے کی اسمگلنگ کے معاملوں کی شنوائی  کے لیے ایک اسپیشل اسپیڈی کورٹ قائم کرنے کے علاوہ گئو رکشکوں کے خلاف درج ایف آئی آر کو واپس لینے اور انہیں لائسنسی اسلحہ دینے سمیت کئی مطالبات کیے گئے۔

مہاپنچایت میں مبینہ طور پر وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور گئو رکشا دل کے ارکان نے شرکت کی۔ میٹنگ میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت والی ریاستی حکومت کو میوات میں گائے کی اسمگلنگ اور گئو کشی کے مسئلے کو ایک ماہ کے اندر ختم کرنے کا الٹی میٹم دیا گیا۔

مہاپنچایت کے شرکاء نے مطالبہ کیا کہ جانوروں کی اسمگلنگ کے تمام معاملوں کی شنوائی  ایک اسپیڈی کورٹ میں کی جائے۔ انہوں نے گائے کی اسمگلنگ اور گئو کشی میں ملوث افراد کی جائیدادوں کی قرقی اور نیلامی کا بھی مطالبہ کیا۔

سوہنا انتخابی حلقہ سے بی جے پی  ایم ایل اے سنجے سنگھ کو بھیجے گئے ایک خط میں مہاپنچایت نے گئو رکشکوں کے خلاف درج تمام ایف آئی آر کو ردکرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، مہاپنچایت میں شامل لوگوں نے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ضلع سطح کی کمیٹی تشکیل دی جائے، گائے کے اسمگلروں کی گاڑیوں اور املاک کو ضبط کرکے نیلام کیا جائے اور اس سے حاصل ہونے والی رقم گئو شالوں کو دی جائے، ان معاملوں کی شنوائی کے لیے لیے فاسٹ ٹریک کورٹ قائم کیے جائیں، اس کے علاوہ گئو رکشکوں کو لائسنسی اسلحہ دیا جائے اور ان  کے خلاف درج ایف آئی آر واپس لی جائے۔

اس میں شامل افراد نے کہا کہ، اگر ان مطالبات پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی تو ہم ‘جیل بھرو’ تحریک کے لیے تیار ہیں۔ ہم نے ایک تحریک شروع کر رکھی ہے اور جب تک گئو کشی مکمل طور پر بند نہیں ہو جاتی تب تک نہیں رکیں گے۔

اس میٹنگ میں مبینہ طور پر بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد اور گئو رکشا دل کے ارکان نے شرکت کی۔

نوح کے ڈپٹی کمشنر اجے کمار نے کہا کہ حکام نے مہاپنچایت کے منتظمین کو اس شرط پر جمع ہونے کی اجازت دی تھی کہ امن و امان کو برقرار رکھا جائے گا۔

میٹنگ کی اجازت کے لیے جو شرائط رکھی گئی تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اسلحہ لے جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس کے باوجود کچھ رپورٹ کے مطابق کم از کم تین لوگوں کو بندوقیں اور بہت سے دوسرے لوگوں کو تلواریں اور کلہاڑی لے جاتے  ہوئے دیکھا گیا۔

سوہنا کے بی جے پی ایم ایل اے سنجے سنگھ نے میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ مہاپنچایت کے مطالبات اور میمورنڈم وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کو دیں گے۔

میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے سنیکت ہندو سنگھرش سمیتی کے قانونی مشیر، کل بھوشن بھاردواج نے دھمکی دی کہ اگر گئو رکشکوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تو وہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ موجودہ حکومت دوبارہ اقتدار میں نہ آئے۔

انہوں نے کہا، یہ پوچھا جا رہا ہے کہ لوگ ہتھیار کیوں لہرا رہے تھے۔ میں انتظامیہ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آج یہ گئو بھکت صرف اپنی موجودگی درج کرانے آئے ہیں، لیکن اگر ضرورت پڑی تو ہم ان ہتھیاروں کو زنگ نہیں لگنے دیں گے۔ ہم لڑیں گے۔

واضح ہو کہ مہاپنچایت فیروز پور جھرکا انتخابی حلقہ سے کانگریس ایم ایل اے ممن خان کے ‘گئو رکشکوں’ کے خلاف تبصرے کے جواب میں بلائی گئی تھی، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث گئو رکشکوں کو ضلع کے گاؤں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

رپورٹ کے مطابق، خان نے کہا تھا کہ ہم نے انتظامیہ سے کہا ہے کہ ہم یہ برداشت نہیں کریں گے کہ یہ لوگ ہمارے گاؤں میں داخل ہوں اور لوگوں کا اغوا کریں۔

خان کا یہ بیان نوح میں ہونے والے کئی حالیہ واقعات کے بعد آیا، جس میں گئو رکشکوں کے گروہوں نے مسلمانوں کو مارا پیٹا اور اغوا کیا اور ان پر مویشیوں کی اسمگلنگ اورگئو کشی کا الزام لگایا تھا۔

گزشتہ 23 اپریل کو نوح کے شیخ پور گاؤں کے رہنے والے صاحب حسین پر مبینہ طور پر پستول سے لیس 20-25 گئو رکشکوں کے ایک گروپ نے حملہ کیا تھا۔

حسین کو ایک گروپ کار میں بٹھاکر لے گیا تھا اور اس کے بعد نوح پولیس نے ان کے خلاف ہریانہ گئو ونش سنرکشن اور گئو سموردھن ایکٹ 2015 کی دفعہ 13(1) اور 13(3) کے تحت معاملہ درج کیا تھا۔

اس واقعے کا دو ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا، جس کے بعد تین یا چار نامعلوم افراد کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 286 ، 294 ، 323 اور 342 کے تحت معاملہ درج کیا گیا تھا۔

مقامی لوگوں نے مبینہ طور پر حملہ آوروں کی شناخت کی اور الزام لگایا کہ ان میں سے کچھ کا تعلق بجرنگ دل سے ہے۔

آس پاس کے دو گاؤں – بسئی میو اور راوالی – سے بھی اسی طرح کے واقعات کی اطلاع ملی تھی، جہاں گائے کی اسمگلنگ کے الزام میں مبینہ طور پر گئو رکشکوں نے ہوا میں گولیا ں چلائی تھیں، مقامی لوگوں پر حملہ کیااور گائے کی اسمگلنگ کے الزام میں لوگوں اغوا کیا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)